شدید بھوک عالمی سطح پر انتہا کو پہنچ گئی؛ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خطرناک انکشافات

عالمی برادری کےلیے لمحۂ فکریہ بننے والی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں شدید بھوک کا مسئلہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔اقوام متحدہ کے تعاون سے تیار کی گئی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا کے مختلف حصوں میں تقریباً 29 کروڑ 53 لاکھ افراد کو انتہائی بھوک کا سامنا کرنا پڑا، جو کہ اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔یہ تعداد 2023 کے مقابلے میں بڑھ چکی ہے، جب 28 کروڑ 16 لاکھ افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار تھے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ لگاتار چھٹا سال ہے جب ایسے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 65 میں سے 53 ممالک میں کی جانے والی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان علاقوں کی کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ شدید بھوک سے متاثر ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قحط کے دہانے پر موجود افراد کی تعداد اب 19 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، جو کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں دُگنا ہے۔ فوڈ سیکیورٹی مانیٹر نے خبردار کیا کہ غزہ میں اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث دو ماہ سے زیادہ عرصے سے قحط کا حقیقی خطرہ منڈلا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس صورتِ حال کو ’تباہ کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ، سوڈان، یمن اور مالی جیسے خطے تنازعات اور دیگر بحرانوں کے باعث شدید بھوک کی زد میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لاکھوں خاندان فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں، جبکہ دوسری جانب حیران کن طور پر دنیا بھر میں پیدا ہونے والی ایک تہائی خوراک ضائع کر دی جاتی ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا کے بیس ممالک اور خطے ایسے ہیں جہاں تنازعات اور تشدد شدید بھوک کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ ان علاقوں میں تقریباً 14 کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح 18 ممالک میں شدید موسمی حالات اور 15 ممالک میں معاشی بحران نے مل کر مزید 15 کروڑ 50 لاکھ انسانوں کو متاثر کیا۔