ہفتہ وار کالمز

از کجا می آید ایں آواز دوست !

اگست 2021 میں افغان جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ کی جنوبی ایشیا کے ممالک میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس سے پہلے بھی وہ ا سطرف کا رخ ضرورت پڑنے پر ہی کیا کرتا تھا۔ افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے امریکہ 1980کی دہائی میں اس خطے میں موجود رہاپھر 1991 میں سوویت یونین کی تحلیل کے فوراً بعد وہ افغانستان کو خانہ جنگی کی حالت میں چھوڑ کر رخصت ہو گیا۔ اسکے بعد اکتوبر2001 سے اگست 2021تک وہ جنگ دہشت گردی میں فتحیاب ہونے کے لیے افغانستان میںکھربوں ڈالرز کے وسائل جھونکتا رہا۔ یہاں سے دوسری مرتبہ رخصتی کے بعد اس نے اس خطے کے جنگ زدہ ممالک کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ اب چار مارچ کو صدر ٹرمپ نے کانگرس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کا شکریہ ادا کر کے سامعین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔چار برس تک بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کے بعد صدر امریکہ کا دنیا بھر کے سامنے پاکستان کی خدمات کا اعتراف ہر اعتبار سے ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اسکی وجہ تسمیہ ISIS-K یا داعش خراسان کے مشہور دہشت گرد شریف اللہ عرف جعفر کی پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں گرفتاری ہے۔ آئی ایس آئی نے ایک ماہ کے قلیل عرصے میں سی آئی اے کے مطلوب دہشت گرد کو امریکہ کے حوالے کر کے واشنگٹن کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ کو حیران کر دیا۔ داعش خراسان‘ گلوبل تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس(IEP) کی تحقیق کے مطابق اسوقت دنیا کی خطرناک ترین دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس نے جنوری 2024 میں ایران کے شہر کرمان میں دو خود کش حملوں میں 95افراد ہلاک اور درجنوںزخمی کیے تھے۔ اسکے ایک ماہ بعد اس نے ماسکو کے Crocus City Hall میں ایک میوزک فیسٹیول پر بہ یک وقت متعدد حملے کر کے 130سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی کیے تھے۔ IEP کے مطابق شریف اللہ نے ان دونوں حملوں میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ امریکہ کی داعش خراسان میں دلچسپی کی بڑی وجہ اگست 2021 میں کابل ایئر پورٹ پر ایک حملے میں تیرہ امریکی فوجیوں کی ہلاکت ہے۔اس واردات میں 170 کے قریب افغان باشندے ہلاک ہوئے تھے۔ امریکی میڈیا کے مطابق داعش خراسان کے اس حملے کا ماسٹر مائنڈ شریف اللہ تھا۔
پچیس جنوری کو John Ratcliffe نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد پاکستان کی عسکری قیادت سے رابطہ کیا اور اسے جنوبی ایشیا میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے کے علاوہ شریف اللہ کی گرفتاری میں تعاون کرنے کا تقاضا بھی کیا۔ کراچی کے روزنامہ ڈان میں پاکستان کے سابقہ سفیر اور حال میں جارج ٹائون یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو توقیر حسین کے مضمون کے مطابق سی آئی اے نے شریف اللہ کی گرفتاری کے لیے ایک مشترکہ آپریشن کی تجویز پیش کی لیکن پاکستان نے صرف انٹیلی جینس شیئرنگ پراکتفا کیا اور آپریشن خود لانچ کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ امریکہ کی مہیا کردہ معلومات کی بنیاد پر پاکستان نے پاک افغان سرحد پر ایک برق رفتار آپریشن کر کے شریف اللہ کو گرفتار کیا۔ یہ اس لیے ایک بڑی کامیابی تھی کہ اس نوعیت کے آپریشن ایک تجربہ کار اور پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والی خفیہ ایجنسی ہی کر سکتی ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے ایک مرتبہ پھر اپنی کارکردگی کی دھاک بٹھا دی ہے۔ لیکن امریکہ پاکستان تعلقات کے تناظر میں اس کامیابی کی غلط تشریح پاکستان کے لیے ایک مرتبہ پھر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے کانگرس سے خطاب کے دوران پاکستان کی تعریف کر کے ایک طرف اپنے پرانے نان نیٹو اتحادی کو خراج تحسین پیش کیا تو دوسری طرف انہوں نے امریکی عوام کو یہ پیغام دیا کہ سابقہ صدر بائیڈن جو کام چار برسوں میں نہ کر سکے وہ انہوں نے ڈیڑھ ماہ میں کر دکھایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ ستائشی جملہ کسی ٹھوس پالیسی کی شکل اختیا رکرتا ہے یا نہیں۔ امریکہ پاکستان تعلقات کا سفر اگر اس تحسین و آفرین سے آگے نہیں بڑھتا تو یہ بات یہیں ختم ہو جائیگی۔ ہو سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ یوکرین‘ غزہ‘ کینیڈا اور میکسیکو کے معاملات سے فراغت کے بعد افغانستان کی طرف توجہ دیں۔ وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کابل میں چھوڑا ہوا سات ارب ڈالر کا اسلحہ واپس لینے کے علاوہ بگرام ائیر بیس بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان مقاصد کا حصول اگر ناگزیر ہوا تو اس کے لیے صدر ٹرمپ کو پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہو گی مگر وہ وقت ابھی نہیں آیا۔ اس لیے پاکستان کو اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔
شریف اللہ کی گرفتاری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان میں افغان جنگ کے دوران پیدا ہونے والی بد اعتمادی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ پاکستان نے یہ کامیاب آپریشن کر کے اس Trust Deficit کو ختم کر دیا ہے جو دونوں ممالک کے تعلقات کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ ریپبلیکن پارٹی کی ہر حکومت کے پاکستان کی عسکری قیادت سے دوستانہ مراسم رہے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ہر حکومت نے پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ صدر جارج بش کی جنوری2009 میں وائٹ ہائوس سے رخصتی تک امریکہ پاکستان اتحاد مضبوط تھا لیکن براک اوباما کے اقتدار میں آتے ہی دونوں ممالک میں شکوک و شبہات کی خلیج وسیع ہوتی گئی۔ اسکے بعد صدر بائیڈن نے بھی چار برس تک پاکستان کی طرف توجہ نہ دی مگر اب صدر ٹرمپ نے اس جمود کو توڑا ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو جس آواز دوست کی ضرورت تھی اسکی گونج سنائی دے رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اگر پاکستان کو ویزے پر پابندی لگانے والے ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا تو یہ تعریف و تو صیف دھری کی دھری رہ جا ئے گی۔ صدر ٹرمپ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں اس لیے احتیاط لازم ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button