پیوٹن کا جنگ بندی کیلئے یوکرین سے ڈونباس خالی کرنے اور نیٹو کی رکنیت چھوڑنے کا مطالبہ

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے مطالبہ کیا ہے کہ یوکرین مشرقی ڈونباس کے باقی علاقے روس کے حوالے کرے، نیٹو میں شامل ہونے کی کوشش ترک کرے اور غیرجانبدار پالیسی اپنائے۔ یہ انکشاف تین ایسے ذرائع نے کیا ہے جو کریملن کی اعلیٰ سطحی سوچ سے واقف ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی الاسکا میں چار سال بعد پہلی ملاقات ہوئی، جس میں تین گھنٹے تک تقریباً صرف یوکرین پر بات چیت ہوئی۔ پیوٹن نے ملاقات کے بعد کہا کہ یہ بات چیت امن کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تاہم تفصیلات نہیں بتائیں۔ذرائع کے مطابق پیوٹن نے گزشتہ سال جون میں کیے گئے مطالبات میں کچھ نرمی دکھائی ہے۔ اس وقت وہ ڈونباس (ڈونیٹسک اور لوہانسک) کے علاوہ جنوبی یوکرین کے خیرسون اور زاپوریزیا پر بھی مکمل قبضے کا مطالبہ کر رہے تھے، جسے یوکرین نےہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔تاہم نئے تجویز کردہ منصوبے میں روس صرف ڈونباس کے مکمل خالی کرانے پر زور دے رہا ہے، جبکہ زاپوریزیا اور خیرسون میں موجودہ محاذی لائن پر رکنے پر آمادہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ روس ان کے بدلے خارکیف، سومی اور دنیپروپیٹرووسک کے کچھ چھوٹے علاقوں سے دستبردار ہونے پر بھی تیار ہے۔پیوٹن بدستور اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ یوکرین نیٹو کی رکنیت کی خواہش چھوڑ دے اور امریکا کی قیادت میں اتحاد مشرق کی طرف مزید نہ بڑھے۔ اس کے ساتھ ہی یوکرین کی فوجی طاقت پر پابندیاں اور مغربی افواج کو یوکرین کی سرزمین پر تعینات نہ کرنے کی شرط بھی شامل ہے۔یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے ان شرائط کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈونباس پر دستبردار ہونا ملک کی بقا کو خطرے میں ڈال دے گا اور نیٹو میں شمولیت ان کے آئین میں درج اسٹریٹجک ہدف ہے۔امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں اور روس، یوکرین اور امریکا کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق "پیوٹن امن کے لیے تیار ہیں”، لیکن یورپی رہنماؤں نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے کہ آیا روسی صدر واقعی جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ماہرین کے مطابق یوکرین کے لیے ڈونباس چھوڑنا نہ سیاسی طور پر ممکن ہے اور نہ ہی اسٹریٹجک اعتبار سے۔ اس لیے اصل امتحان یہ ہے کہ آیا فریقین ورکنگ لیول پر کوئی عملی معاہدہ طے کر پاتے ہیں یا نہیں۔