0

حل بس یہی ہے!

تقسیم ہند سے پہلے جسٹس امیر علی کی THE HISTORY OF ISLAM دیکھ لیجیے بہت مستند تاریخ مل جائے گی، اس تاریخ کو مغرب سے بھی سند ملی، ہند میں بھی پذیرائی ہوئی ، شبلی نعمانی کی سیرت النبی دیکھ لیجیے وہ تمام حقیقتیں واشگاف الفاظ میں لکھ دی گئیں جن کو کسی بڑے سے بڑے عالم کو کہنے کی جرات نہیں ہوئی، مگر تقسیم کے بعد ہمارے تعلیمی بورڈز اور جامعات کے تعلیمی بورڈز نے ایسی تاریخ لکھوائی جو تاریخ تھی ہی نہیں محض پروپیگنڈا تھا، اور بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جامعہ کراچی کے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی بھی شریک جرم تھے حالانکہ ڈاکٹر صاحب کو پاکستان کا بڑا مورخ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ڈاکٹر اشتیاق حسین کی ریٹائرمنٹ کے بعد جب ڈاکٹر محمود حسین جامعہ کے وائس چانسلر بنے تو ایک انٹر ویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ڈاکٹر اشتیاق کی نظر کہیں کہیں چوک گئی جس سے ان کی لکھی ہوئی تاریخ مشکوک ہو گئی ، ڈاکٹر اشتیاق حسین پر یہ داغ لگا ہوا ہے کہ انہوں نے لیاقت علی خان کے کہنے پر قرار دادِ مقاصد ڈرافٹ کی اور منظور کرائی، پروفیسر وقار عظیم پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کا بڑا نام تھا ہر نصابی کتاب پر ان کا نام لکھا ہوتا تھا چاہے وہ تالیف ہو یا ترتیب، انہوں نے پنجاب کو جعلی تاریخ پڑھائی ان کا بس نہیں چلا کہ وہ یہ ثابت کر دیتے کہ اسلام موہنجو ڈرو اور ہڑپہ کی قدیم بستوں کا قبل از مسیح مذہب تھا اور اب بستیوں کے لوگ بہت راسخ العقیدہ مسلمان تھے ، ہر چند کہ نصابی کتب میں فوج کے دباؤ پر تمام فاتحین کو ہی ہیر و ثابت کیا گیا اور بچوں کے ذہن میں یہ ڈالا گیا کہ محمود غزنوی جیسے لٹیرے اسلام کے بڑے خیر خواہ تھے یہ بھی بتایا گیا کہ محمد بن قاسم ایک عورت کی فریاد پر دوڑا دوڑا دیبل کی بندر گاہ چلا آیا راجہ داہر کو شکست دی اور اسلام پھیلاتا رہا، کسی مورخ نے یہ نہیں بتایا کہ محمد بن قاسم واپسی پر خلیفہ مالک کے لئے ہزار خواتین لے گیا جن میں راجہ داہر کی بیٹیاں بھی تھیں، راجہ داہر کی بیٹیوں کے بیاں پر محمدبن قاسم کو چمڑے کی بوری میں بند کرکے دربار میں پیش کیا گیا اور بعد ازاں قتل کر دیا گیا، ہم نے بچوں کو پورے پچھتر سال غلط تاریخ پڑھائی اور جنرل ضیا الحق کے زمانے سے فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی اور بوٹنی میں دینیات داخل کر دی گئی ، ضیا کے دور سے ہی جزلز کے مقاصد کچھ اور تھے سو انہوں نے یہ سوچ کر کہ سول سوسائٹی ان کی راہ میں حائل نہ ہو دہشتگردوں کو پوری آزادی دی کہ وہ سول سوسائٹی کو روندتے رہیں، سماجی آزادی کو کچلیں اور خوف کی فضا بنا دیں جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے، نیوز کاسٹرز کے لئے دوپٹہ لازم قرار دیا گیا، چادر اور چار دیواری کی اصطلاح ایجاد کی گئی نظریہ ٔپاکستان کا نظریہ گھڑا گیا، اور قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا پارلیمنٹ کو مفلوج کرنے کے لئے شرعی عدالت، اسلامی نظریاتی کونسل، شرعیہ بورڈ، طب نبوی بورڈ جیسے ادارے بنا دیئے گئے جن کو کسی بھی خیال کو مغرب زدہ کہہ کر مسترد کرنے کا اختیار تھا اس کے علاوہ احتساب بورڈ بھی بنا دیا گیا، مگر امیر المومنین کی معذور بیٹی کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے بھارتی اداکار شتر و گھن سنہا کو ایوان صدر میں مہمان رکھا گیا اسلامی دہشت گردوں نے سول سوسائٹی کا جینا دو بھر کر دیا، عمران نے اپنا پورا وزن افغانیوں کے پلڑے میں ڈال دیا، شمالی پنجاب اور کراچی میں افغانیوں نے کم سن بچیوں کا ریپ ایک معمول بنا لیا اور عمران نے ایک غیر ملکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب کم کپڑے پہنے جائینگے تو ریپ تو ہونگے مرد کوئی روبوٹ تو ہیں نہیں، اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے اور اسلام کا کوئی قانون اس روش کو روکنے کے لئے کار آمد نہیں ہے، اور تو اور مدرسوں میں اغلام بازی عام ہو گئی بڑے بڑے محدث اس قبیح کام میں ملوث پائے گئے اور اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہوئی کہ عام طور پر یہ کہا جانے لگا کہ یہ ٹھیک ہے کہ مدرسوں میں چائلڈ MOLESTATION ہوتی ہے مگر بڑے ہو کر یہ ٹھیک ہو جائینگے اس عمل کی وجہ سے پاکستان میں ایڈز کی بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے اس کی شرح 23 فیصد تک ہو چکی ہے اور یہ وبائی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اسلام کی وہ برکتیں جو پچھتر سال سے مملکت خدا داد پر برس رہی ہیں، زرق کی فراوانی ہے اور آئی ایم ایف کو کوسا جا رہا ہے یوں تو پاکستان میں BLASPHEMY LAWS بننے کے بعد دہشت گردوں کو یہ سرٹیفیکیٹ مل گیا کہ وہ سڑک پر کسی کو بھی ناموس رسالت کے نام مار دیں، ان دہشت گردوں کی ہمت اتنی بڑھ گئی کہ گورنر تاثیر کے قتل کا کیس سننے کے لئے کوئی تیار نہ تھا ان دہشت گردوں نے دو جج بھی قتل کر دئے ، چند دن پہلے لاہور کے علاقے اچھرہ میں ایک ہجوم نے ایک COUPLE کو روک لیا عورت پر یہ الزام لگایا کہ اس نے وہ لباس پہنا ہوا ہے جس پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں، پولیس بمشکل اس عورت اور اس کے شوہر کو بچانے میں کامیاب ہوئی مگر ان دین کے ٹھیکے داروں کی شناخت ہو گئی جنہوں نے اس عورت سے معافی طلب کی مگر حالات کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے ان خبیثوں پر ہاتھ نہ ڈالا جا سکا، اس شخص کی بھی شناخت ہو گئی ہے جس نے پہلے پہلے مرد زن کا روکا تھا اس شخص کا کہنا ہے کہ وہ پڑھا لکھا نہیں مگر اس کو گمان گزرا کہ کپڑے پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں، لبیک جیسی تنظیم جز لز نے سیاسی حکومتوں کی گوشمالی کے لئے تیار کی تھیں اور ان کو اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کی اجازت تھی لبیک وہ دینی جماعت ہے جس نے ایک ریلی کے دوران گیارہ پولیس افسران کو قتل کر دیا تھا، اور یہ جو سنی اتحاد کونسل ہے یہ امریکہ کے ایما پر بنائی گئی تھی تاکہ شیعہ تنظیم کا سامنا کر سکے کہا جاتا ہے کہ اس کی تمام فنڈنگ بھی امریکہ سے ہی ہوتی ہے، آج کل یہ عمران کی اتحادی ہے اور وہ تمام آزاد امیدوار جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے وہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکے ہیں، ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود ریاست میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ان تنظیموں کو بلیک لسٹ کر سکے ، ان تنظیموں کی وجہ سے ملک میں جو بگاڑ آیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، تین چیزیں جو ظہور پذیر ہوئی وہ یہ تھیں دہشت گردی ، اسلحہ کا کھلے عام استعمال اور سماجی آزادی کا قتل،اب یہ جہلا سر عام لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ کون سا لباس پہننا ہے، کیا سوچنا ہے، کیا بات سننی ہے اور کیا کہنی ہے سانس لینے کا مدنی طریقہ کیا ہے، روزانہ جھوٹ کا ایک طوفان یہ جہلا دین کے نام پر گھڑ لیتے ہیں، بہت ہو چکا، اب اس جہالت کو مسجد میں بند کیجیے، جاہل اماموں سے لاؤڈ اسپیکر چھین لیجئے، 80 لاکھ مسجدوں اور 35 لاکھ مدرسوں میں پاکستان کی UPRODUCTIVE LABOR ہے ان کے لواحقین سمیت یہ تعداد دو ڈھائی کروڑ بنتی ہے، یہ پاکستانی معیشت پر بوجھ ہے کوئی بھی مسلمان اذان دے سکتا ہے، نماز پڑھا سکتا ہے، مسجد کی صفائی کے لئے کسی مزدور کو ملازم رکھا جا سکتا ہے، ملا کو اب محنت کر کے روٹی کمانی چاہیے ، پتہ تو چلے کہ روٹی کیسے کمائی جاتی ہے مزاروں اور گدی نشینوں کی گدیوں کے نیچے تین کھرب موجود ہیں اس تمام پیسے کو ضبط کیا جائے مزار پر منشیات کا کاروبار بند کیا جائے مزار کی آمدنی حرام ہے وہ پیسہ جو بنا محنت کمایا جائے حرام ہے سیاست سے مذہب الگ کیجیے اور کسی بھی ORDNANCE سے وڈیرہ شاہی ختم کر دیجیے اس کو فوج ہی IMPLEMENT کرا سکتی ہے ایسا ہوا تو روشن خیالی ملک کے بقا کی ضمانت بن جائیگی، اس کے لئے طاقت استعمال کرنی پڑے تو یہ بھی مناسب ہوگا، سرِدار اگر پانچ دس سر بھی ہوں تو یہ قربانی جہلا کے منہ سی دے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں