ہفتہ وار کالمز

کعبہ کس منہ سے جائو گے؟

یہ کالم شروع کرنے سے پہلے دیر تک سوچتا رہا کہ اس کا عنوان وہ ہو جو اوپر لکھا ہے یا کہ یہ ہو’’ساون کے اندھے کو سب ہرا ہرا ہی نظر آتا ہے‘‘بہر حال کالم کا عنوان وہی رکھنے کا فیصلہ اسلئے کیا کہ جس کھلے منافق کے بارے میں یہ عنوان طے کیا ہے اس کے قول و فعل میں اس بلا کا تضاد ہے کہ وہ اپنے اصل کعبہ، یعنی واشنگٹن یاترا پہ جس دھڑلے سے جاتا ہے اسی بے شرمی اور منافقت کے ساتھ، سرکاری خرچہ پر عمرہ کرنے کیلئے بھی مسلمانوں کے کعبہ کا رخ کرتا ہے! اسد اللہ خان غالب تو سیدھے سادھے انسان تھے جنہیں منافقت دور دور بھی چھوکے نہیں گئی تھی ۔ اسی لئے انہوں نے اپنی کمزوریوں کا برملا اعتراف کرتے ہوئے بلا جھجک کہہ دیا کہ
؎کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی!
مرزا کو شرم آتی تھی، اپنی بشری کمزوریوں کو وہ منافقت یا جعل سازی سے چھپانے کے نہ عادی تھے نہ قائل اسی لئے خوفِ خدا کرتے ہوئے وہ اعتراف کرتے تھے کہ ان جیسے شراب کے رسیا کیلئے کعبہ جانے کے راستے بند تھے اور بند یوں تھے کہ انہیں اپنی بشری غلطیوں کا احساس تھا! لیکن وہ بے شرم اور بے حیا پاکستانی فوج کا سپہ سالار جس نے قوم کے سب سے مقبول رہنما کو بلاجواز دو برس سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا ہوا ہے، جو عمران خان کی دشمنی میں پاگل ہو رہا ہے، اس میں اس بلا کی منافقت اور ریا کاری ہے کہ وہ اپنے سیاہ کرتوت کے باوجود اس کا دعویدار ہے کہ اس کی فسطائیت میں پاکستان ترقی کے زینے چڑھ رہا ہے اس کے باوجود کہ جو خصوصی سرمایہ کاری کی تنظیم اس نے اپنے کٹھ پتلی وزیر اعظم بوٹ پالشیئے شہباز کے ساتھ مل کر بنائی تھی اور جس کی تاسیس کے موقع پر اس منافق نے یہ بلند بانگ دعویٰ کیا تھا کہ وہ دوست ممالک سے سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو ملک میں ممکن بنائے گا، لیکن خدا گواہ ہے کہ آجتک ایک دھیلے کی سرمایہ کاری بھی نہیں ہوسکی ! اس منافق کے کردار کا اندازہ تو اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنی تقرری سے تین دن پہلے یہ فوج کی ملازمت سے فارغ یعنی ریٹائرہوچکا تھا لیکن اس نے عمران کے دشمن نام کے شریف خاندان سے ساز باز کر رکھی تھی جس نے اسے ریٹائر ہوتے ہوئے بھی فوج کا سپہ سالار بنوادیا! عاصم منیر جو اپنے مخالفین کو فتنہء خوارج کہہ کے مطعون کرتا ہے وہ اس بلا کا منافق ہے کہ حافظ ہونے کا دعویدار بھی ہے لیکن اس کا ہر عمل ان خوارج کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے مولا علی کے دورِ خلافت میں سر اٹھایا تھا اور جن کے خلاف مولا نے نہروان میں جہاد کیا تھا ! اس یزیدِ پاکستان کا اصل کعبہ واشنگٹن میں ہے جہاں وہ چھہ ہفتہ میں دوسری بار اپنے سامراجی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے یاترا پر آیا ہوا ہے۔ بظاہر اس دورے کا جواز یہ بتایا جارہا ہے کہ خود ساختہ فیلڈ مارشل ،جنرل کوریلا کی ریٹائرمنٹ کی تقریبات میں شرکت کیلئے اپنے اصل
کعبہ میں پدھارے ہیں۔ اسی جنرل کوریلا کو پچھلے مہینے یزید نے بہادری کے کارناموں پر نشانِ امتیاز (ملٹری) سے نوازا تھا کیونکہ کوریلا کی طرح اس یزیدِ پاکستان کا کعبہ و قبلہ واشنگٹن کے ساتھ ساتھ تل ابیب بھی ہے۔ کوریلا کی سب سے بڑی شناخت یہ تھی کہ وہ پوری امریکی فوج میں اسرائیل کا سب سے بڑا حامی اور حمایتی ہے۔ وہ جو کہاوت ہے ناں کہ کند ہم جنس باہم پرواز تو یزید اور کوریلا کی مشترکہ پہچان یہ ہے کہ دونوں اسرائیل نواز اور صیہونیت کے رفیق ہیں۔! کم ظرف کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ اس کی ذرا سی بھی تعریف اسے کھجور جیسے بلند و بالا درخت کی پھلنگ پہ لیجاتی ہے اور ٹرمپ جیسا کائیاں ساہوکار عاصم منیر کی اس کمزوری کو نہ صرف بھانپ چکا ہے بلکہ اس سے پورا پورا فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ ٹرمپ نے اس چھٹ بھئیے کو وہائٹ ہاؤس میں لنچ کیا کھلادیا اسے تو یوں لگا جیسے اسے پاکستان کی شہنشاہی مل گئی ہو!
ٹرمپ جیسا بنیا جو چھٹ بھئیوں کی اوقات خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اس نے عاصم منیر کی جھوٹی تعریف کرکے اسے بے قیمت خرید لیا لیکن اس کم ظرف کی امریکی اور سامراجی غلامی کی قیمت پاکستان کی قوم ادا کرے گی جس کا آغاز ہوگیا ہے۔ پاکستانی قوم نے اپنے عسکری طالع آزماؤں کی سامراجی غلامی کی آج سے نہیں بلکہ ستر برس سے مسلسل بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ ایوب خاں سے جو امریکی غلامی کا دور شروع ہوا تو آج تک وہ تھما نہیں بلکہ ہر طالع آزما کی چیرہ دستیوں کے ساتھ اس غلامی میں اضافہ ہی ہوتا گیا ہے۔ ایوب نے امریکہ کے سامراجی عزائم اور توسیع پسندی کیلئے پاکستان کی سرزمین امریکی اڈوں کیلئے کھولنے کا جو ملت فروش کاروبار شروع کیا رنگیلے پرویز مشرف نے اسے انتہا کو پہنچا دیا!
سامراج کی توسیع پسند جنگ میں پاکستان کو جھونکے والا ضیا الحق تھا لیکن اب جو عسکری ٹولہ پاکستان میں فسطائیت کے جلوے دکھا رہا ہے اس کی امریکی اور صیہونی غلامی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان، جس کے بابائے قوم نے کھل کے صیہونی ریاست کے قیام کی مخالفت کی تھی اب اس کی صیہونی اور سامراجی غلامی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان میں کسی کی مجال نہیں کہ غزہ اور مقبوضہ فلسطین کی حمایت میں کوئی جلوس نکال سکے، کوئی جلسہ کرسکے اسلئے کہ یزیدیوں کو ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان کے سامراجی اور صیہونی سرپرست اور آقاء ناراض نہ ہوجائیں! عاصم منیر نے اپنی اس دوسری امریکی یاترا میں محب وطن پاکستانیوں کے ایک سرکاری اجتماع سے ٹمپا، فلوریڈا میں خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ان کا یہ دورہ اس بڑھتے ہوئے وسیع تر تعلقات کا اظہار ہے جس نے امریکی-پاکستانی تعلقات کو نئی جہتیں دی ہیں! اول تو یہ سرکاری محب وطن پاکستانی وہ ہیں جو پاکستانی اہلکاروں کے ساتھ تصویر کھنچوانے کو اپنے کامیاب سماجی رتبہ کی معراج گردانتے ہیں۔ ہم نے بھی چالیس برس سفارت کاری کی ہےاور خوب جانتے ہیں کہ ان منہ بولے محب وطن پاکستانیوں کی ذہنی ساخت کیا ہوتی ہے جس سے ہر سفیر اپنی کامیابی کیلئے فائدہ اٹھا نا جانتا ہے۔
لیکن عاصم منیر کا یہ دعوی کہ پاک-امریکی تعلقات میں نئی جہتیں پیدا ہورہی ہیں مضحکہ خیز ہے! امریکہ نے آج تک پاکستان کو ایک ٹشو پیپر سے زیادہ اہمیت نہیں دی اور آپ خوب جانتے ہیں کہ ٹشو پیپر کی کیا اوقات ہوتی ہے! امریکہ نے جب ضرورت محسوس ہوئی پاکستان کو استعمال کیا ہے، اور عسکری طالع آزماؤں کے ذریعہ استعمال کیا ہے کیونکہ ان وردی والے ملت فروشوں کی اوقات سامراج خوب جانتا اور پہچانتا ہے! اسے معلوم ہے کہ پاکستان کو اپنی موروثی جاگیر سمجھ کے اس پر مسلسل قبضہ رکھنے والے یہ عسکری طالع آزما اور ان کے سیاسی گماشتے اور کٹھ پتلیوں کی اوقات کیا ہے اور ان کی ہوس ِاقتدار کے پہلو بہ پہلو ان کی ہوسِ زر کیسے ان پر قابض رہتی ہے! تو ان ہوس کے پجاریوں کی بھوک مٹانے کا نسخہ سامراج کو بخوبی معلوم ہے! اسے معلوم ہے کہ ان چھٹ بھئیوں کی انا کو کیسے تسکین ملتی ہے اور یہ کتنی معمولی قیمت پر پاکستان کے مفادات کا سودا کرلیتے ہیں۔ ٹرمپ جیسا ساہوکار عاصم منیر کی اوقات جان گیا ہے اور اس سے بھرپور استفادہ کر رہا ہے۔ یہ تو عمران خان ہی تھا جس نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ پاکستان کسی کی غلامی قبول نہیں کرے گا اور اسی نعرہء مستانہ کی وہ قید و بند میں رہ کر قیمت چکا رہا ہے۔ عاصم منیر میں اگر فراست اور دانشمندی کی رمق بھی ہوتی تو وہ ٹرمپ کے ہاتھوں نریندر مودی کا حشر دیکھ کے عبرت حاصل کرتا۔ یہ وہی نریندر مودی ہے جو ٹرمپ کو اپنا جگری دوست سمجھتا تھا لیکن ٹرمپ نے چائے والے کو اس کی اوقات دکھا دی، یہ کہہ کر کہ بھارت کی معیشت مردہ ہے ! پاکستان سے ٹرمپ کو وہ نایاب دھاتیں چاہئیں جن کا سب سے بڑا ذخیرہ چین کے پاس ہے اور چونکہ چینیوں میں عزتِ نفس ہے، خود داری ہے لہٰذا ٹرمپ کے ٹیرف کے جواب میں ان نایاب دھاتوں کے ضمن میں چین نے ٹرمپ کو ٹھینگا دکھا دیا اور صحیح کیا اسلئے کہ زندہ قوموں کیلئے عزتِ نفس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا!لیکن پاکستان کے عسکری طالع آزما تو خود داری اور غیرت جیسی اقدار سے بالکل نا آشنا ہیں۔ یہ الفاظ تو ان جاہلوں کی لغت میں پائے ہی نہیں جاتے۔ تو اب ٹرمپ عاصم منیر جیسے کم ظرف اور کم اوقات کو دلیری اور ذہانت کے زبانی تمغے دیکے اس یزیدِ وقت سے اپنا الو سیدھا کر رہا ہے۔ کل کو جب اس کا کام نکل جائے گا تو وہ عاصم منیر کو بھی ایسے ہی کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دے گا جیسے مودی کو پھینکا ہے۔ اس کے سامنے اگر کوئی عاصم منیر کا نام لے گا تو طوطا چشم پوچھے گا، کون عاصم منیر؟!
لیکن کم ظرف اس بصیرت سے محروم ہوتا ہے جو عاصم منیر ہے۔ فی الحال تو وہ اس نشہء طاقت سے مغلوب ہے جس میں قرآن کے فرمان کے مطابق آنکھیں رکھتے ہوئے بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اسی لئے تو ہم نے سوچا تھا کہ اس کالم کا عنوان رکھیں ’’ساون کے اندھے کو ہرا ہرا ہی دکھائی دیتا ہے‘‘ اب آپ فیصلہ کیجئے کہ عنوان کیا ہونا چاہئے تھا لیکن ساتھ ہی اس پر بھی فکر کیجئے گا کہ جب تک آپ یہ سطور پڑھیں گے پاکستان کا یوم آزادی، 14 اگست، آگیا ہوگا۔ سوال اپنے سے کیجئے گا کہ کیا ہمارا ملک واقعی آزاد ہے؟ ہمیں تو نہیں لگتا۔ اپنوں کی غلامی بھی ہے، ان کی جو کم ظرف اور کم اوقات ہیں، اور غیروں کی غلامی بھی ہے۔ ایسے میں کیا آزادی اور کیا آزادی کا دن اور اس دن کی کیا خوشی !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button