0

عام انتخابات کے بعد والا پاکستان!

آٹھ فروری کے عام انتخابات نے پاکستانی سیاست میں کسی کو بھی “خاص” نہیں رہنے دیا۔ ساری سیاسی قوتیں عملاً سیاسی کمزوریاں بن کر رہ گئی ہیں ۔ پاکستان میں ہر بڑی اور نقصان کا باعث بننے والی کمزوری کے علاج کے مشورے ہر شہر کی میلی کچیلی دیواروں پر جلی حروف میں لکھے نظر آ جاتے ہیں۔ایسے دیواری اشتہاروں کو ہر پڑھا لکھا شخص طنز و تعریض کا نشانہ بناتا اور لطائف و ظرائف میں استعمال کرتا ہے ۔لیکن ان اشتہاروں پر لکھے اتے پتے ہمیشہ آباد اور پرہجوم رہتے ہیں۔پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کی عورتیں صحت مند اور طاقتور جبکہ مرد مردانہ کمزوری کا شکار کہے جاتے ہیں، کم از کم ہر پاکستانی شہر کی دیواریں تو یہی کچھ باور کراتی ہیں۔جہاں تک سیاسی جماعتوں کی کمزوری کے علاج کا تعلق ہے ، اس کے علاج کے لیے ایک ہی دیوارِ گریہ دستیاب ہے ،جسے عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے۔آٹھ فروری کے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کے نہ صرف بازو ،بلکہ ہر قابل ذکر چیز مروڑنے کے بعد ،اور سر توڑ کوشش کر کے اس کے راستے میں ہزار طرح کی رکاوٹیں کھڑی کیں اور اس طرح اس معتوب سیاسی جماعت کو مٹانے کے عوض مقبول کر کے رکھ دیا۔ پاکستان میں اب کی بار حیرت انگیز طور پر ووٹرز نے اپنے طرز عمل سے پاکستانی سیاست کو جنتر منتر کے ذریعے اپنے بس میں رکھنے والے جادوگروں کے ہوش اڑا کر رکھ دیئے ہیں۔ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ممکن حد تک شعبدہ بازی بھی کی گئی ، کہیں ہو سکی ،کہیں نہ ہو پائی ،لیکن پاکستان میں اب انتخابی چور بازاری اس قدر عام ہو چکی ہے اور پاکستانی ووٹرز اس چور بازاری کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں ،کہ پورے ملک میں سوائے ساحران نامراد کے ،کوئی بھی حیران و پریشان نظر نہیں آرہا ۔پاکستانی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو نہ تو اپنی سیاسی جماعت کا نام استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی ، نہ ہی انہیں اپنا منفرد اور مقبول انتخابی نشان مل پایا تھا۔اس سیاسی جماعت کے امیدواروں نے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور انہیں قدرے غیر مانوس ، نہایت بے ہودہ اور بعض صورتوں میں فحش قسم کے انتخابی نشانات سے نوازا گیا۔اس سیاسی جماعت سے وابستہ امیدواروں کے لیے انتخابی مہم چلانے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ، کہ گھروں پر پولیس چھاپے مار رہی تھی انتخابی دفاتر میں بیٹھے نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کا کھیل جاری تھا ۔ستم ظریف کی تحقیق کے مطابق اس جماعت کی ساری انتخابی مہم پنجاب کے ایک لوک گلوکار کے گانے نے چلائی تھی،اس گانے میں ناک میں اٹکائے جانے والے “کوکے” کے رات کو کہیں گر جانے اور اسے تلاش کرنے کا ذکر اور قیدی نمبر آٹھ سو چار کا حوالہ دھرایا جاتا تھا ۔اس گانے نے بقیہ سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کو بے معنی بنا کر رکھ دیا تھا۔اور امر واقعہ تو یہ ہے کہ اس گانے نے ووٹرز کی ذہن سازی کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ستم ظریف جس درجے اور جس رتبے کا محقق ہے ،اس کے حوالے سے اس تحقیق کو موضوع بحث بنانا ضروری نہیں، لیکن انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھا جائے تو پھر اس لوک گیت کی اثر انگیزی کو ماننا پڑتا ہے۔اس معتوب سیاسی جماعت کی تحویل میں ہر وہ تصور، ہر وہ نظریہ اور ہر وہ نعرہ موجود ہے ، جسے بنیاد بنا کر ساحران کم فراست اس ملک کی سیکولر سیاست کا رجحان رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں کو مطعون کیا کرتے تھے۔ اس کے راہنما کے خلاف بدترین اخلاقی الزامات لگائے گئے،اسے بدکردار، منشیات کا عادی اور عورت باز قرار دیا گیا۔پاکستانی معاشرے میں کسی مرد کو مقبول و محبوب بنانے کے لیے یہ سارے الزامات تیر بہ ہدف قسم کے نسخے خیال کرنے چاہیئں۔کیونکہ اس طرح کے الزامات اس مرد کے ارد گرد امکانات کی ایک ایسی دھند بکھیر دیتے ہیں ،جس میں ہر کوئی گم ہونا پسند کرتا ہے ۔جب کوئی حربہ کام نہ آیا تو مذہبی حوالے سے اس کے ایک نکاح کو مشکوک بنانے کا کھیل رچایا گیا۔بس اس پر کفر ، توہین مذہب اور توہین رسالت کا الزام نہیں لگایا جا سکا ، وجہ یہ ہے کہ یہ سارے آزمودہ چورن اس سیاسی رہنما کی اپنی جیبوں میں بھرے پڑے ہیں۔اب اس کی سیاسی جماعت کے وابستگان قومی اور صوبائی اسمبلی میں اکثریت رکھنے کے باوجود حکومت کرنے کے حق سے محروم رکھے جا رہے ہیں۔اس راہنما نے اپنے پہلے چار سالہ دور حکومت میں بھی کسی بہتر کارکردگی اور کسی مثالی طرز حکمرانی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا، اب بھی اس سے کسی ارفع کارکردگی کو توقع کسی کو بھی نہیں ہے۔لیکن اسے اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے گلے میں پھنسی ہڈی کے طور پر پسند کیا جا رہا ہے اور بس۔ دوسری طرف دیکھیئے کہ ؛ اس بار لندن سے ن لیگ کے موجد نواز شریف کو ،جو قانونی طور پر مفرور ، طبی طور پر بیمار اور عملی طور پر زیر علاج تھے، سو طرح کی یقین دھانیاں کرا کر واپس پاکستان لایا گیا تھا۔نوازشریف پاکستانی سیاست کے ایسے لاڈلے سیاست دان ہیں،جو حکومت چھن جانے اور افتاد پڑنے پر بیرون ملک قیام و طعام اور آرام کو ترجیح دیتے ہیں۔ تین بار تو یہ سب کچھ ہو بھی چکا ہے ۔ستم ظریف حیران ہےکہ اس بار اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو ہزار طرح کے سہانے خواب دکھا کر اور وزیراعظم بنانے کا چکمہ دے واپس کیوں بلایا تھا؟چند روز سے وہ مری کی سرسبز اور برف پوش پہاڑیوں کی طرف سے دردناک اور غمگین گانوں کی آوازیں آنے کی افواہوں پر بھی یقین کئے بیٹھا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ بردار خورد شہباز شریف اور دختر بزرگ مریم صفدر نے انتخابی مہم میں تقریریں کروا کر نواز شریف کو پہلے خوب گھمایا ، پھرایا، تھکایا ، اور ایک تہائی اکثریت سے جیتنے کا سپنا دکھایا تھا ۔ لیکن آٹھ اور نو فروری کی درمیانی شب جس طرح کے انتخابی نتائج سامنے آنا شروع ہوئے،اس نے ایک تھکے ہارے سیاستدان کا رہا سہا دل بھی توڑ کر رکھ دیا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ ستم ظریف اس بات پر مسلسل زور دے رہا ہے کہ ساری قوم کو بلا اختلاف رنگ و نسل اور سیاسی وابستگی ،نواز شریف کے ساتھ ہونے والے مذاق پر اجتماعی احتجاج کرنا چاہیئے۔ اس احتجاج کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔لیکن مسئلہ شاید صرف یہ ہو کہ ان میں سے کوئی بھی صورت دکھانے کے قابل نہیں ہے۔ پاکستان میں ان انتخابات کے دوران ، اگر کسی سیاستدان کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی ہے ،تو وہ اس وقت صرف نواز شریف ہے ۔یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ؛ نواز شریف کو دلہن بنا کر رخصتی شہباز شریف کی کر دی گئی ہے۔اب باؤ جی تجربے کی زنبیل سنبھال کر مری میں بیٹھے کھڑکی سے باہر دیکھ رہے اور دردناک فلمی گیت گنگنا رہے ہیں۔ کیا ستم ہے کہ نواز شریف کو جن پہ تکیہ تھا ،ان میں سے ایک وزیراعظم بننے والا ہے اور دوسری وزیر اعلی۔ جبکہ باو جی کو مری میں بٹھا کر یقین دلایا جا رہا ہے کہ مری کا موسم اور ماحول بھی لندن سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔شرلی بےبنیاد کے اپنے ہی خیالات اور تصورات ہوتے ہیں۔وہ کہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ن لیگ کو اپنی لاڈلی سیاسی جماعت اور نواز شریف کو دو تہائی اکثریت سے جتانے کا جھانسہ دے کر اور اسی معتوب سیاسی جماعت کے ہاتھوں دھلائی کروا کر ، نواز شریف کے موثر بہ ماضی نعرے “مجھے کیوں نکالا” کا مدلل جواب تاریخ کی کتب میں درج کروا دیا ہے۔جہاں تک شہباز شریف جیسے تھیٹر اداکار کو وزیراعظم بنوانے والی بات ہے تو ،چونکہ آنے والے کئی سالوں تک پاکستان کی معیشت کا انحصار قرض اور بھیک پر مدار کرتا ہے ،تو شہباز شریف سے بہتر بھیک مانگنے والا اور قطعاً شرمسار نہ ہونے والا پورے جنوبی ایشیاء میں دوسرا نہ ملے گا۔جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے ، تو پیپلز پارٹی کا ن لیگ کے ساتھ تعامل یا تعاون فریب طلبی کے سوا کچھ نہیں ہے ، پیپلز پارٹی کے لیے اس جرنیلی بیسوا سے دور رہنا آبرومندی کی شرط اول ہے۔لیکن دوسری طرف اس کے لیے سندھ ،صدارت ، چند ارفع آیئنی منصب اور حساس ترین صوبے بلوچستان کی حکومت کسی بھی طرح خسارے کا سودا شمار نہیں کیا جا رہا ۔یہ پاکستان میں عام انتخابات کے بعد والی تازہ صورت حال ہے ، یہ سارے مناظر پاکستانیوں کے لیے نئے ہرگز نہیں ہیں۔پہلے فلموں میں چند ایک مزاحیہ سین ہوا کرتے تھے، اور ایک آدھ مزاحیہ اداکار۔اس بار تو پوری فلم ہی مزاحیہ بلکہ مذاقیہ نظر آ رہی ہے ،ساری فلم میں ہیرو نام کا کوئی بندہ یا ہیروئن قسم کا کوئی کردار موجود نہیں ہے۔ہر طرف جوکر راج کا منظر دکھائی دے رہا ہے۔یہ فلم نہ صرف خود فلاپ ہو گی ،بلکہ اپنے ساتھ پوری فلم انڈسٹری کو بھی تباہ کرنے صلاحیت رکھتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں