0

جہاد!

امام ابوحنیفہ نے کہا تھا کہ فقہ جامد نہیں ہوتا، یہ دریا کی طرح رواں ہوتا ہے ہر زمانے کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کر لیتا ہے، یہ صورت حال ہم نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں دیکھی قرآن نے طلاق کا جو طریقہ بتایا وہ حضرت عمرؓ نے ساقط کر دیا قرآن نے کہا کہ تین طلاقوں کے درمیان وقفہ ہونا چاہیے مگر حضرت عمر نے حکم جاری کیا کہ ایک ساتھ تین طلاقوں کو طلاق بائن مانا جائے گا، کسی میں ہمت نہ تھی کہ وہ عمرؓ سے پوچھتا کہ تم کون ہوتے ہو اسلام کے طریقے کو بدلنے والے؟ حتیٰ کہ چار اماموں کو بھی ہمت نہ ہوئی کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ عمرؓ کے یہ اقدام غلط تھے بعد میں کچھ سکالرز نے یہ عذرگھڑا کہ عمرؓ نے یہ سب کچھ انتظامی طو رپر کیا کیونکہ قاضی کے پاس طلاقوں کے مقدامات کی بھرمار تھی، غامدی بھی اس عذر کے گھائل ہیں قائل بھی یہ عذر کس قدر بے معنی تھا، پہلا سوال تو یہ کہ کیا انتظامی طور پر اسلام کا کوئی اصول بدلا جا سکتا ہے، دوسرا سوال یہ کہ طلاق جس کو اللہ نے ناپسندیدہ کہا ان طلاقوں کی بھرمار عدالتوں میں کیوں تھی، کیا سماج بدل رہا تھا، یا کوئی ہوس تھی نئی عورتوں سے شادی کرنے کی، کیا خوف خدا جاتا رہا صحابہ کے دل سے، کیا قرآن بھلا دیا، کیا رسولؑ کا کہا یاد نہ رہا، اگر شہوانی طاقتوں کااس قدر غلبہ تھا صحابہ پر تو عام مسلمان کو کس درجے میں رکھا جائے، سر شرم سے جھک جاتے ہیں عمرؓ نے صحابہ کو طلاق سے روکا نہیں کسی انتظامی حکم کے تحت بلکہ انتظامی حکم کے تحت طلاق کو آسان کر دیا، جو چاہے تین طلاق ایک ہی وقت میں دے اور عورت فارغ، اسلام آپ کو قیاس اجتحاد اور انبساط کی آزادی دیتا ہے آپ کو کسی مفتی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں مگر عقل سلیم چاہیے آپ مسائل پر خود غور کر سکتے ہیں، مکالمہ کر سکتے ہیں دلیل قائم کر سکتے ہیں اور نتیجہ نکال سکتے ہیں، قرآن جو احکامات صادر کر چکا وہ تو قائم ہیں ان میں تو ردوبدل نہیں ہو سکتی مگر وہ مسائل جن کا تعلق سماج اور معاشرت سے ہو ان پر غور کیا جاسکتا ہے اس کی وجہ یہ کہ سماج اور معاشرہ آہستہ آہستہ بدلتا رہتا ہے ان حالات کے مطابق فقہ کو لچکدار ہونا ہے، مثلاً اگر آپ کسی غیر مسلم کے ادارے میں کام کرتے ہیں تو پانچ وقت کی نماز ادا کرنے پر اصرار نہیں کر سکتے یہ بھی انتظامی مسئلہ ہے، آپ ملازمت کا وقت ختم ہو جانے کے بعد آپ جتنی چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں، پاکستان میں اگر آپ کا سری لنکن سپروائزر اجازت نہ دے تو اس کا قتل بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں مولوی کے فتویٰ کے سامنے پاکستان کا ہر حکم ساقط ہوجاتا ہے سول لاء کرمنل لاء سب مولوی کی جوتی کے نیچے۔
غزہ میں حماس نے جو جنگ شروع کی ہے اس پر اسرائیل کی RETALIATIONکا حماس کو پتہ تھا اور RETALIATIONویسی ہی ہوئی جس کو حماس کی توقع تھی اور منصوبے کے مطابق مظلویت کا ڈھول پیٹنا تھا، غزہ میں اسرائیل نے جس طرح بمباری کی ہے اس کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی ہے اس قدر خون بہتا کون دیکھے گا بچوں کو مرتا کون دیکھے گا لوگوں کو بھوکا پیاسا کون دیکھےگا اتنی بربادی کون دیکھے گا مگر حماس کی شقی قلبی کہ یہ ان کے پلان کا حصہ تھی ان کو غزہ کو برباد کرا کے خطے میں ایک TURMOILپیدا کرنا تھا وہ سفارتی تعلقات جو سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ہونے جارہے تھے ان کو روکنا تھا، وہ رک تو گئے معطل تو ہو گئے مگر منسوخ نہیں ہوئے سعودیہ نے اپنی سرزمین پر میوزک کنسرٹ کر کے غزہ سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا اور ظاہر ہے کہ خطے کے دیگر عرب ممالک نے بھی وہی رویہ اختیار کیا مگر حماس کی آواز پاکستان کے مولویوں کے پاس پہنچ گئی اور ان کا واویلا شروع ہو گیا اور وہی حربہ جہاد جہاد اور جہاد، بات یہ ہے کہ کربلا کے سانحے کے بعد کوئی جہاد نہیں ہوا، جو بھی ہوئی وہ مہم جوئی تھی اور یہ سلسلہ عثمانیہ سلطنت تک چلا، اس وقت تک بیمار امہ سانسیں لے رہی تھی مگر NATIONALISMکا ظہور ہوا تو امہ کا انتقال ہو گیا اب امہ نہیں ہے مسلم ممالک ہیں بے بس اور لاچار کچھ تو دانے دانے کو محتاج ہیں ان سب کا اپنا اپنا اسلام اپنے اپنے مفادات، وہ جہاد کیا کرینگے اور جہاد کا اعلان کون کرے گا اب کفر و اسلام کی جنگ نہیں ہو سکتی، تو جہاد کیسا، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، ننھی منی سنی جماعت، لبیک نے کچھ ریلیاں نکالیں جلسے کئے اور جلسے کے شرکاء کو جہاد کی کال دی، ان مداریوں کو پتہ ہے کہ جہاد تو ہو نہیں سکتا بس حکومت کو یہ دکھا دیں کہ ہماری STREET POWERاتنی ہے تم اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش نہ کرنا، ہمارا خیال ہے کہ اس بار فضل الرحمن، تقی عثمانی، مشہدی، حمداللہ پوپلزئی، ثروت قادر، طارق جمیل، سراج الحق، لیاقت بلوچ اپنے اپنے مریدین کو لے کر غزہ نکل لیں، راکٹ طالبان سے لے لیں شہادت کا رتبہ حاصل کریں جام شہادت پئیں، حوریں ان کا استقبال کریں گی، ایسا ہوا تو ایک مثال قائم ہو گی، لوگوں میں جہاد پر جانے کا جذبہ پیدا ہو گا مگر ہم جانتے ہیں ایسا نہیں ہو گا فضل الرحمن قطر چلے گئے جہاں حماس کے لیڈر بڑے شاہانہ انداز میں قیام پذیر ہیں اور حامد میر کے پسندیدہ سینیٹر مشتاق مصر چلے گئے، غزہ کوئی نہیں گیا، ان پڑھ علماء نے جہاد کو عام مسلمان کو بے وقوف بنانے کا ایک ٹول بنایا ہوا ہے۔
جہاد کبھی ایک مقدس فریضہ تھا جب کفر و اسلام کے درمیان جنگ تھی جب مہم جوئی مال غنیمت کے لئے ہونے لگی تو اس کو جہاد کا نام نہیں دیاجا سکتا، تین براعظموں پر پھیلی عثمانی سلطنت اتنی کھوکھلی نکلی کہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ NATIONALISMنے پوری سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اب ہر مسلم ملک کی اپنی اپنی فوج ہے جس کا اپنی قوم سے عہد ہے کہ وہ ان کو بیرونی حملہ آوروں سے بچائے گی، حملہ آور ہو کر کسی ملک پر قبضہ کرنے کے زمانے لد گئے، اب جن طاقتوں کو آپ کافر کہتے ہیں وہ آپ کی مالی مدد کرتے ہیں ہتھیار دیتے ہیں، نئی ٹیکنالوجی دیتے ہیں تعلیم دیتے ہیں آپ ان کی ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہیں آپ ان سے تجارتی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی اور صحت کے معاہدات میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں، ان کی تہذیب آہستہ آہستہ آپ کے کلچر کو متاثر کرتی ہے ان سے دوستی کے تعلقات ہوتے ہیں، وہ آپ کے لوگوں کو فیاضی سے IMMIGRATIONدیتے ہیں جو آپ کے لئے زرمبادلہ کے حصول کا ذریعہ ہے موجودہ حالات میں جنگ غیر ضروری ہو چکی، ان پڑھ مولویوں کے کہنے پر کسی بھی ملک پر چڑھ دوڑنا جارحیت کہلائے گی اور اس دور میں جہاد جارحیت کی ہی ایک شکل ہے جہاد پر اکسانے والے کبھی جہاد پر نہیں جائینگے مگر معصوم عوام کو بے وقوف بنائینگے، حماس کا حملہ کوئی جہاد وہاد نہیں کچھ مخصوص مقاصد کے حصول کی ایک کوشش تھی اس صورت حال سے مغرب ہی فائدہ اٹھائے گا حماس کے ہاتھ سوائے بربادی کے کچھ نہیں آئے گا، حزب اللہ جو لبنان سے راکٹ داغ رہی ہے ان کے پلان میں شاید لبنان کی تباہی بھی ہے غزہ تباہ ہو چکا، عقل میں سمائے تو لبنان کی تباہی کو روک لیجئے۔ حماس کے لیڈر قطر میں شاہانہ انداز میں رہتے ہیں اسرائیل نے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کر دیا تو کیا ہو گا یقین کریں ان کی حوالگی بہت آسان ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں