گنڈا پور بھی گیا
حکمرانوں اور سیاستدانوں پر جب بھی تنقید کی جاتی ہے تو عوام الناس کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ وہ ان لوگوں میں سے نہیں۔ تنقید کرنا آسان اور اقتدار و عیش و عشرت کی زندگی چھوڑناانتہائی دشوار ہے۔ شہرت اورمال وہ اژدہے ہیں جن کے سامنے طاقت کا سانپ بھی کمزور ہے۔میڈیا اور سیاست میں کئی ایسے نام ہیں جو عروج سے زوال کے بعد پھر عروج پا لیتے ہیں مگر عزت بحال نہیں کروا سکتے۔ عوام یہ کہتے ہی سنے جاتے ہیں کہ ”نمبر دو بندہ ہے۔سیاست اور صحافت میں موضوعات کی لوٹ سیل لگی رہتی ہے ۔آجکل وزیر اعلیٰ کے پی کےگنڈا پور موضوع بحث ہے۔بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر صوبہ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کو صوبائی صدر کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد معاملات نے مزید گھمبیر صورتحال اختیار کرلی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ علی امین گنڈا پور کی وزارت اعلیٰ بھی خطرے سے دوچار ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ گروپ متحرک ہوچکا ہے۔ پی ٹی آئی کے ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور ایک عرصہ دراز تک بانی پی ٹی آئی کے قریب رہ چکے ہیں اور ان کے بغیر بانی پی ٹی آئی فیصلہ نہیں کرتا تھا۔بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر ہی علی امین گنڈا پور نے نہ صرف صوبہ خیبرپختونخوا بلکہ دیگر صوبوں میں بھی احتجاج کی کال دی ۔ مگر اب نظر یہ آرہا ہے کہ بطور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور جو احتجاج کی وجہ سے صوبے میں گڈ گورنس اور اس کے مسائل کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے کو عوام کے شدید ردعمل اور تنقید کا سامنا ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور صوبے بھر کے مسائل بالخصوص امن و عامہ کی صورتحال ، دہشت گردی کے مسائل اور بے روزگاری کو دیکھتے ہوئے علی امین گنڈا پور کی جانب سے احتجاج کے بجائے صوبے کے مسائل اور گورنس پر توجہ کرنے کا مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ علی امین گنڈا پور ایپکس کمیٹی اور اعلیٰ عسکری قیادت کے ساتھ ہونے والے ملاقاتوں میں متحرک دکھائی دیئے ۔ یہ صورتحال پی ٹی آئی میں موجود اینٹی علی امین گنڈا پور گروپ کیلئے کسی بھی طرح آئیڈیل نہیں ہے اور اس نے اپنے سازشوں کے تانے بانے بننے شروع کردیئے ہیں جس کا پہلا مرحلہ بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے دوران علی امین گنڈا پور کے حوالے سے منفی تاثر قائم کرنا تھا۔ ذرائع کے مطابق عاطف خان، شکیل خان، جنید اکبر، مشال یوسفزئی قاضی انور ایڈووکیٹ اور دیگر وکلاء مبینہ شکایت لگانے والوں میں شامل ہیں اس صورتحال میں اب واضح نظر آتا ہے کہ یہ گروپ علی امین گنڈا پور بانی پی ٹی آئی کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔ دوسری جانب ذرائع اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے سازشی گروپ کی ملاقات نے کچھ اثر دکھایا ہے اور گزشتہ روز بانی پی ٹی آئی سے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی ہونے والی ملاقات علی امین گنڈاپور کیلئے زیادہ خوشگوار ثابت نہیں ہوئی ، ملاقات میں بانی پی ٹی آئی نے وزیر اعلیٰ پر برہمی کا اظہار کیا کہ جب بشریٰ بی بی کو گرفتار کیا گیا تو کیوں احتجاج کی کال نہیں دی گئی اور کیوں احتجاج نہیں کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے حوالے سے صوبہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے نئے صوبائی صدر اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر بھی سازشوں کا حصہ بن چکے ہیں اور اپنے بیانات سے وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی بہت جلد صوبہ خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ کرنے جا رہا ہے۔جنید اکبر کی اس گفتگو سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی ا شدید اختلافات اور انتشار کا شکار ہے اور آنے والے دنوں میں صوبائی سطح پر بڑی تبدیلی خارج از امکان نہیں ذرائع اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ گزشتہ تین ماہ سے پی ٹی آئی وکلاء علی امین گنڈا پور کے مناسب رویے کے بارے میں بانی پی ٹی آئی کو شکایات کر رہے تھے۔ پی ٹی آئی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور کو عہدے سے ہٹائے جانے سے قبل اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا۔ علی امین گنڈا پور کو ہٹوانے میں عاطف خان کا بھی کردار سامنے آیا ہے جس نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرکے صوبے میں گورنس کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ علی امین گنڈا پور کو صوبائی صدر کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد اب اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ تیز ہو چکی ہے اور اس میں اہم کردار بشریٰ بی بی کی سیاسی چالیں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ جس طرح کی سیاست بانی پی ٹی آئی کر رہا ہے اس سے اس کی پارٹی میں اب دو گروپ واضح طور پر سامنے آچکے ہیں ایک پرو اسٹیبلشمنٹ جو مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر چاہتا ہے جبکہ دوسرا اینٹی اسٹیبلشمنٹ جو مسائل کا حل دنگا فساد، انارکی اور انتشار پھیلا کر کرنا چاہتا ہے۔ اس صورت میں پرو اسٹیبلشمنٹ گروپ ناکامی سے دوچار ہے جبکہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ گروپ جماعت کو تباہ کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اب ایک بار پھر انتشار کی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ ۔ اس فیصلے نے خیبر پختونخوا کو سیاسی تجربہ گاہ بنا دیا ہے، جہاں عوام کے مسائل کے بجائے ذاتی ایجنڈا نافذ کیا جا رہا ہے۔ گنڈاپور کی معزولی نے پارٹی کارکنان کو مزید مایوس کر دیا ہے ۔ گنڈاپور کو نہ صرف پارٹی کے اندرونی سازشی عناصر بلکہ اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے حالیہ فیصلوں نے گنڈاپور کی سیاسی ساکھ کو ختم کر کے رکھ دیا ہے اور انہیں ایسے حالات میں چھوڑ دیا ہے جہاں ان کے پاس پارٹی یا عوام کے سامنے کوئی جواز نہیں بچا۔