0

بے وجہ شور!

چھوٹے معصوم بچے کسی میدان کسی کمرے میں کھیل کود کر رہے ہوں تو بزرگوں کو نونہالان وطن کا یوں مشغول رہنا بھلا لگتا ہے مگر بسا اوقات ان کے کھیل کود کا دورانیہ ذرا بڑھ جائے تو اچھا لگنے کی بجائے بے وجہ شور لگتا ہے تو پھر انہیں پیار بھرے رعب دبدبے سے ،خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی ہے تا کہ ماحول پرسکون رہے ۔ ہم عوام حکمرانوں کے لئے ایسے ہی ناسمجھ بچوں کی طرح ہیں جنھیں قانون کے دبدبے سے ڈرا کر اخلاقیات راہ پر چلایا جاتا ہے تا کہ طول و عرض میں امن عامہ بحال رہے کہیں کوتاہی ہو جائے تو جگ ہنسائی سے،اعتراضات بھرے جملوں سے انا شدید متاثر ہوتی ہے ۔ایک ایسا ہی بیوجہ شور لاہور کے اچھرہ بازار سے اُٹھا جو علم سے بے خبر اور جنون سے بھرپور تھا اس ہجوم ِ انساںمیں انسانیت ڈھونڈے سے نہیں مل رہی تھی یہ تو بھلا ہو اے ایس پی شہربانو کا جن کی بروقت مداخلت سے ہمارے دین ِ اسلام کی عظمت دشمنان کی تحقیر سے محفوظ رہ گئی لیکن پھر بھی وطن کے ماتھے پر شرمندگی کے نشان چھوڑ گئی ہے جنونی جذبے سے سرشارہجوم کے بیوجہ شور کا سبب ایک گھریلو خاتون تھی جس نے ایک ایسا لباس زیب تن کیا ہوا تھاجس پر مصورانہ انداز میں عربی رسم الخط کی تشہیر سی تھی جس کا کلام ِ پاک کی آیات ِ کریمہ سے کوئی تعلق نہیں بنتا مگرچونکہ وہاں عربی کو جاننے والا کوئی نہیں تھا تو اکثریت نے لباس پہ لکھے عربی رسم الخط کو مقدس آیات ِ کریمہ سمجھا اس جاہلانہ طرز عمل سے جہاں ایک خاتون کو ہراساں کیا گیا اس کے ساتھ ساتھ اس ہجوم ِ جاہلاں کی جنونی کیفیت اتنی بڑھی کہ اس خاتون ِ خانہ کو بیگناہ ہوتے ہوئے بھی جان بخشی کے لئے معافی مانگنی پڑی کف ِ افسوس ملتے ہوئے تقسیم ِ ہند سے پہلے کا ایک واقعہ یاد آیا جو جاہلانہ سوچ تعصب پر مبنی تھا کہتے ہیں کہ سکھوں نے مسلمانوں کے بچوں کو گنے کے کھیتوں کے پاس مارنا شروع کر دیا بچوں کے شورو غل پر اپنے پرائے سب اکٹھے ہو گئے اور سکھوں سے پوچھا کہ ان معصوم بچوں کا مارنے کی وجہ کیا ہے ان کا کیا قصور ہے ان سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے ؟ تو سکھوں کی جانب سے جواب ملا کہ ان بچوں کا کوئی قصور نہیں مگر یہ ہمارے کنبے کی سوچ ہے کہ یہ مسلمان بچے جب بڑے ہو جائیں گے تو یہ ہمارے کھیتوں میں گھس کر گنے کھائیں گے اس لئے ان ڈرانے کے لئے مار رہے ہیں تا کہ مستقبل میں ہمارے کھیتوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اس خیال کی عملی تصویر لاہور کے مصروف بازار میں دیکھنے کو ملی ہے جو دلیل ہے اس بات کی کہ آج بھی ہم اس جدت کے دور میں زیور ِ تعلیم سے آراستہ ہونے کے باوجود بھی ناخواندہ ہیںمجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ چودہ سو سال پیچھے چلا گیا ہے جو بیٹیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتا تھا ایک نہتی عورت کو ہراساں کرنا اس پر حملہ آور ہونے کے لئے اس بات کو بنیاد بنانا کہ اُس کے لباس پر تحریر عربی زبان میں ہے راوی یہ سمجھتا ہے کہ حکومتوں کی کمزوری ہے جس کی وجہ سے مذہبی جنون کے واقعات بار بار جنم لیتے ہیں ناکامی ہے ان اداروں کی جو ریاست کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں ۔وطن ِ عزیز کا قیام مختلف مذہبی گروہ یا جماعتوں کے لئے نہیں ہے یہ تو ہر شہری کو بے خوف و خطر زندگی (قانون کے دائرے میں )گزارنے کے لئے بنایا گیا ہے مذہب کا احترام بیشک لازم و ملزوم ہوتا اہل ِ مذہب کے لئے اور ہمارا مذہب ہمارا دین جس کی حفاظت کا ذمہ پروردگار ِ عالم نے اپنے ذمے لیکر بہت سے اسلام دشمنوں کے عزائم کو خاک نشین کر رکھا ہے میں تو بلا ناغہ رب کریم کی عطاکی نعمتوں پر شکر گزار ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر فخر کرتا ہوں کہ اللہ نے کلمہ گو مسلمان پیدا کیا اور قابل فخر ہے یہ اعزاز کہ رب ِ کریم نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺکی اُمت میں پیدا کیا ہے مگر بشمول میرے ہم زندگی کو مکمل اسلامی سانچے میں نہیں ڈھالتے اور نہ ہی نبی کریم کی سنت کی مکمل پیروی کرتے ہوئے اپنی عاقبت کو سنوارتے ہیں تو مذکورہ واقعہ جیسے بلکہ اس سے بھی زیادہ اخلاقی سطح سے انتہائی نیچے کے واقعات کا ہونا عجب نہیں ہے کیونکہ ہماری تربیت عملی طور اسلامی نہیں ہے ہم دکھاوے کے طور سر پہ ٹوپی اور ہاتھ تسبیح پکڑ کر ضرورت کے تحت یہ روپ دھارتے ہیں اور ان حرکات پہ ضمیر کا شور و غوغا نہیں سنتے لیکن اپنی ناجائز غلط بات منوانے کے لئے بیوجہ شور کرنا عادت بنا لیتے ہیں میری اس بات کی دلیل موجودہ اسمبلیاں ہیںجہاں موئثر قانون سازی ،مہنگائی کے خاتمے کے لئے تمام جماعتوں کا میثاق ِ معیشت کرنے کی بجائے صرف اقتدار کے لئے بیوجہ شور ایک روایت بن چکا ہے اور بیشعور اسے جمہوریت گردانتے ہیں تو پھر ہمیں اچھرہ بازار میں ہراساں کی گئی خاتون کی معافی پر شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہم تو ہیں ہی ایسے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں