دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا !

چوبیس برس ہونے کو آرہے ہیں کہ یہ گنہگار مرزا غالب کے ایک آفاقی شعر کے پہلے مصرعہ کے عنوان سے یہ کالم لکھتا آیا ہے۔ سفر میں ہوں یا حضر میں یہ کالم ناغہ نہیں ہوتا!
لیکن آج سے پہلے ہم نے اس شعر کے مصرعہء ثانی کو عنوان نہیں بنایا تھا
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا!
اور آج حالاتِ حاضرہ کے تحت اس دوسرے مصرعہ کو کالم کا عنوان بناتے ہوئے ہمیں اللہ بخشے ہماری اماں بہت یاد آرہی ہیں۔
اماں ہماری کسی اسکول یا مدرسہ میں نہیں پڑھی تھیں۔ اس زمانے میں شرفاء کی بیٹیاں مدرسے یا مکتب میں نہیں پڑھتی تھیں۔ ان کی تعلیم و تربیت ساتھ ساتھ گھر پر ہی ہوتی تھی۔ تہذیب کا دور دورہ تھا، گنگ و جمن کی تہذیب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شرفاء کے گھروں میں علم کی روشنی بکھیرا کرتی تھی۔ اماں ہماری بھی بات بات میں محاورے اور شعر استعمال کرتی تھیں کہ اس دور کی خواتین کا یہی انداز، یہی تہذیب تھی۔
ہم نے آنکھ کھول کے اماں کی زبان سے دو کہاوتیں، دو محاورے، بار بار سنے تھے۔ ایک یہ کہ” کم اصل سے وفا نہیں اور اصل سے خطا نہیں” اور دوسرا، "بیٹا، سیر کے برتن میں سوا سیر پڑجائے تو برتن سے سہا نہیں جاتا۔”
اور آج پاکستان کا جو حال ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور نام نہاد اشرافیہ (بقول اماں کے کم اصل) جس طرح اقتدار کی مسندوں پر اچھل کود رہی ہے اور طاقت ان کم ظرفوں سے سہی نہیں جارہی تو یہی ہورہا ہے کہ سیر کے برتن میں سوا سیر جو پڑگیا ہے تو برتن سے سہا نہیں جارہا اور برتن کے چھلکنے سے پانی ہر طرف چھینٹیں برسا رہا ہے !
ایک کم ظرف جعلسازی سے عسکری قائد بن بیٹھا ہے اور کم اصل سے وفا نہیں کو اپنی کم ظرفی سے سولہ آنے درست ثابت کر رہا ہے۔ وہ جو مرحوم محسن بھوپالی نے کیا خوب کہا تھا، اور پاکستان کے ہر دورِ سیاست نے ان کے اس شعر کو سو فیصد کھرا ثابت کیا ہے کہ
مئے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
تو کم ظرف نے پہلا کام تو یہ کیا کہ کوئی کارنامہ جنگ کے میدان میں کئے بغیر اپنے آپ کو فیلڈ مارشل بنا لیا تاکہ فوج کی قیادت پر تا عمر براجمان رہے۔ اور یہ اس چھٹ بھیے کا عمل ہے جو اپنے آپ کو حافظِ قرآن کہتا ہے اور حاشیہ بردار اسی حوالے سے اس کی تشہیر بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن یہ حافظِ قرآن اللہ کی کتاب کی روح اور معانی سے قطعا” نابلد لگتا ہے اسلئے کہ اللہ تو اپنی کتاب میں بہت وضاحت سے کہہ رہا ہے کہ ظالم اور جابر حکمراں اللہ کے عتاب سے بچ نہیں سکتا!
عالم پاکستان میں عاصم منیر کے دورِ جبر و استبداد میں یہ ہے کہ مکمل فسطائیت کا راج ہے اور جو بولنے کی جرأت یا جسارت کرتا ہے اسے اٹھا لیا جاتا ہے اور یہ وہی حکومت کر رہی ہے جو جرنیلوں کے تابع فرمان کٹھ پتلیوں کی ہے اور ہر کام کرنے سے پہلے انتظار کرتی ہے کہ جی ایچ کیو سے کیا فرمان آتا ہے !
سامراج کا گرو گھنٹال، ٹرمپ، خود بھی اسی کم ظرفوں کےقبیلہ کا فرد ہے جس کی عاصم منیر پیداوار ہے لیکن گرو گھنٹال پاکستانی کم اصل کی اوقات خوب سمجھتا ہے۔ لہٰذا اس نے کم ظرف کی انا کو تسکین دینے کیلئے اسے لنچ پہ مدعو کرلیا۔ اس دعوت کے بعد تو خود ساختہ فیلڈ مارشل کو لگا جیسے اسے جنت کا پروانہ مل گیا ہو۔ بقول شخصے وہ تو کھمبے پہ چڑھ گیا۔
سیر کے برتن میں سواسیر پڑے تو یہی کچھ ہوتا ہے جو عاصم منیر کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ سامراجی میزبان نے اسے جو لنچ کھلایا تھا وہ مفت تو نہیں تھا۔ مغربی سامراج میں مفت کھانے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اور مرے پہ سو درے کے مصداق فیلڈ مارشل کو لنچ کھلانے والا وہ بنیہ صفت ہے جو ایک کے دس دام کھرے کرنا چاہتا ہے تو اب پاکستان کی کلائی مڑوڑی جارہی ہے کہ سامراج کے سرغنہ کو وہ قیمتی معدنیات چاہئیں جو بلوچستان میں ہیں، جو خیبر پختون خواہ کے اس قبائلی علاقہ میں ہیں جسے عمران کے اقتدار سے پہلے تک برطانوی دور کے نام، یعنی آزاد قبائلی علاقہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ عمران نے اس بدعت کو ختم کیا تھا اور یہ وہ کام تھا جو پاکستان بننے کے فوری بعد ہوجانا چاہئے تھا لیکن نہیں ہوا اور یوں نہیں ہوا کہ سامراج کے غلام پاکستان کی سیاست پر قائدِ ملت کو راستے سے ہٹانے کے بعد سے قابض ہوگئے تھے!
اب چونکہ فیلڈ مارشل کی آمریت اور فسطائیت کا دور دورہ ہے توآزاد قبائلی علاقہ کو پھر سے بحال کرنے کی بات ہورہی ہے۔ ملک مکمل طور پہ جرنیلی آمریت اور فسطائیت کے چنگل میں ہے، عدالتیں انصاف سے تہی جی ایچ کیو کے ذیلی ادارے بن چکی ہیں اور نیوز میڈیا جرنیلوں کی پھینکی ہوئی ہڈیوں کے انتظار میں ضمیر فروش اور قلم فروشوں سے بھرا ہوا ہے۔ تو ایسے میں سامراجی گرو گھنٹال کے غلام فیلڈ مارشل کو اپنے آقائے نامدار کی طلب پوری کرنے سے کون منع یا روک سکتا ہے؟
فیلڈ مارشل نے جن سے ساز باز کرکے، یعنی نام کے شریف جو پاکستان کی سیاست میں گھن کی حیثیت رکھتے ہیں، سپہ سالار کی پوزیشن حاصل کی تھی وہ کم ظرفی کی بہترین یا بد ترین مثال ہیں۔
اماں اللہ بخشے جو کہا کرتی تھیں کہ کم اصل سے وفا نہیں تو اس کا نقشہ عاصم منیر کی رعایت سے پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنی ہوئی مریم نواز میں بدرجہء اتم نظر آتا ہے۔ مریم کم ظرف کو اپنا نام ہر جگہ چاہئے۔ پنجاب، خاص طور پہ لاہور کے لوگ پریشان ہیں کہ جس جگہ جاؤ، وہ چاہے کوئی سڑک ہو، ہسپتال ہو، چوراہا ہو، چوک ہو، کلینک ہو، پل ہو یا اور جگہ وہ یا تو مریم کے نام سے منسوب ہے، یا نواز کے، یا شہباز کے۔ کسی ستم ظریف نے کیا خوب کہا کہ بس یہ کسر رہ گئی ہے کہ قبرستان پر بھی مریم نواز کا بورڈ لگا دیا جائے !
شریف خاندان کی کیا حیثیت ہے؟ لوہار خاندان کے جن کا باپ لاہور کی گلیوں میں ٹین کے برتن آواز لگا کے بیچا کرتا تھا! لیکن آدمی کائیاں تھا۔ اسے جرنیلوں کی بوٹ پالش کرنے کا ملکہ تھا اور اسی خدمت نے اس کے بڑے بیٹے کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنادیا اور پھر وارے نیارے ہوگئے۔
سنا ہے کہ پنجاب کے پرائمری مدارس میں بچوں کو پڑھایا جارہا ہے کہ میاں محمد شریف تحریکِ پاکستان کے سرگرم رکن اور قائدِ اعظم کے دستِ راست بھی تھے!
جو نہ ہوجائے ان کم ظرفوں، چھٹ بھیوں کے دور میں وہ کم ہے۔
لیکن خون بولتا ہے۔ کم ذات اپنے نام کے خود ہی ڈنکے پیٹتے ہیں یا اپنے جیسے کم ظرفوں سے ڈھول پٹواتے ہیں۔
لیکن اعلیٰ ظرف، اماں کی لغت میں اصل سے نہ خطا ہوتی ہے نہ اسے ضرورت پڑتی ہے اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی۔ اس کا کام خود اس کی حیثیت منوالیتا ہے۔
فاطمہ بھٹو ایک اصل بیٹی ہے، اعلیٰ ظرف اور تعلیم یافتہ بھٹو خاندان کی بیٹی جو اپنے دادا، ذوالفقار علی بھٹو کا دنیا میں نام روشن کر رہی ہے۔ وہ الجزیرہ کی عالمی چینل پر ہر ہفتہ وہ پروگرام اینکر کرتی ہے جس میں حالاتِ حاضرہ پر دنیا بھر کے ماہرین و مشاہیر گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن فاطمہ بھٹو نے ابھی حال ہی میں فلسطین اور غزہ کے مظلومین پر ایک کتاب مرتب کی ہے جس کی دنیا بھر میں دھوم ہے اور غزہ کے مظلوموں پر جو مظالم صیہونیت اور اس کے حلیف سامراجی دن و رات توڑ رہے ہیں اس کا ہر پہلو سے جائزہ لیا گیا ہے۔
اس کتاب کا ، جو انگریزی میں ہے، عنوان ہے: "غزہ: نسل کشی کی داستان۔”
اعلیٰ ظرف فاطمہ بھٹو کو چھچھوری مریم نواز کی طرح اپنے نام کی تشہیر کیلئے بورڈ لگوانے کی ضرورت نہیں ہے اسلئے نہیں ہے کہ اس کا کام بولتا ہے جبکہ اتھلی مریم کا کارنامہ یہ ہے کہ پنجاب میں بدترین سیلاب آیا ہوا ہے لیکن پنجاب حکومت کی نا اہلی دیکھئے کہ غریب دیہاتی اور کسان ایک عذاب میں گھیرےہوئےہیںلیکن کم حیثیت، کم اصل وزیرِ اعلیٰ کو اپنے نام کی تشہیر کے سوا اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ عقل کے اندھے یہی تو ہوتے ہیں۔!
لیکن اعلا ظرفی کی بہترین اور روشن و تابندہ مثال تو وہ قیدی 804 ہے جس کے حبسِ بیجا کو 5 اگست کو دوسال ہوجائینگے۔
کم ظرف فیلڈ مارشل کی ہر ممکن کوشش ہے کہ عمران پابندِ سلاسل ہی رہے۔ وہ سامراجی گرو گھنٹال کی ہر ہوس، ہر ناجائز مطالبہ پورا کرنے کیلئے سر توڑ کوشش کر رہا ہے، کھلے عام ملت فروشی کر رہا ہے، صرف اسلئے کہ عمران خان کی رہائی کیلئے امریکہ کی طرف سے اسے کسی دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ ہے چھٹ بھیوں کی اندھیر نگری اور چوپٹ راج جس میں کم ظرف بندروں کی طرح اقتدار کی مسندوں پر اچھل کود رہے ہیں اور اعلیٰ ظرف جو اپنے ضمیرکا سودا کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔
اماں سچ ہی کہتی تھیں: کم اصل سے وفا نہیں اور اصل سے خطا نہیں۔
اور یہ کھرا سچ وطنِ عزیز میں منہ سے بول رہا ہے !