پاکستان الیکشن کمیشن کا اقلیتی سیٹوں کی تقسیم کے حوالے سے کیا ہوا فیصلہ آخر کار سامنے آگیا جس کے مطابق سنی اتحاد کونسل کے 92اراکین کے حوالے اقلیتی سیٹیں انہیں نہیں دی جائیں گی جو کہ ہر پارٹی کو اس کے ممبران کے تناسب سے الاٹ کی جاتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ سارے بانوے ارکان جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت کے ساتھ منتخب ہو کر آئے ہیں ان کا اصل تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے جس کی اس وقت دیگر دو پارٹیوں کے مقابلے میں قومی اسمبلی میں اکثریت ہے مگر کمیشن کی جانب سے بلے پر پابندی کے باعث انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور جیت کر سامنے آئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں بھی ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اب سے پیشتر کبھی کسی بھی الیکشن میں اتنی بڑی تعداد میں اراکین ایوان میں جیت کر نہیں آئے تھے مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا پہلے ہی دن سے پی ٹی آئی کیساتھ معاندانہ اور متعصبانہ رویہ رہا تھا لہٰذا اس رویے کو انتہا تک تو پہنچانا تھا کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو تحریک انصاف کے دور اقتدارمیں خود عمران خان نے نامزد کیا تھا تو اب رونا کس بات کا؟ لیکن وہ پورا سچ نہیں بیان کرتے۔ اس حوالے سے عمران خان کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ جب عمران حکومت اور اس وقت کی اپوزیشن پی ڈی ایم کے درمیان الیکشن کمیشن کی تقرری پر ڈیڈ لاک ہو گیا تھا تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی گارنٹی پر عمران خان اس کمشنر سکندر سلطان راجہ کی تقرری پر راضی ہوئے تھے کہ یہ بالکل غیر جانبدار بندہ ہے آپ اسے مقرر کر دیں اور اپوزیشن نے بھی بلا چون چراں سکندر سلطان راجہ کی تقرری پر حمایت کرنے کا اعلان کر دیا تھا تو آپ کو اندازہ ہوا کہ تختہ الٹنے کی اس سازش کا آغاز کب سے کر دیا گیاتھا اور پی ڈی ایم اور فوج شانہ بشانہ اس میں ملوث تھے۔ عمران خان کئی مرتبہ یہ واقعہ سنا چکے ہیں کہ جب عمران خان کرکٹ کے میدان میں قدم رکھ رہے تھے اور نئے نئے لوگوں سے تعلقات بن رہے تھے تو ان کی والدہ شوکت خانم اکثر اپنی چار صاحبزادیوں روبینہ خانم، علیمہ خانم، عظمیٰ خانم اوررانی خانم کے سامنے اپنے اس خدشے کا بار بار اظہارکرتی تھیں کہ انہیں اس بات کی بہت فکر ہے کہ عمران خان ہر شخص پر بنا سوچے سمجھے فوراً اعتبار کر لتیا ہے اور پھر بعد میں دھوکہ کھاتا ہے۔ وہ عمران خان کی بہنوں سے اس خطرے کا اظہار کرتی تھیں کہ کہیں مستقبل میں عمران خان اپنے اس رویے سے کوئی بڑا نقصان نہ اٹھائے۔ بیٹے کو ماں سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ شوکت خانم کے خدشے کا ثبوت آج عمران خان عرف قیدی نمبر 804کااڈیالہ جیل میں نظر بند ہونا ہے۔ عمران خان جو مخلص دوست ہیں وہ آج بھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ خان صاحب کو بندے کی پہچان کرنا نہیں آتی۔ جنرل باجوہ سے لیکر سکندر سلطان راجہ تک، جنرل فیض حمید سے لیکر جنرل عاصم منیر تک، علیم خان سے لیکر جہانگیر ترین تک، پرویز خٹک سے لیکر اعظم خان تک، شیخ رشید سے لیکر فواد چودھری تک، جس جس کو عمران خان نے اپنا بہی خواہ یا ساتھی سمجھا،ہر ایک نے انہیں دھوکہ دیا، طویل فہرست ہے اور وقت کم، بات دراصل یہ ہے کہ جو انسان خود کھرا اور مخلص ہوتا ہے وہ دوسرے انسان کو بھی اپنا ہی جیسا سمجھتا ہے۔ ہمارے خیال میں پاکستان کےکروڑوں انسان بھی عمران خان کی اس خصوصیت یا خامی کو سمجھتے ہیں جس کا ثبوت انہوں نے 8فروری کو ووٹ کے ذریعے عمران خان کے حق میں خاموش انقلاب برپا کر کے دیا ہے۔ پاکستان کی آئی ایس آئی، آئی اینڈ آئی، ایف آئی اے، آئی بی اور ایم آئی سمیت ساری انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اداروں کے تمام جائزوں اور سرویز کو 8 فروری والے دن کروڑوں پاکستانیوں نے مسترد کر کے اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ نو مئی کو جعلی واقعے کو کسی صورت وہ عمران خان اور تحریک انصاف سے منسلک نہیں سمجھتے جو عاصم منیر کا منہ چڑارہے ہیں۔ کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے عمران خان کی آواز، تصویر اور ویڈیوز پر پابندی کے ذریعے، تین دنوں میں بکی ہوئی عدلیہ کے ذریعے عمران خان کے خلا ف عدالتی فیصلے سنوانے اور کردار کشی کے بعد بھی جنرل عاصم منیر کا عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے منہ کالا کر دیا۔ گو کہ پشاور ہائی کورٹ نے اقلیتی سیٹوں کی تقسیم کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سٹے آردڑ دیا گیا ہے مگر اس کابھی وہی خشر ہو گا جو پہلے پشار ہائیکورٹ کے بلے کے نشان کے بحال کرنے کے فیصلے کا ہوا تھا۔ اس ضمیر فروش آدمی الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ نے اس آخری فیصلے کے دینے تک ماضی میں جو جو فیصلے تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف دئیے ہیں ان کی ایک لمبی طویل فہرست ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں: مقررہ مدت میں قومی اسمبلی کے الیکشنز نہ کرانا، پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد مقرر مدت میں الیکشنز نہ کرانا، تحریک انصاف کو ان کا انتخابی نشان بلا نہ الاٹ کرنا، انتخابی نتائج کو فارم 45کے بجائے جعلی فارم 47کے ذریعے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ناکام قرار دینا اور اب اقلیتی نشستوں کو چھین کر اپنی پسندیدہ جماعتوں کو بخشش میں دینا، سکندر سلطان راجہ کے خلاف اس وقت ملک بھر کے عوام میں جو نفرت اور حقارت کے جذبات پائے جاتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف، جنرل قمر جاوید باجوہ اور کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کی طرح سکندر سلطان راجہ بھی اپنی جان بچانے کیلئے اس حکومت کے گرنے سے پہلے ہی بیرون ملک فرار ہو جائے گا اور آرمی کی جانب سے دی گئی اربوں کی دولت کے بل بوتے پر اپنی بقیہ زندگی بمعہ اہل خانہ سکون اور عیاشی کے ساتھ گزار دے گا۔ رہ گئی پاکستانی عوام تو ہو کیئرز(Who Cares)
0