سازشی تھیوری کا انجام

پاپولسٹ سیاستدان کہانیاں سناتے رہتے ہیں اور لوگ ان پر سر دھنتے رہتے ہیں۔ یہ کہانیاں اسوقت زیادہ دلچسپ ہو جاتی ہیں جب ان پر کرپشن‘ ملک دشمنی اور عوامی استحصال کے ٹیکے لگا دئے جاتے ہیں۔ ریاستی اہلکاروں کی کرپشن‘ نا اہلی ‘ سستی اور لا پرواہی کے چرچے تو ہر ملک میں ہوتے رہتے ہیںلیکن ان چرچوں سے مقبولیت صرف انہی سیاستدانوں کو ملتی ہے جو انہیں ایک سازشی تھیوری کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ یہ ماہرین ِفن اپنی کہانی میں یہ مرچ مصالحہ بھی لگا دیتے ہیں کہ وطن دشمنوں کا ایک گروہ ریاست کی جڑوں میں پانی دے رہا ہے‘ وہ اسکے ہر فرد کو جانتے ہیں مگر انکے نام وقت آنے پر ہی ظاہر کئے جائیں گے۔ برسوں سے ظلم اور استحصال کی چکی میں پسے ہوے لوگ یہ کہانی سنانے والے کو مسیحا تسلیم کر لیتے ہیںاور یہ آس لگا لیتے ہیں کہ اس کے حکمران بنتے ہی ظلم اور جبر کی طویل رات ختم ہو جائے گی اور دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ عوام اور مسیحا کے اس تعلق کا نقطہ ٔعروج وہ ہوتا ہے جب مسیحا اقتدار کے سنگھاسن پر برا جمان ہو جاتاہے۔وہ ہر روز نت نئے داخلی اور خارجی معاملات میں الجھ کر یہ بھول جاتا ہے کہ ڈیپ سٹیٹ کے خلاف اس نے جو سازشی تھیوری سنائی تھی لوگ اسکے کرداروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے بیتاب ہیں۔ امریکہ آج کل ایسی ہی ایک سازشی تھیوری کی لپیٹ میں ہے جو صدر ٹرمپ نے درجنوں مرتبہ سنائی ہے مگر وہ اب انکے لیے وبال جان بن چکی ہے۔
گیارہ برس سے ڈیپ سٹیٹ کے خلاف صدر ٹرمپ جو کہانیاں سنا رہے ہیں ان میں سے مشہور ترین یہ ہے کہ امریکہ کی سیاسی اشرافیہ بڑے پیمانے پر کمسن لڑکیوں کے جنسی کاروبار میں ملوث ہے اور بچوں پر ڈھائے جانے والے یہ مظالم اب اربوں ڈالر کی انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ اس گھنائونے کاروبار میں میڈیاشخصیتیں‘ کاروباری افراد‘ ڈیمو کریٹک پارٹی کے لیڈر اور ریاستی اہلکار شامل ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کئی مرتبہ یہ وعدے کئے کہ وہ دوبارہ صدر بنتے ہی ان بدقماش لوگوں کوبے نقاب کریں گے۔ اب انکی MAGA یعنی Make America Great Again تحریک میں انکے پرستاروں کی ایک خاصی تعداد نے یہ پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ ان بد کردار لوگوں کی فہرست کب شائع کی جائے گی۔ میگا تحریک کے اندر اس چنگاری نے دیر تک سلگنے کے بعد اب ایک شعلے کی صورت اختیار کر لی ہے۔ چند روز پہلے ٹرمپ انتظامیہ کی اٹارنی جنرل Pam Bondiنے ایک صحافی کے پوچھنے پر یہ کہہ دیا کہ یہ فہرست انکی میز پر پڑی ہوئی ہے۔ اسکے بعد جو شورو غوغا برپا ہوا اس نے وائٹ ہائوس کو اس بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ انیس جولائی کو صدر ٹرمپ نے کہہ دیا کہ وہ عدالت کی اجازت سے یہ فہرست شائع کر دیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ انکے پرستار اس پر راضی نہیں ہو رہے۔ انکا کہنا ہے کہ ایف بی آئی برسوں تک اس سکینڈل کی تحقیقات کرتی رہی ہے۔ اس خفیہ ایجنسی نے ان مجرموں کی ایک نہیں کئی فہرستیں بنائی ہوئی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان سب کو شائع کیا جائے تا کہ ملک و قوم کے دشمن سامنے آ جائیں اور انہیں سخت سزائیں دیکر مرقعٔ عبرت بنا دیاجائے۔
صدر ٹرمپ کے لئے یہ مطالبہ اتنا پریشان کن نہ ہوتا اگر انکا اپنا نام بھی پردہ نشینوں کی اس فہرست میں شامل نہ ہوتا۔ یہ فہرست ایک ایسے کردار کے قریبی دوستوں اور گاہکوں کے ناموں پر مشتمل ہے جو ناجائز ذرائع سے دولت کما کر ارب پتی بن چکا تھا۔ اسکا سب سے بڑا دھندہ کمسن لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر جنسی کاروبار میں شامل کرنا تھا۔ امریکی میڈیا کے مطابق اسکے گاہکوں میں صدر بل کلنٹن‘ صدر ٹرمپ اور برطانیہ کے پرنس اینڈریوز کے علاوہ کئی دوسری نامور شخصیتیں بھی شامل ہیں۔ کلنٹن‘ ٹرمپ اور اینڈریوز نے Jeffrey Epstein کیساتھ کسی قسم کا تعلق رکھنے کی ترید کی ہے۔ لیکن گزشتہ چند روز سے امریکی اخبارات ربع صدی پہلے کی ایسی تصاویر شائع کر رہے ہیں جن میں ڈونلڈ ٹرمپ اور جیفری ایپسٹین کئی ڈنر پارٹیوں میں اکٹھے شامل تھے۔ ایپسٹین Manhattanکے اپر ایسٹ سائیڈ میں ایک شاندار منشن میں رہتا تھا۔ اسکا ایک ذاتی جہاز بھی تھا جس میں وہ اپنے دوستوں کو گھمایا کرتا تھا۔ اسکے خریدے ہوئے ایک جزیرے میں ہونیوالی عیش و عشرت کی کہانیاں آجکل روایتی اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ جولائی 2019 میں جیفری ایپسٹین کو لڑکیوں کے جنسی کاروبار میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اسکے کچھ عرصہ بعد اس نے مین ہٹن کی جیل میں اپنے بستر کی چادر سے لٹک کر خودکشی کر لی تھی۔ ایف بی آئی نے اسکی پراسرار موت کی تحقیقات کرنے کے بعد اس بات کی تصدیق کر دی کہ اسکی موت خود کشی کا نتیجہ تھی۔ لیکن اب صدر ٹرمپ کے پرستار یہ نہیں مان رہے۔ انکا کہنا ہے کہ جیفری ایپسٹین نے عدالت میں کئی نامی گرامی لوگوں کے نام ظاہر کرنے تھے اس لئے اسے جیل میں قتل کر دیا گیا۔ یہ سازشی تھیوری صدر ٹرمپ کی نہیں بلکہ انکے پرستاروں کی بنائی ہوئی ہے۔ صدرامریکہ اب آئے روز اپنے مداحوں سے کہتے رہتے ہیں کہ اس اخلاق باختہ شخص کی کہانی بہت پرانی ہو چکی ‘ اسے بھول جائو اور آگے بڑھومگر وہ نہیں مان رہے۔ بلکہ اب تو میگا تحریک والے یہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ اگر یہ فہرستیں شائع نہ کی گئیں تو وہ اگلے سال ہونیوالے وسط مدتی انتخاب کا بائیکاٹ کریں گے۔ اسکا مطلب یہ ہو گا کہ ڈیمو کریٹس ہائوس اور سینٹ دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل کر لیں گے۔ یہ شکست صدر ٹرمپ کے زوال کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔ لگتا ہے کہ ’’ لو خود اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘ کے مصداق صدر ٹرمپ اپنی مشہور و معروف سازشی تھیوری کے جال میں پھنس گئے ہیں۔