ظہران ممدانی اور نیویارک کی نسلی سیاست!

گذشتہ کئی عشروں سے نیو یارک کی سیاست پر تین نسلی گروہ چھائے ہوے ہیں۔ امریکہ کے اس سب سے بڑے شہر میںمیئراور گورنر کے انتخابات میں ہمیشہ اطالوی‘ سیاہ فام یا یہودی کمیونٹی کے امیدوار فتحیاب ہوتے ہیں۔ نیویارک کے پانچ Boroughs یا بلدیاتی حلقے جن میں مین ہیٹن‘ بروکلین‘ کوئینز، برونکس اور سٹیٹن آئی لینڈشامل ہیںکی کل آبادی 8.4 ملین ہے۔ ان میں تین بڑی Communities یا برادریوںکے علاوہ یورپی‘ ہسپانوی ‘ مسلمان ‘ افریقی اور جنوبی ایشیا کے باشندے شامل ہیں۔ دنیاکے کسی بھی دوسرے بڑے شہر کی طرح نیو یارک میں بھی سٹی کونسل کے الیکشن سے لیکر مئیر یا گورنر تک کے الیکشن جیتنے کے لیے ہر امیدوار کو مختلف برادریوں کا ایک اتحاد بنانا پڑتا ہے۔ یہاںکوئی بھی چھوٹا یا بڑا الیکشن کسی ایک برادری کے بل بوتے پر نہیں جیتا جا سکتا۔ سیاہ فام کمیونٹی نیویارک کی کل آبادی کا 25 فیصد ہونے کی وجہ سے اس شہر کا سب سے بڑا ووٹنگ بلاک ہے۔ اسکی حمایت کے بغیر یہاںکوئی بھی الیکشن جیتنا نہایت مشکل ہے۔ لیکن ظہران ممدانی نے اس کمیونٹی سے بہت کم ووٹ لینے کے باوجود ڈیمو کریٹک پارٹی کے گیارہ امیدواروں کو شکست دیکر میئرکا الیکشن جیت لیا ہے۔ نومبر کے مہینے میں ہونیوالے جنرل الیکشن میں ریپبلیکن پارٹی بھی حصہ لے گی اس لیے آخری فیصلہ اسی معرکے میں ہو گا۔ لیکن نیو یارک ایک deep blue city ہے اور یہاں ڈیمو کریٹس کو ریپبلیکن پارٹی پر چھ اور ایک کے تناسب سے برتری حاصل ہے اس لیے ظہران ممدانی کی جیت کے امکانات خاصے واضح ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس شہر کے موجودہ ڈیموکریٹک مئیر ایرک ایڈمز جو ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں گے کوئی بڑا سرپرائز د ے کر بازی پلٹ دیں۔ انکی جیت کے امکانات اس لیے کم ہیں کہ ان پر کرپشن کے سنگین الزامات کے علاوہ صدر ٹرمپ کی مدد سے قانونی چارہ جوئی سے استشنا حاصل کرنے کا الزام بھی ہے۔ ظہران ممدانی کو دوسرا بڑا چیلنج سابقہ گورنر اینڈریو کومو سے مل سکتا ہے جنہیں اطالوی ووٹروں کے علاوہ نیو یارک کی بزنس کمیونٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اینڈریو کومو کو 24 جون کے الیکشن میںظہران ممدانی نے ایک بڑے مارجن سے شکست دی ہے لیکن جنرل الیکشن کی حرکیات نہایت مختلف ہوتی ہیں۔ اس میں اس مرتبہ اطالوی اور یہودی کمیونٹی ملکر ظہران ممدانی کا راستہ روک سکتی ہیں۔
تینتیس سالہ ظہران ممدانی ایک ابھرتے ہوے سٹار ہیں۔ انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی چند بڑی شخصیتوں کو شکست دیکر نیویارک سٹی کی سرمایہ دار اشرافیہ سے لیکر صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ صدر امریکہ کی پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے انتخابی نتائج کے آتے ہی یہ کہہ دیا کہ ممدانی اگر میئر بن جاتے ہیں تو وہ نیویارک کے فیڈرل فنڈز روک لیں گے۔ ممدانی کی فتح اس لیے بھی حیران کن ہے کہ ایک تو وہ مسلمان ہیںاور دوسرا انہیں اطالوی‘ سیاہ فام اوریہودی برادریوں میں سے کسی کی بھی واضح حمایت حاصل نہ تھی۔ اینڈریو کومو نے اطالوی کمیونٹی کے ووٹ تو بڑی تعداد میں حاصل کر لیے مگر اپنی گورنر شپ کے دوران کئی جنسی سکینڈلز میں ملوث ہو کر استعفیٰ دینے کے باعث انہیں دوسرے نسلی گروہوں کی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔
ظہران ممدانی کو نیویارک کے مسلمان ووٹروں نے جو کل آبادی کا نو فیصد ہیں (تقریباً ایک ملین)نے اس لیے دل کھول کر ووٹ دیئے کہ انہوںنے با آواز بلند اسرائیل کی مخالفت کی اور غزہ کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیکر جنگ بندی اور فلسطینیوں کے لئے الگ ریاست کا مطالبہ کیا۔ نیویارک جسے یہودیوں کا شہر کیا جاتا ہے میں اسرائیل کی مخالفت کر کے الیکشن جیت لینا ایک حیران کن کامیابی ہے۔
ظہران ممدانی کی کامیابی کی چند بڑی وجوہات میں اسکا پیغام‘ لوگوں سے گھل مل جانا‘ عام آدمی کو درپیش مسائل کا ادراک اور انکے قابل قبول حل کا ابلاغ‘ سیاست کے روایتی انداز سے گریز اور سوشل میڈیا کا مئوثر استعمال شامل ہیں۔ ظہران ممدانی نے انتخابی مہم کے شروع ہی سے خود کو Democratic Socialist کے طور پر متعارف کرایا۔ یہ اس لیے ایک جرأت مندانہ اقدام تھا کہ گزشتہ نومبر کے الیکشن میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کاملا ہیرس لبرل اور پروگریسو ایجنڈے کی وجہ سے شکست کھا چکی تھیں۔ اس ہزیمت کے بعد آج تک ڈیمو کریٹک پارٹی اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔ اس جماعت کا ایک دھڑا لبرل سیاست سے بد ظن نظر آتا ہے تو دوسرا پرانی سیاست کو نئے پیکج میں سجا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں ظہران ممدانی ایک ایسے لبرل اور پروگریسو لیڈر کے طور پر سامنے آئے جس نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ نیو یارک شہر نہایت مہنگا ہونے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہا۔ اسے اگر affordable نہ بنایا گیا تویہ ترقی نہ کر سکے گا۔ اسے سستا بنانے کے لیے ممدانی نے چار تجاویز پیش کیں۔ ان میں سے ایک فری بس سروس‘ دوسری فری چائلڈ کیئر‘ تیسری پرانے کرائے داروں کے کرایوںکو فریز کرنا اور چوتھا شہری انتظامیہ کے اپنے گروسری سٹورز ہیں۔ ممدانی کے مخالفین اس کے ایجنڈے کو Economic Populism کا عنوان دینے کے علاوہ یہ بھی کہہ رہے ہیںکہ وہ یہ اہداف اس لیے حاصل نہ کر سکے گا کہ ان کے لیے اسے فنڈز میسر نہ ہوں گے ۔ اسکے جواب میں ممدانی نے کہا ہے کہ اس شہر کے دولت مند لوگوں کی آمدن پر صرف دو فیصد مزید ٹیکس لگا کر یہ مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ظہران ممدانی اگلے پانچ ماہ میںلوگوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں کہ وہ مئیر بن کر اپنے وعدوں کو پورا کر سکتا ہے۔