ہفتہ وار کالمز

مشرق وسطیٰ

اسرائیل ایران جنگ بھی اپنے اختتام کو پہنچی جنگ میں جب بہت شدت تھی اس کے چند گھنٹے بعد جنگ بندی ہو گئی ، یہ سب کچھ اتنی سرعت سے ہوا کہ حیرانی ہوئی کہ جنگ بند کیسے ہو گئی پھر ہم اپنےآپ سے ہی شرمندہ ہو گئے کہ جنگ کیوں جاری رہنی چاہیے تھی خون کیوں بہنا ضروری تھا اچھا ہوا جنگ بند ہو گئی، میڈیا پر کچھ تجزیہ کار بھی یہ کہتے سنے گئے کہ یہ کیا ہو رہا ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امریکہ حملہ کرے تو اس کی پیشگی اطلاع ایران کو دے اور جب ایران قطر میں میزائیل گرائے تو اس کی خبر بھی امریکہ کو دے دے اور امریکہ بھی راضی ہو جائے کہ چلو تم میزائیل مار سکتے ہو، یہ مذاق لگتا ہے مگر جب روسی اہل کار نے کہا کہ کچھ ایٹمی ہتھیار ایران کو دئے جا سکتے ہیں اور سنا گیا کہ شمالی کوریا بھی جوہری ہتھیار دینے کے لئے تیار ہے تو اسرائیل کو بچانے کے لئے امریکہ کو بہت تیزی سے فیصلے کرنے پڑے، عالمی سیاست میں سب کچھ ظاہر نہیں کیا جاتا، بہت کچھ بچا کر رکھا جاتا ہے،اس حوالے سے اگر کوئی DOCUMENTS ہیں تو دو تین عشروں کے بعد منظر عام پر آجائینگے تب تک دھول جم چکی ہوگی، امریکی صدر ٹرمپ نے کینیڈی کے قتل کے بارے میں سات ہزار صفحات DECLASSIFY کر دیئے ہیں اس کا فائدہ کچھ نہیں جو مجرم ہو نگے وہ مرکھپ گئے ہو نگے بس تاریخ کاغذوں کی یہ کالک چاٹتی رہے گی۔ اسرائیل کو ایران کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا تو کرنا پڑا، وہ تباہی مچی کہ اسرائیلی خود ششدر رہ گئے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اسرائیلی دفاع اتنا FRAGILE ہے، جو کبھی ناقابل تسخیر تصور ہوتا تھا بستیاں تباہ ہو گئیں تو لوگوں نے اسرائیل سے بھاگنا شروع کر دیا، جو کچھ تباہ ہوا اس کو تو دوبارہ تعمیر کیا جا سکتا ہے مگر جب علاقے کے باسی خود اس علاقے کو زندگی کے لئے محفوظ نہ سمجھیں اور ملک خالی ہونے لگے تو ملک کی بقا کا سوال کھڑا ہو جاتا ہے، یہ بڑی وجہ تھی کہ جنگ روکنا ضروری ہو گیا تھا اور جنگ بندی کے لئے الٹے سیدھے فیصلے کرنے پڑے، صدر ٹرمپ کو کبھی سچا سمجھا گیا کبھی جھوٹا، کچھ باتوں پر صدر ٹرمپ ابھی تک صفائیاں دے رہے ہیں اور بات بن نہیں رہی جن بڑے صحافتی اداروں نے یہ خبر دی ہے کہ ایران کا یورینیم محفوظ ہے ان سے صدر ٹرمپ بہت ناراض ہیں مگر CNN NEWYORK TIMES اور ایک اور ادارے کے صحافی اپنی خبر پر قائم ” اور حکومت نے کوئی عندیہ نہیں دیا کہ ان اداروں کے صحافیوں کو عدالت میں اپنی سچائی ثابت کرنی ہو گی، خیال یہی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ٹرمپ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جنگ بندی کے فوراً بعد اب امریکہ نے ABRAHAM ACCORD پر کام کرنا شروع کر دیا ہے اس CCORD کے تحت اسرائیل کو سعودی عرب اور شام سے تسلیم کرانا اور پھر بتدریج دیگر مسلم ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کرانا اور سفارتی تعلقات قائم کرنا شامل ہے ظاہر ہے سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد معاشی، اقتصادی، فوجی اور کلچرل تعلقات بھی قائم ہو سکتے ہیں، میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ABRAHAM ACCORD میں شامل ہونے میں کوئی برائی نہیں ہے اگر یہ امن کی ضمانت بن جاتا ہے اور اس سے معاشی سرگرمیوں میں اضافے کا امکان ہے، اسرائیل ایران جنگ سے اتنا تو ہوا کہ اسرائیل کی طاقت کا گھمنڈ ٹوٹ گیا، مجھے حیرانی ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کو ان کی ایجنسیوں نے ایران کی اس طاقت کے بارے میں اطلاع کیوں نہ دی جبکہ موساد اور RAW کا ایک مضبوط جال ایران میں ایک عرصے سے موجود تھا، حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بھی خیال آتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں اسرائیل خود کسی ٹریپ میں آگیا ہو ، اور اس کو اس انجام کی خبر ہی نہ ہو ، یہ خام خیالی ہی ہو سکتی ہے مگر جنگ کے نتائج حیران کن ہیں اور جس تیزی سے علاقے میں اسرائیل کو محفوظ بنانے کی کوشش رہی ہے وہ بہت سے شبہات کو جنم دیتی ہے، یہ درست ہے کہ ان حالات میں جب کہ اسرائیل کی دہشت کم ہوئی ہے امریکہ میں اسرائیلی لابی بہت زیادہ متحرک ہو جائے گی مگر اس کے ساتھ ساتھBLACK LIFE MATTERS /NO KINGS تحریکیں چل رہی ہیں ان کو نظر انداز کرنا بھی مشکل ہے یہ دونوں تحریکیں امریکہ پر اپنا دباؤ جاری رکھیں گی ، روس اور شمالی کوریا کی جانب سے جس طرح کی حمائیت ایران کے لئے سامنے آئی ہے اس کو امریکہ نظر انداز نہیں کر سکتا، اور کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خطے میں روس اور چین کا اثر و رسوخ INVISIBLY بڑھ چکا ہے، کیا موجودہ حالات کا اثر عراق، یمن اور شام پر بھی پڑے گا اور خطے کی سیاست میں بتدریج تبدیلی آتی جائے گی جب غیر جانبدار تحریک شروع ہوئی اور اس نے کسی بھی بلاک کو جوائن کرنے سے انکار کر دیا تو اس کے رہنما بھی ایک ایک کرکے نشانہ بنے نہرو بچ گئے، یہی انجام ان تمام رہنماؤں کا ہو جو بھٹو کی اسلامی کانفرنس میں شریک ہوئے، تما شرکائے کانفرنس کا انجام ایک جیسا ہوا، سو مشرق وسطی کے تمام حکمران خوف زدہ ہو گئے، پھر تمام عرب ممالک میں امریکی اور مغربی ایجنسیوں کا جال بچھا ہوا تھا ۔ حکمران نہ تو جدید سیاست سے شناسا تھے اور نہ ہی جدید ٹیکنالوجی سے، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ عربوں کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ اسلامی کانفرنس کے نتائج سے باہر کیسے نکلیں، ان کو ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ امریکہ جو کچھ ان سے مانگ رہا ہے وہ چپ چاپ دے دیا جائے اور امریکہ کو ان کی بیچارگی کا علم ہے اس بار بھی ایسا ہی ہوا سعودی عرب اور امارات نے تمام مطالبات بخوشی قبول کر لئے ، ان ریاستوں نے عراق، لبیا، شام کی بربادی کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا،ان حکمرانوں کو وہ چاہے بادشاہ ہوں یا قبائیلی سردار یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ ان کی حکومت سامراجی قوتیں جب چاہیں گی گرا دینگی پھر عیاشیاں کیسے ہونگی، سینکڑوں عورتوں کے حرم کیسے رکھے جائینگے ، پہلے عمران اور اب شہباز عرب ریاستوں کے چکر کاٹتے رہے آرمی چیف کو ساتھ لے جاتے آرمی چیف ضمانت دیتے کہ عرب سرمایہ کاری محفوظ رہے گی مگر ان کو فطرانے کی کھجوریں لے کر واپس لوٹنا پڑتا مگر ٹرمپ سعودیہ اور امارات سے ایک ٹریلین لے کر آیا، اور المیہ یہ ہے کہ یہ عرب ممالک اپنا دفاع خود نہیں کر سکتے اس رویہ نے مسلم ورلڈ کو نامرد کر رکھا ہے، سعودی یمن تنازع ، ایران عراق تنازع، ایران سعودی فقہی اختلاف، سب باہمی طور پر نمٹائے جا سکتے تھے ، مگر یہ سب تنازعات بھڑکائے گئے اور مغرب اور امریکہ کی AMMUNITION INDUSTRY کو بے دریغ نوازا گیا، پاکستان میں ایک عشرے تک ایران اور سعودیہ اپنے مفادات کی جنگ لڑتے رہے، مگر خود اپنے دفاع کا کوئی پلان ان کے ذہن میں نہیں، چین کی مداخلت سے اب کہیں جا کر سعودیہ کا رویہ ایران کے لئے نرم ہوا ہے، مجھے یقین ہے کہ ایران اسرائیل کے خلاف جس ہمت سے لڑا ہے وہ بے مثل ہے پاکستان اب بھی ان عرب ریاستوں کو مضبوط دفاع فراہم کر سکتا ہے، ایران بھی ہاتھ بٹا سکتا ہے شائد روس اور چین مل کر مشرق وسطیٰ کو مشکل سے نکال سکتے ہیں، یہ بات سمجھ میں کیوں نہیں آرہی کہ ساری مغربی دنیا پر کہ مشرق وسطیٰ میں ہی ہر دس سال کے بعد یہ آگ کیوں بھڑک اٹھتی ہے اور یہ کیوں ہوتا ہے۔ ہر دس سال کے بعد ایک ملک تباہ و برباد کیوں ہو جاتا ہے جمہوریت کے نام پر یہ بربادی کیوں ہوتی ہے، مشرق وسطیٰ ان سوالوں پر کب سوچے گا؟ مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کو جب تک یہ خوف دامن گیر رہےگا کہ ان کی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جائے گا وہ نہ خطے کے لئے کچھ کر پائیں گے اور نہ ہی اپنے عوام کے لئے مشرق وسطیٰ ایران پر اسرائیل کے حملے کی مناسب طور پر مذمت نہ کرپایا ایران کی مدد تو بہت دور کی بات ہے، امن کی خاطر اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر عرب ریاستوں کو اپنے دفاع کو مضبوط بنانا ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button