جنوبی ایشیا میںعورتوں کے حقوقِ انسانی!

جنوبی ایشیا کے ممالک میںاقتصادی اور انسانی ترقی کے پیمانوں پر پاکستان کا کیا درجہ ہے؟ جنوبی ایشیا میں جو آٹھ ملک شامل ہیں وہ ہیں: پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال ، افغانستان ، مالدیپ اور بھوٹان۔ ان ممالک کو اگر اقوام متحدہ کے انسانی ترقی کے انڈکس (2024) میں دیکھا جائے تو کل193ممالک کی فہرست میں، سری لنکا سب سے اوپرتھا جس کا نمبر تھا 87 پھر مالدیپ 87، اس کے بعدبھوٹان 125بنگلہ دیش 129نمبر پر، انڈیا 134 نمبر پر، نیپال 146، پاکستان 164، اور افغانستان 182ویں نمبر پر۔مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک میں یو اے ای سب سے اوپر تھا جس کا نمبر 17 تھا۔ اور صرف چار ممالک کا نمبر پاکستان سے بھی برا تھا وہ تھے، سوڈان، جبوتی، یمن اور صومالیہ، جو سب سے آخری درجہ پر یعنی 193تھا۔اگر صرف اسلامی ریاستوں کو دیکھا جائے تو ترکی کا نمبر 45تھا۔اور یو اے ای سے اوپر کوئی نہیں تھا۔قْطر اور سعودی عرب بھی 40 ویں نمبر پر تھے۔اوپر کے بیس ممالک میں زیادہ تر یوروپین اور مغربی صنعت یافتہ ممالک تھے، سوائے ہانگ کانگ اورسنگا پور کے۔
افغانستان ہمارے خطہ کا سب سے پسماندہ ملک ہے، جس کی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ اس میں بادشاہت تھی جو عوام کی بہتری کے کام زیادہ نہیں کرتی تھی۔جب بادشاہت ختم ہوئی تو ایک لمبا عرصہ ملک میں جنگ کا ماحول رہا جو ابھی حال ہی میں جا کر ختم ہوا۔ لیکن اس دوران ترقی تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایک پسماندگی کی وجہ حکومت کا تعلیم نسواں کے خلاف پالیسی تھی جو انسانی حقوق کے انڈکس میں کسی بھی ملک کے لیے پسماندگی کی بڑی وجہ گنی جاتی ہے۔جنوبی ایشیا کے باقی ملکوں میں کم از کم اس معاملہ میں ایسی پالیسی نہیں تھی۔البتہ ذرائع کی کمی کے باعث تعلیم میں بالعموم کمی رہی جیسے کہ نیپال میں۔ پاکستان میں البتہ ، سیاستدانوں نے تعلیم کو ترجیحی بنیادوں پر نہیں رکھا۔سری لنکا اس معاملے میں بہت آگے رہا کیونکہ وہاں بہت پہلے سے تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں کوبرابر دی جاتی تھی۔اسی طرح، مالدیپ باوجودیکہ ایک اسلامی ریاست تھی، تعلیم کے معاملے میں صنف کی کوئی تقسیم نہیں تھی۔ بنگلہ دیش اگرچہ ایک اسلامی ملک ہے، اس میں بھی لڑکیوں او ر لڑکوں کی تعلیم میں کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔دونوں کو مساوی طور پر پڑھنے کے مواقع دیے جاتے ہیں۔
ہندوستان میں غربت کی وجہ سے بچے سکول نہیں جا پاتے۔ اور آبادی کی زیادتی اور حکومت کی ترجیحات عوام کی پسماندگی کی وجہ میں شامل ہیں۔ کچھ آبادی خوشحالی کی بلند منزلوں کو چھو رہی ہے اور کچھ دو وقت کی روٹی کی محتاج رہی ہے۔ حکومت ملک کا سرمایہ بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے چاند پر جانے کی تیاریاں کر رہی ہے۔مودی کی حکومت کو اقوام متحدہ کے انسانی ترقی کے انڈکس کی پرواہ نہیں ہے۔
اب ذرا ملاحظہ کریں کہ انڈکس کے مختلف عناصر میں یہ ملک کہاں کھڑے ہیں؟
جنوبی ایشیا میں سری لنکااور مالدیپ دو ملک انسانی حقوق کی اونچی کلاس میں تھے، جو دوسرے نمبر پر تھی۔ تیسرے درجے کے گروہ میں بنگلہ دیش، انڈیا، بھوٹان اور نیپال شامل تھے۔ اور آخری درجے یعنی کمترین انسانی ترقی کے گروہ میں باقی کے دو ملک یعنی پاکستان اور افغانستان تھے۔ اب ہم صرف بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کا موازنہ کریں گے کیونکہ یہ ملک سب سے زیادہ آبادی والے ہیں اور ان کی تاریخ بھی مشترک ہے۔
یہ اعدادو شمار سن 2022کے ہیں۔ان ممالک میں پیدائش پر توقع حیات ایک پیمانہ ہے ۔ یہ بنگلہ دیش میں73,23سال تھی، انڈیا میں 67,7سال اور پاکستان میں66.4سال۔ یہ پیمانہ سب سے زیادہ نوزایئدہ بچوںکی وفات کی شرح سے متاثر ہوتا ہے۔
دوسرا بڑا پیمانہ ہے کہ مجموعی طور پر کتنے سال کی تعلیم کی توقع ہے۔ پاکستان میں یہ توقع صرف 9,7سال ہے۔ اور اوسطاً آبادی میں 4,4 سال کی تعلیم ہے۔پاکستان میں سالانہ آمدن فی کس 5.347 ڈالر تھی۔
انڈیا میں توقع حیات صرف 6,12سال ہے۔ اور اوسطاً آبادی میں 6,6سال کی تعلیم ہے۔اس کی سالانہ آمدن فی کس 6.951 ڈالر تھی۔
بنگلہ دیش میں توقع حیات 7.73سال ہے۔ اور اوسطاً آبادی میں 4.4سال کی تعلیم ہے۔پاکستان میں سالانہ آمدن فی کس 5.374 ڈالر تھی۔
یہ اعداد و شمار دیکھ کر یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ بجائے بنگلہ دیش بنانے کے سارا پاکستان بنگالیوں کے حوالے کر دینا چاہیے تھا۔ تو پاکستان بھی آج ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا۔لیکن اچھا ہی ہوا کیونکہ پاکستانی سیاستدانوں نے بنگلہ دیش کی ٹانگ ویسے ہی کھینچنی تھی جیسے انہوں نے پاکستان کی کھینچی۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ انڈکس میں کافی وزن عوتوں کی ترقی سے ملتا ہے۔اب غور فرمایئے کہ ان تین ملکوں میں کس نے عورتوں کے معاملے میں زیادہ ترقی کی۔
پہلے پیدائش پر توقع حیات کے 2022کے اعداد و شمار ،ملاحظہ ہوں۔ بنگلہ دیش میں عورتوں کی توقع حیات 766سال تھی اور مردوں کی 71.5سال؛ انڈیا میں عورتوں کی توقع حیات 69.5سال تھی اور مردوں کی 66.3سال۔ اور ہمارے پیارے ملک پاکستان میں عورتوں کی توقع حیات 68.9سال تھی اور مردوں کی64.1سال۔ یعنی باقی دونوں ملکوں سے کم۔
اب پھر سے توقع کہ لوگ کتنے سال سکول کی تعلیم لیں گے، تو پاکستان میںتوقع کی جاتی ہے کہ لڑکیاں ۳ء۷ سال اور لڑکے ۴ء۸ سال۔ انڈیا میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں کے لیے ۶ء۱۲ سال کی توقع ہے۔بنگلہ دیش میںلڑکیوں کے لیے ۴ء۱۲ سال اور لڑکوں کی ۵ء۱۱ سال۔ ذرا غور فرمایئے۔پاکستانیوں کو کچھ تو کرنا ہو گا کہ وہ تعلیم کے لیے کچھ کریں۔ورنہ انسانی حقوق کے انڈکس کے کمترین سیکٹر میں سڑتے رہیں گے۔
اب ملاحظہ ہو کہ اوسطاً پاکستانی مرد اورعورتیں کتنے سال کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں: تو انڈکس بتاتا ہے کہ عورتیں صرف 9.3ال اور مرد 8.4سال۔ انڈیا میں یہی اعداد ہیں لڑکیاں5.5سال اور لڑکے 6.7 سال۔ بنگلہ دیش میں، لڑکیاں 8.6 سال اور لڑکے8سال۔ یہ دونوں اعدادو شمار پاکستان اور انڈیا سے بہتر ہیں۔
اب آمدنی میں دیکھیں کہ جنسی تفاوت کتنا ہے؟ انڈیا میں کل ملکی آمدنی میںعوتوں کا حصہ 2.958ڈالر تھا اور مردوں کا 10.696 ڈالر تھا۔ بنگلہ دیش میں، عورتوں کا حصہ 3.684ڈالر تھا اور مردوں کا 9.387ڈالر۔ جب کہ پاکستان میںعورتوں کا2 ,120ڈالر اور مردوں کا 8.571ڈالر۔ پاکستان میں جتنے کم مواقع عورتوں کو کام کرنے کے ہیں یہ اعداد بھی بہت حوصلہ افزا ہیں۔
اب دیکھیں، کہ مردوں اور عوتوں میں کتنا فرق ہے؟
سب سے پہلے دیکھیں کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے کتنی عورتیں انتقال کرجاتی ہیںیہ اس بات کا اشاریہ ہے کہ ملک میں زچہ بچہ کے لیے کتنی سہولیات مہیا ہیں۔ کیونکہ اکثر وہ عورتیں جن کو آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے ، ان کو وقت پر ہسپتال نہیں پہنچایا جاتا۔یا اس کی نشاندہی نہیں ہوتی یا کوئی ذرائع نقل و حرکت جیسے ایمبولینس یا کوئی بھی تیز رفتار گاڑی نہیں ہوتی۔ کچھ عورتیں کثرت اولاد کی وجہ سے بھی بچہ کی پیدائش نہیں سہار سکتیں۔اب اعدادو شمار ملاحظہ ہوں:
بنگلہ دیش میں، زچہ جن کی عمر 15 سال سے اوپر ہو، کی اموات کی شرح ایک لاکھ بچوں کی ولادت میں، 127عورتیں تھیں ۔ یہ عورتیں بچوں کی ولادت میں انتقال کر گئیں، ان میں کم عمر لڑکیاں کتنی ہو تی ہیں؟ یعنی 15 سے19سالہ عورتیں۔تو بنگلہ دیش میں 123 عورتیں اس ضمن میں، ہر ایک ہزار زچگیوں میں بچہ کی پیدائش سے فوت ہو جاتی ہیں ۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔دوسرے اعداو شما ر عورتوں کی حکومتی نظام میں شمولیت سے متعلق ہیں۔ بنگلہ دیش میں عورتیں جو پارلیمان کی رکن ہیں انکی تعداد 7.43 تھی ۔ سارے ملک میں جن عورتوں نے ثانوی تعلیم کے کچھ سال مکمل کیے، ان کی تعداد 7,47 فیصد تھی اور مردوں کا تناسب 5.50تھا۔ اسی طرح، اس ملک میں، 2,39 فیصد عورتیں افرادی قوت میں تھیں جب کہ 4,81فیصد مرد افرادی قوت میں شامل تھے۔
اب انڈیا میں دیکھیں کہ یہی اعدادو شمار کیا تھے؟ انڈیا میں بچے کی پیدائش میں 108عورتیں فوت ہوئیں۔ اور کم عمر خواتین میں یہ شرح 103تھی۔ انڈیا میں پارلیمان میں عور توں کی 3,16فیصد سیٹ تھیں۔ جن لوگوں نے ثانوی تعلیم میں کچھ سال گذارے، ان میں عورتوں کا تناسب 1.41فیصد اور مردوں کا 7,58تھا۔ انڈیا میں،3.28فیصد عورتیں افرادی قوت میں تھیں جب کہ 1.76فیصد مرد افرادی قوت میں شامل تھے۔ اب پاکستان کی سنئیے۔دیکھیں کہ یہی اعدادو شمار کیا تھے؟ بچے کی پیدائش میں 154عورتیں فوت ہوئیں۔ اور کم عمر خواتین میں یہ شرح 2.41تھی۔ پارلیمان میں عور توں کی 1.20 فیصد سیٹ تھیں۔ جن لوگوں نے چند سالوں کی ثانوی تعلیم حاصل کی، ان میں عورتوں کا تناسب 22فیصد اور مردوں کا9. 26 تھا۔ کُل 5.24فیصد عورتیں افرادی قوت میں تھیں جب کہ 7.80 فیصد مرد افرادی قوت میں شامل تھے۔
ان سب اعداد و شمار سے ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان نہ صرف انڈیا اور بنگلہ دیش سے انسانی حقوق کے پیمانوں پر پیچھے ہے، بلکہ اقتصادی پیمانے پر بھی جو سالانہ فی کس آمدنی سے ظاہر ہوتا ہے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ پاکستان کے وزراء اور قائدین ملک سے باہر جا کر ایسے بیان دیتے ہیں کہ جیسے یہ ملک اقتصادی ترقی میں کہیں آگے نکل گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ حقیقت جانتے ہیں وہ دل میں تو ضرور ان کا تمسخر اُڑاتے ہوں گے۔
پاکستان نے اگر واقعی اپنے اشارے بہتر کرنے ہیں تو اس کو عورتوں کی تعلیم اور حقوق پر خصوصی اور فوری توجہ دینی ہو گی۔اگر نسوانی تعلیم پر توجہ دیں گے تو جلد اس کے مثبت نتائج دیکھ سکیں گے۔ عورتوں کی تعلیم کئی لحاظ سے اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ مردوں کی۔بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ جس کنبہ میں ماں اگر پڑھی لکھی ہو اس کنبہ میں بچے تعلیم میں سبقت لے جاتے ہیں۔پڑھی لکھی عورتیں ملک کی افرادی قوت میں بیش بہا اضافہ کر سکتی ہیں، جیسا کہ تمام دنیا میں ہو رہا ہے۔پڑھی لکھی ماں ہو تو وہ صحت عامہ کا بھی دھیان رکھ سکتی ہے جس سے گھر والوں کو کم سے کم بیماریوں کا سابقہ پڑتا ہے۔ہماری لڑکیوں کو جن عوامل نے تعلیم حاصل کرنے سے روکا ہے اس کی کوئی دلیل نہ ہی مذہب میں ہے اور نہ ہی قانون میں ۔ پاکستان کا آئین مرد اور عورت دونوں کو تعلیم کے یکسان مواقع فراہم کرتا ہے۔اگر کوئی عوامل ہیں جو عورتوں کو تعلیم اور روزگار سے محروم کرتے ہیں وہ ہمارے معاشرے کے پیدا کردہ ہیں۔اکیلی لڑکی کے لیے گھر سے باہر قدم رکھنا عذاب ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ معاشرہ ایسی خواتین کو کوئی حفاظت فراہم نہیں کرتا۔ اور ایسے دفاتر میں جہاں مردوں اور عورتوں کو مل کر کام کرنا پڑے تو وہاں کے مرد افسر اور نگہبان ہی ان کو ہراساں کرتے ہیں۔ اور نا جائز مطالبے کرتے ہیں۔اگر اس بڑی افرادی قوت کو اقتصادی میدان میں اتارنا ہے تو پہلے دفتری اور کام کرنے کے ماحول کو اس قابل بنانا ہو گا جہاں عورتیں اپنے آپ کو محفو ظ سمجھیں۔اور ان کے لیے کام تک کا سفر بھی محفوظ اور آرام دہ بنانا ہو گا۔