
غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے مزید 40 فلسطینی شہید ہوگئے۔غزہ میں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے جس دوران مزید 40 فلسطینیوں کی شہادت کی تصدیق ہوئی ہے۔دوسری جانب امریکی میڈیا کا بتانا ہےکہ امریکا، قطر اور مصر نے غزہ میں جنگ بندی کی نئی تجاویز پیش کی ہیں جب کہ قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔حماس کے ترجمان کا کہنا ہےکہ اسرائیل کے ساتھ طویل جنگ کے لیے تیار ہیں، غزہ میں جنگ بندی معاہدےکے تحت تمام یرغمالیوں کی رہائی کی پیشکش کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ جنگ بندی مذاکرات میں معاہدہ نہ ہونےکی صورت میں مستقبل میں عبوری جنگ بندی پر رضامند نہیں ہوں گے۔ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں لاکھوں افراد تباہ کن بھوک کے دہانے پر ہیں اور ہر تیسرے فرد کو کئی دن تک کچھ کھانے کو نہیں ملتا، شدید غذائی قلت کے باعث ہسپتالوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، جہاں بھوکے اور نڈھال افراد کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔فلسطینی وزارت صحت کے مطابق متاثرین کی بڑی تعداد یادداشت تباہ ہونے، شدید تھکن اور غذائی قلت کا شکار ہے، جس سے طبی نظام تباہی کے قریب ہے۔جرمنی کے چانسلر فریڈرش میرٹز نے اسرائیلی کارروائیوں کو اب ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اسرائیل پر فوری طور پر انسانی امداد فراہم کرنے اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔یہ تنقید اس لیے اہمیت رکھتی ہے کیونکہ جرمنی اب تک اسرائیل کی جنگ کو خود دفاع کا نام دے کر اس کی حمایت کرتا رہا ہے۔اسرائیلی اخبار یدیعوت احرنوت کے مطابق اسرائیل قطر میں جاری مذاکرات میں ایک اعلیٰ سطحی وفد بھیجنے پر غور کر رہا ہے، ممکنہ وفد میں سٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈرمر، موساد چیف ڈیوڈ برنیا، نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر زاہی ہنیگبی اور شن بیت کے قائم مقام سربراہ شامل ہو سکتے ہیں۔یہ دورہ اس وقت ممکن ہو گا جب امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف آئندہ ہفتے دوحہ پہنچیں گے، وٹکوف کی موجودگی سے مذاکرات میں پیش رفت ہو سکتی ہے، لیکن اسرائیل ابھی تک کسی حتمی معاہدے کو ممکن نہیں سمجھتا۔