ۜ78 سال کا ایٹمی نو مولود

قائد اعظم کی انتھک محنت اور برصغیر کے مسلمانوں کی لازوال قربانیوں سے 78سال پہلے جو ریاست مذہبی تفرق سے وجود میں لائی گئی تھی اُس کے وجود کا شور بغیر سلنسر کے موٹر سائیکل اور بچوں بڑوں کے منہ سے لگے بے ہنگم سماعتوں کو چیرنے والے باجے کے شور سے ہوا ۔راوی نے دیکھا کہ جو ملک مذہب کی بنیاد کو سامنے رکھ کر بنایا گیا اُس کی مساجد کہہ لیں کہ نمازی کم اور بازاروں میں ناچتی گاتی قوم کی تعداد شمار سے باہر ہے ۔قوم کے اس کردار سے یہ بات غلط نہیں ہوتی کہ ہندو ،مسلم کے جدا مذاہب کے پیش نظر یہ تقسیم عمل میں لائی گئی کیونکہ مسلمان وہاں کسی صورت محفوظ نہیں تھے اور نہ مذہبی آزادی حاصل تھی 14اگست1947میں آزادی کے ساتھ مذہبی آزادی کی سہولیات ملنے کے باوجود ہماری قوم کے اس مذکورہ عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قوم کی تربیت کرنے میں کسی بھی ادارے نے اپنا مثبت قابل ِ قدر کردار ادا نہیں کیا اور یوں یہ قوم دیگر اقوام ِ عالم کے مقابلے میں بے شعور ی کا شکار ہو گئی جس کا اظہار اُس نے اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے سڑکوں پر ناچتے ہوئے گزارا ۔دھائیوں پہلے بھی قانون کی آنکھوں پر بندھی پٹی دیکھی جو آج بھی اُسی حالت میں دیکھنے کو ملتی ہے تجزیہ نگار صائمہ شاہد کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے کے ترازو میں انسانیت کا پلڑا ہلکا اور دولت کے پلڑے کا بھاری ہونا بدترین زوال کی علامت ہے دل ماتم کناں ہوا کہ جو ملک اسلام کی ترویج کے لئے اللہ اور رسول اکرم ﷺ کے احکامات کی بجا آوری کے لئے لیا گیا تھا آج جشن آزادی سے کچھ دن پہلے اکابرین ِ حکومت نے مسجد کو شہید کر دیا مقام ِ عبرت ہے اُن سرکار کے اہلکاروں کے لئے جنھوں نے مسجد کو گرانے میں بجلی جیسی پُھرتی دکھائی اور مسجد میں موجود کئی قرآن پاک کی جلدوں کو بھی دفن کر دیا گویاہمارے ریاستی اکابرین مذہبی آداب سے اپنے دین کے احترام سے آذاد ہو چکے ہیں 78سال پہلے جس ملک و ملت کا خواب علامہ اقبال کا تاریخ کے پردے پر دکھایا گیا تھا اُس کی اُلٹی تدبیر نہیں کئی تدبیریں اک زمانے سے نوشتۂ دیوار ہیں جسے خواندہ لوگ نہیں احساس کا جذبہ رکھنے والے محسوس کر سکتے ہیںکہ ہم اپنی ریاست کے نظم و نسق کی ترتیب میں اس کے آئینی تقاضوں کے عمل میں کتنے مخلص رہے ہیں سب سے اہم بات یہ کہ ہم نے اپنی اسلامی ریاست میںلارڈ میکالے کے قوانین کو کیوں جلا بخشی ہوئی ہے ؟ ہم نے اسلامی قوانین پر مبنی نظام ِ حکومت کیوں نہیں قائم کی اور اپنی معیشت کو اسلامی طور طریقوں سے چلانے کی بجائے سودی نظام کو کیوں اپنایا جس کی اللہ تعالی اور رسول اکرم حضرت محمد مصطفٰی ﷺنے سختی سے ممانعت کی ہوئی ہے ؟ہم ان 78سالوں میں خلفائے راشدین کے طرز ِ حکومت کی پیروی کرنے میں کیوں ناکامی سے دوچار ہیں ؟یاد آیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک دفعہ جمعہ کی نماز میں تاخیر سے آئے تو صحابہ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وجہ پوچھی تو بتایا کہ چونکہ میرے پاس کرتا ایک تھا اسے دھونے کے بعد خشک کرتے ہوئے دیر ہو گئی آپ میرے کرتے کو ہاتھ لگا کر دیکھ لیں ابھی بھی پوری طرح خشک نہیں ہے گیلا ہے تو صحابہ کرام ناراضگی پہ شرمندہ ہوتے ہوئے رو پڑے کہ براعظموں پر حکومت کرنے والا خلیفہ ایک سے دوسرا کرتا نہیں رکھتا ۔عصر حاضر میں تو ایسی کوئی مثال کسی اسلامی حکومت میں دیکھنے کو نہیں ملتی افغانستان میں البتہ اسلامی احکام کی روشنی میں بنی حکومت کا چہرہ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ہم اس سعادت سے محروم روز ِ اول سے ہیں لوگوں کا طرز ِ عمل معاشرتی تربیت میں دین ِ اسلام کے احکام سے لاعلم ہونے پر بہت سی غیر اسلامی روایات نے پختہ جنم لے لیا ہے جو اسلام سے ریاست کو دور کرنے میں معاونت کر رہی ہیں سودی نظام ِ معیشت ہماری اس اسلامی ریاست میں 1959سے عمل پذیر ہو کر ہمیں دائرہ اسلام سے باہر دھکیلنے میں کامیابی سے رواں ہے میں یہ سمجھتاہوں کہ پاکستان میں بے روزگاری کی موجودہ 30فیصد شرح کا وجود میں آنا اس موجودہ نظام ِ معیشت کی وجہ سے ہے جس کی بنیادیں سودی لین دین پر قائم ہیں سود کے اس خاموش عذاب سے وطن ِ عزیز کے 22فیصد نوجوان جنہوں نے مستقبل میں ریاست کا ستون بننا ہے وہ طبقہ ڈگریاں ہاتھوں میں لئے سائل بسمل کی طرح زمانے کی نظراندازیاں دیکھ کر دکھی سا ہو گیا ہے مہنگائی کے بے لگام گھوڑے کی روز کی دوڑتی رفتار سے 60فیصد عوام کی قوت خرید ہی جواب دے گئی ہے مہنگائی و بے روزگاری کی وجہ سے 30لاکھ سے زائد نوجوان اپنا دیس چھوڑ کر دیار ِ غیر میں رزق کمانے نکل گئے ہیں مگر یہ سلسلہ رکا نہیں کچھ لوگ پریشانیوں سے تنگ آکر غیر قانونی طریقے سے دوسرے ملکوں میں بسیرا کرنے کے لئے اپنی زندگی کو دائو پر لگانے سے بھی نہیں کترا رہے سمجھ نہیں آتی کہ اللہ کے نظام پہ بننے والا یہ میرا پیارا پاکستان 78 کا ایٹمی نومولود بچہ بڑا کیوں نہیں ہو رہا ہے یہ اپنے اسلامی نظام کو اپنانے سے کیوں خائف ہے اس کی عدالتیں کیوں انصاف کو بلاتفریق دہلیز ِ انسانیت پہ مہیا کر سکتیں سیاست کب اس ملک کی عوام کو معیشت کی آسانیاں مہیا کرنے میں کامیابی ہمکنار ہو گی ؟ سیاست کب جھوٹ کا لبادہ اتار کر سچائی کا سامنا دلیری سے کرنے کے قابل ہو گی 78سال کے طویل عرصے میں ریاست نے صرف ایٹمی طاقت کا اعزاز پایا ہے اس طاقت کے سوا بس اللہ کی مدد ہے جو یہ ریاست ِ پاک گرداب میں پھنسنے کے باوجود بھی رواں ہے ہم دعا ہی کر سکتے کہ اللہ اس 78سال کے ایٹمی نومولود کو جلد بالغ کرے تاکہ اس کی بچکانہ حرکات کا خاتمہ ہو اور یہ اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ آگے بڑھ سکے ۔



