بے لگام گھوڑا

فانی دنیا سے کوچ کرنے والا انسان ،بندہ ٔخدا ہر چیز کو اپنے اختیار میں نہیں رکھ سکتا صرف اللہ ہی ہے جو ہر ظاہر و باطن کی جان کاری اور تمام اختیارات پر اپنا کنٹرول رکھ سکتا ہے دوسرا کوئی نہیں ۔لیکن جہاں انسان کو ذمہ داریاں قدرتی طور پر ملتی ہیں تو اُنھیں نبھانے کی صلاحیت بھی ملتی ہے آپ دیکھیں نا حکمرانوں کو حکومت میں سرکاری افسران کے علاوہ کئی مشیر بھی ملتے ہیں جواپنی اہلیت سے مسائل کا حل ڈھونڈ لیتے ہیں حالات کے آئینے میں اگر حکومتوں کا چہرہ بغور دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ان چہروں کے پیچھے کوئی دوسرا چہرہ ہے جو ملکی مفادات ، عوامی مفادات کو نظر انداز کر کے صرف مخصوص طبقات کی سہولتوں کو اہمیت دیتا ہے اور ان سہولتوں سے انھیں نوازنے کے بعد عوام کو گمراہ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا مثال حکومت کے اس ڈھنڈورے میں واضح ہے کہ جس میں عوام کو باور کرایا جا رہا ہے کہ مہنگائی کم ترین سطح پر آچکی ہے یعنی اگر حکومت کے ان کارندوں کو مزید موقع فراہم کیا گیا تو وہ عوام کو اشیائے ضروریہ مفت بھی دیں گے اس لطیفے نما بھونڈی بات پہ مسکراہٹ بھی منہ موڑ لیتی ہے کہ رمضان سے پہلے بھی مہنگائی عروج پر تھی اور دوران ِ رمضان المبار ک میں گرانی کا بے لگام گھوڑا سر پٹ بھاگتے ہوئے محرومیوں کی گرد اُڑا رہا ہے معیشت کی گرتی ساکھ کو سنبھالنے کی نام نہاد کوششوں کا تاج اپنے سر پہ رکھنے کے لئے حکمرانوں کے یہ دعوے حقائق کے منافی اور دلائل کے برعکس ہیں اکابرین ِ حکومت کے کرتا دھرتا موجودہ مہنگائی کا موازنہ ستمبر 2015سے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم مہنگائی کو کم ترین سطح پر لے آئیں ہیں حکومت دروغ گوئی کے سیلاب میں اتنی حواس باختہ ہے کہ اُسے معمولی سی بات بھی یاد نہیں کہ2015میں عام آدمی کے لئے ایک روٹی کی قیمت 15روپے تھی جو خلق ِ خدا کو اب 20روپے میں میسر ہے دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی اسی حوالے کم تھیں جسے مہنگائی کے بے لگام گھوڑے نے عروج پر کر دیا ہے تو جھوٹ کے ان نقاروں کو اگر لوگ نہیں جانتے تو پھر اس ملک میں معیشت اور شعور دونوں تنزلی کی کھائی میں بے یارو مددگار پڑے ہیں جو اللہ کے فضل کے نزول سے ہی بہتر ہو سکتے ہیں رونا اس بات پہ ہے کہ ہمارے قومی رہنمائوں کو ، ہمارے کرم فرمائوں کوانھیں بہتر سمت میں استوار کرنے کی سہولت میسر ہی نہیں قوموں کی تعمیر بہتر معاشی پالیسیوں کا کردار اپنی جگہ مگر قانون و انصاف ان سب سے بالا درجے پر ہے جو حاکم سے لے کر خط ِ غربت پہ بسنے والے کے لئے یکساں ہوتا ہے مگر ہم اس سنجیدگی سے مبرا ہیں اور قانون کو محلات کی غلام گردشوں کا رکھوالا بنا کر ہم مخالفوں سے انتقام لیتے ہیں ایسی روایات نے ہی قانون کی شکل کو اہل ِثروت کے لئے نرم خُو اور عام شخص کے لئے کوہ ِہمالیہ بنادیا ہے سادہ لوح عوام ان لٹیروں کے وعدوں کی دہلیز پر اپنی جوانی گزار چکے ہیں مگر حد تو یہ ہے کہ اب بھی اعتبار اُن ہی سورمائوں کا کرتے ہیں جو بارہا مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا دعوی عملی طور پر سچ ثابت نہ کر سکے جو منصب کے حصول کے لئے اپنی سیاسی شعبدہ بازی کو نو عمرجوشیلے جوانوںمیں تقسیم کر کے انھیں تاریخی حقائق سے آگاہی کی بجائے تیر و تفنگ پر آمادہ کر کے نئی نسل کے روشن مستقبل کو تاریک کر رہے ہیں من گھڑت قصے ، کہانیاں سنا کر جمہوری آدرشوں کا منہ کالا اور اخلاقی قدروں کی پامالی کرنے میںانھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑ ی ، سوچتاہوں کہ بے شعوری کے اس المناک موسم کا دورانیہ اور کس قدر طویل ہو گا اب تو سفید پوشی بھی کالے کرتوتوں کے ہم رکاب ہونے سے حیا کو بالائے طاق رکھ چکی ہے سچائی کو رائندہ ٔدرگاہ کرنے کا ارادہ لئے ہم جس جانب گامزن ہیں یہ نہ جمہوری راہ ہے اور نہ اچھی ،بہتر معاشی پالیسی کی رہ گزر ۔ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں پٹرول 37,ڈیزل 38،مٹی کا تیل 42،افغانی فی لیٹر کی قیمتیں ہیں اور ہم ان ہی ضرورتوں میں قیمتوں کو گراں کر کے پبلک کی کمر توڑ رہے ہیں ہمارے حاکم کیوں نہیں ایران سے معاہدئے کر کے اپنی ملک میں ارزانی کرتے ہیں ؟ معاشی بے راہ روی کی زندہ مثالیں نوشتۂ دیوار ہیں مگر ہم ریاست کے شہری صرف معیشت کے بے لگام گھوڑے کی تیزی سے خوف زدہ نہیں خطرہ یہ ہے کہ اس بے لگام گھوڑے کی پیٹھ پر معیشت کی تنزلی کے ساتھ دہشت گردی نے بھی سر اُٹھایا ہوا ہے ملک کے دفاعی اداروں کو اس کا نوٹس لیتے ہوئے سابقہ تحریک انصاف کی حکومت سے پوچھنا چائیے کہ کن ضرورتوں کے تحت بانی تحریک انصاف نے اپنے اقتدار کے دوران ان دہشت گردوں کو ریاست پاکستان میں رہائش کی اجازت دی تھی اور کیوں ؟ریاست کے استحکام کے لئے ،معیشت کو عوام کی آمدن و اخراجات کا تابع کرنا اس بے لگام گھوڑے کو لگام ڈالنا ہو گا ۔محب ِ وطن کا اس عمل سے گزرنا ناگزیر ہے۔