کیا وردی والے اور ریاست واقعی دہشت گرد ہیں؟

گزشتہ ہفتے پاکستان کے صوبے خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک پریس کانفرنس میں بڑے کھلے ڈھلے انداز میں انکشاف کیا کہ صوبائی حکومت کے سکیورٹی اہلکار اور پولیس والے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے جب طالبان دہشت گردوں کو گرفتار کرتے ہیں اور جیلوں میں قید کرتے ہیں تو پاکستانی فوج کے اہلکار جنرل عاصم منیر کے حکم پر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں، آئی ایس پی آر اور ایم آئی کے ذریعے ان طالبان دہشت گردوں کو چھڑا کر لے جاتے ہیں، جواز یہ دیا جاتا ہے کہ یہ ہمارے بندے ہیں، یہ گڈ طالبان ہیں۔ اس پر علی امین گنڈاپور نے پاکستانی جنرلوں کو مشورہ دیا کہ اگر یہ واقعی آپ کے لوگ ہیں تو آپ انہیں پاکستان کی فوج میں ملازمت دیکر وردی پہنا دیں پھر جہاں کہیں بھی یا کشمیر میں بھیج دیں، ہماری بلا سے، مگر ہم ان طالبانوں کو فوج کی سرپرستی میں اپنے صوبے میں آباد نہیں ہونے دیں گے۔ اس کے علاوہ گنڈاپور نے کہا کہ اب سے ہم خیبرپختونخوا میں نہ کوئی نیا فوجی آپریشن ہونے دیں گے اور نہ ہی طالبان کے ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کی آڑ میں معصوم پختون شہریوں کو جان سے مارنے کی اجازت دیں گے۔ علی امین گنڈاپور کے اس بیان کو انڈین اور مغربی میڈیا نے بڑی شہ سرخیوں کیساتھ نشر اور شائع کیا ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا پہلے ہی اسامہ بن لادن کی سالوں تک ملٹری کمپائونڈ کے نزدیک رہائش اور پھر امریکن سیل فورس کے ہاتھوں ایبٹ آباد میں ہلاکت کے بعد سے پاکستانی فوج پر یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ طالبان کو پاکستانی فوج کی سرپرستی حاصل ہے۔ اب سرکاری سطح پر سرکار کے وزیراعلیٰ کی جانب سے اس انکشاف بلکہ الزام کے بعد اب یہ بات مصدقہ ہو گئی ہے۔ اب سے پہلے جب منظور پشتین ،محسن داوڑ، ایمل ولی خان اور دیگر فوج کے ستائے ہوئے لوگ یہ نعرہ لگاتے تھے کہ
یہ جو دہشت گردی ہے
اِس کے پیچھے وردی ہے!
تو اس نعرے پر ہم تلملا اٹھتے تھے، بہت غصہ آتا تھا اور ینگ ترنگ ریڈیو میں اس نعرے کے خلاف بنائے ہوئے آئی ایس پی آر کے نغمے نشر کیا کرتے تھے، مگر جوں جوں یہ حقائق ہمارے سامنے آتے گئے، تھینکس ٹو سوشل میڈیا، ہماری بھی آنکھیں کھلتی گئیں۔ مگر اب بھی ہم یہ تلخ حقائق بہت بوجھل دل کیساتھ آپ سے شیئر کرتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء، جنرل مشرف اور جنرل عاصم منیر جیسے چند کرپٹ جنرلوں کی وجہ سے ہماری پوری افواج بدنام ہوتی ہیں، ہمارے پیارے فوجی جوان اور سپاہی اس وقت یونیفارم میں باہر نہیں نکل سکتے ہیں حالانکہ سول حکومتوں کو گرا کر جنرلوں کی حکومت کرنے کی خواہش کے پیچھے دور دور تک عام فوجی کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ ہم اس بات پرقطعی یقین رکھتے ہیں کہ جب ہم رات گئے سوتے ہوئے خواب غفلت کے مزے لے رہے ہوتے ہیں یا دن میں ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں سڑکوں پر رواں دواں ہوتے ہیں تو ہمارا بہادر اور جری سپاہی دن کی چلچلاتی ہوئی دھوپ اور لُو میں اور راتوں کی کڑکتی اور لہو کو منجمد کر دینے والی سردی میں ہماری سرحدوں پر ہماری حفاظت کیلئے اپنے خاندان سے دور اپنا فرض ادا کررہا ہوتا ہے۔ یہ وہ فوجی ہے جس کا نہ کبھی آپ نے جنرل رانی کیساتھ معاشقہ سنا ہو گا اور نہ ہی مریم نواز کیساتھ تقریب میں ’’میرے رشک قمر‘‘ کا گانا انجوائے کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ گزشتہ ہفتے خیبرپختونخواہ کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا آئی ایس پی آر اور ایم آئی کے حوالے سے خوفناک انکشاف کے بعد اس ہفتے تیرہ وادی میں رونما ہونے والے ہولناک واقعے نے پاکستانی عوام کو ایک طرح سے سن کر کے رکھ دیا۔ وادیٔ تیرہ سے آنے والی اطلاعات، ویڈیوز اور تصاویر کے مطابق پاک فوج کی علاقے میں گولہ باری کے باعث ایک نو عمر لڑکی مارٹر گولہ لگنے سے جاں بحق ہو گئی۔ اہل علاقہ جو پہلے ہی اس قسم کی کارروائیوں اور ڈرون حملوں سے غصے میں بھرے بیٹھے تھے، وہ بچی کی لاش لیکر مظاہرہ کرنے ایک ملٹری انسٹالیشن کے سامنے مہمند خوص میں پہنچے تو پاکستانی فوجی نے ان پر سیدھی فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں کم از کم سات سویلین جاں بحق ہو گئے اور کافی لوگ زخمی ہو گئے۔ پہلے فوج کے ادارے آئی ایس پی آر نے اعلان کیا کہ یہ ہلاکتیں فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کی فائرنگ سے ہوئی ہے مگر جوں جوں تصویریں اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر آتی گئیں تو دنیا نے دیکھا کہ یہ گولیاں پاکستانی فوج اپنے معصوم شہریوں پر چلارہی تھی بالکل اسی طرح جیسے 26نومبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں نہتے مظاہرین کے سروں پر گولیاں داغی گئیں تھیں۔ پھر پورے علاقے میں ریاست کی سرپرستی اور حکم پر فوج نے فل ٹائم کرفیو نافذ کر دیا اور مظاہرین کو باہر دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم رائج کر دیا۔ علاقے کے آٹھ ہزار کے قریب پختون سروں پر قرآن لئے مقابلے کیلئے چل پڑے۔ اس تمام واقعے کا دردناک اور وحشت ناک اور دل دہلا دینے والا وہ منظر ہے جب سیاست ڈاٹ کام کے اینکر سہراب برکت نے ایک دس گیارہ سال کی بچی سے سوال کیا کہ بتائو ریاست کیاہوتی ہے؟ بچی نے جواب دیا، دہشت گرد۔
معروف بیرسٹر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے اپنے عہد جوانی میں قید کے دوران ایک نظم کہی تھی
ریاست ہو گی ماں کے جیسے
ہر شہری سے پیارکرے گی!
یہ ان کا خواب تھا پاکستانی ریاست کے حوالے سے مگر آج کے پاکستانی بچے کی نظر میں حقیقتاً ریاست ایک دہشت گرد بن گئی ہے جو اپنے شہریوں سے پیار کرنے کے بجائے نفرت کے گولے برسا رہی ہے۔ لیکن اس تمام صورت حال میں میرا اب بھی یہ سوال ہے کہ چندMentally Retarted جنرلوں کی وجہ سے میری فوج کیوں بدنام ہو، میرا سپاہی کیوں شرمسار ہو؟ جنرلوں کی یہ دہشت گردی کب تک چلتی رہے گی؟ خود ساختہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو میرے بہادر افواج کے سپاہی گرا کیوں نہیں دیتے، میرے جیالے کب تک ایک جنرل کی وجہ سے بدنامیاں اپنے سر اٹھاتے رہیں گے؟ پاکستان میرا ہے، فوج بھی میری ہے!