ہار جیت !

بھارت سے کرکٹ میچ ہارنے کی خبر نے ملک میں زیادہ نہیں بس کہیں کہیں افسردگی دکھائی دی اور میں نے تو کبھی کھیل میں ہار جیت کو اپنے وقار کا مسئلہ نہیں بنایا اور نہ ہی جگہ جگہ بیٹھ کر ٹیم کی ناتجربہ کاربیٹنگ ،کمزور بالنگ کی تنقیدی باتیں کر کے وقت کو ضائع نہیں کیا یہ کرکٹ میچ جو ہم ابھی بھارت سے ہارے ہیں اپنی اس کرکٹ ٹیم حالیہ شکست پر مجھے جاپان کے انوکی اور ہمارے اکرم پہلوان کی کشتی یاد آ گئی جو انو کی جیت کی صورت سامنے آئی تھی قوم نے اس شکست پر تو خاصا واویلا کیا تھا خصوصی طور پر پنجاب نے اپنے ثپوت پر تو اعتراضات کے پہاڑ گرا دئیے تھے کیونکہ پنجاب نے صرف جیت کو اپنا حق سمجھ رکھا تھا کھیل میں فتح و شکست کا سامنا کسی کو بھی ہو سکتا ہے کرکٹ تو پھر گیارہ کھلاڑیوں کی انفرادی کاوش اجتماعی نتیجے کی صورت میں فتح میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن اگر ہم سکواش کے کھلاڑیوں جہانگیر خان اور جان شیر خان کی فتوحات کا عالمی ریکارڈ دیکھیں تو خوشی بڑے فخر سے دل میں بسیرا کر لیتی ہے کہ ان کی لگاتار فتوحات انفرادی محنت و لگن سے سامنے آتیں رہیں ۔ اب قوم ہماری نہ جانے کیوں اس قدر دلچسپی کرکٹ میں لیتی کہ ہمارے بچے پڑھائی پر وہ توجہ نہیں دیتے جو توجہ ان کی کھیل کود پہ ہوتی ہے یہی بچگانہ ذہن لئے جب ہمارے حکمران منصب پر براجمان ہوتے ہیں تو کھیل کود میں نمایاں کامیابی کے لئے سارے وسائل بروئے کار لاتے ہیں مگر ملک کی معاشی حالت سے بڑی بے دلی سے کھیلتے ہیں کبھی ایک سے قرضہ تو دوسرے سے امداد ۔اگر کھیل کی بجائے یہی توجہ تعلیم و معیشت پر ہوتی تو آج ہم ہزاروں ارب روپوں کے قرض دار نہ ہوتے اور نہ ہی ہمارے چہروں پر ہار کی مہر ثبت ہوتی اہلیت کی کمی ہر گز نہیں مگر ہم اپنوں کو نوازنے سے فارغ ہوں تو ہمیں سمجھ آئے کہ کیا صیح ہے اور غلط کیا ہے زندگی کا میدان ہار اور جیت کی بنیاد پر ہی قائم ہے کوئی دنیا جیتنے کی فکر میں تو کوئی آخرت کی بہتری کے لئے دنیا کی صعوبتیں ہنسی خوشی برداشت کرتا ہے کیونکہ دنیا کی خواہشات کو ہار کر کوئی بھی مسلمان اپنی آخرت کو رضائے الہٰی کی خاطر جیتنے کی دھن میں رہتا ہے اور زندگی میں عاجزی و انکساری کا مزاج رکھنے والے کو رب ِ کائنات نے پسند فرمایا ہے لیکن رواں زمانے میں عاجزی کرنے والے بس اتنے ہی ہوں گے جتنے تحریک انصاف کے دور میں لگے بلین ٹری جو کہیں کہیں بمشکل ہی نظر آتے ہیں منصب پہ بیٹھنا جیت نہیں ہوتی یہ امتحان ہوتا ہے جس کے مرحلہ وار دشوار راستے اور دیرینہ مسائل کے حل کو اور عوام کی معاشی حالت کو سدھارنا ترجیحی اُمور ہوتے ہیں جن میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ہماری حکومتیں اپنے اہداف کو پایہ تکمیل پہنچانے میں ناکام رہی ہیں ناکامیوں کا یہ تسلسل بڑی کامیابی سے ہماری سیاست کے پردہ سکرین پر دور سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کھیل میں ہار جیت پرفارمنس کی بنیاد پر ہوتی ہے 12دسمبر1976میں جب بھولو خاندان کے سپوت اکرم پہلوان جب نیشنل سٹیڈیم کراچی میں جاپانی پہلوان انتونیو انوکی سے مقابلہ کرنے میدان میں اترے تھے تو تماشائی جو ہزاروں کی تعداد میں اس یقین کے ساتھ انتظار میں تھے کہ اکرم پہلوان ایک ہی دائو میں انوکی کو چت کر دیں گے لیکن جیت کے جذبات سے لبریز اور ہار کے حقائق سے عاری یہ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اکرم پہلوان جسمانی اور ذہنی طور پر اس قابل ہی نہیں تھے کہ وہ انوکی کو ہرا سکتے یوں انوکی سے کشتی ہارنے کے بعد اکرم پہلوان کی پہلوانی اور زندگی دونوں سے خاتمے کا باعث بن گئی ہار جیت کا تاثر صرف کھیل تک محدودنہیں یہ ہر شعبہ زندگی کی حرکات میں پیوست ہوتا ہے جسے معنی خیز نظریں محسوس کر سکتی ہیں اب کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنا کوئی کمال نہیں جتنا کمال کسی ملک کا معاشی ترقی میں سربلند ہونا ہے اور عصر ِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق قوم کی جیت دفاعی و معاشی استحکام میں پنہاں ہے معاشی ماہرین کی سیاسی وابستگیوں سے زیادہ ان کی معاشی بصیرت کا کار آمد ہونا ہے سعودی عرب اور پاکستان کا حالیہ دفاعی معاہدہ میری نظر میں اللہ کی جانب سے ہماری ریاست اور پاک فوج کے لئے مبارک سعادت ہے اندرونی طور پر قانون کی آنکھوں پہ لگی پٹی کو اب کھولنا ہو گا تا کہ مافیاز کی جاری قانون سے آنکھ مچولی بند ہواور انصاف جس دن بلا تفریق غریب کی دہلیز پر ملنا شروع ہو گیا تو ہار جیت کے یہ بے فائدے سے کھیل اپنے آپ دم توڑ دیں گے بس پہلا قدم تو کوئی اُٹھائے !!!!