فیصلہ

فیصلہ

ایک سو نوے ملین کیس کا فیصلہ آگیا، عمران کو چودہ سال اور بشریٰ بی بی کو سات سال کی سزا سنا دی گئی، اس کیس کی تفصیلات زبان زدِ عام ہیں، سیاسی محاذ آرائی جاری ہے، ظاہر ہے پی ٹی آئی کا موقف یہی ہے کہ کیس کا فیصلہ غلط ہوا، یہ ایک سیاسی کیس ہے جس میں جان بوجھ کر عمران کو پھنسایا گیا ہے اور یہ کیس بد نیتی پر قائم ہوا تھا اور اس کا مقصد ہی عمران کو سزا دلانا ہے،دوسری جانب حکومت کا موقف یہ ہے کہ یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہے کرپشن ہوئی ہے تمام ڈاٹس مل رہے ہیں، کوئی بھی ڈاٹ مسنگ نہیں ہے، کیس کا فیصلہ بھی یہی کہتا ہے کہ کرپشن ہوئی ہے قانون کے ماہرین کہتے ہیں کہ فیصلہ بہت مہارت سے لکھا گیا ہے اگر اپیل ہوئی تو اس فیصلے میں سقم نکالنا مشکل ہو جائیگا، چونکہ اس فیصلے کے اثرات براہ راست پی ٹی آئی کی سیاست پر مرتب ہو رہے ہیں لہٰذاGRAND ALLAINCE بھی بن رہا ہے اور احتجاج کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں گویا اس فیصلے پر قانونی جنگ ثانوی ہے اور اولیت سیاسی جنگ کو دی جا رہی ہے، کیس کی تفصیلات بہت دلچسپ ہیں، ملک ریاض فیملی پر پاکستان سے غیر قانونی طور پر ایک سو نوے ملین کیس مبینہ طور پر اسمگل کرنے کا الزام تھا ملک ریاض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اعتراف جرم کر لیا تھا اور اس کو برطانیہ کے قانون کے تحت جیل جانا تھا مگر ملک ریاض نے OUT OF THE COURT SETTLEMENT کو ترجیح دی اگر مندرجہ بالا تمام تفصیلات سچ ہیں تو یہ ایک فرد کی FINANCIAL ACTIVITY کاکیس تھا اور ملک ریاض
کو ہی اس کیس سے نمٹنا تھا، اس کو جرم کی سزا ملتی یا وہ پلی بارگین کرتا اور عدالت سے باہر کیس SETTLE کر لیتا، میں اس کیس کو FOLLOW نہیں کر رہا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ کیس سچا ہو یا جھوٹا،اس کو بہر حال سیاسی کیس بنا لیا جائیگا، کوئی بھی کیس سیاسی ہو جائے تو اس پر بحث بیکار ہی ہوتی ہے کیس سیاسی ہو جائے تو اس کے سچ یا جھوٹ ہونے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کس فریق کے دلائل کو عوام میں پذیرائی ملی اور عوام نے کس کے نکتہ نظر کو سراہا، قانون بہت پیچھے رہ جاتا ہے قانون کی بات ہوتی ہی نہیں، مگر اس کے باوجود مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ شہزاد اکبر اس کھیل میں کب کو دے انہوں نے ملک ریاض کی OUT OF THE COURT SETTLEMENT کی مدد کیوں کی، سرسری طور پر اس کیس کا جائزہ لینے کے بعد میری یہ الجھن تھی جس کا جواب نہ مل سکا پھر خیال آیا کہ ملک ریاض کے عمران سے کچھ تعلقات بھی تو تھے یہ تعلق کب کام آتا ملک ریاض پر سپریم کورٹ نے بھاری جرمانہ بھی ہوا تھا یہ ساری چیزیں ایک ایسا معمہ بنا رہی اور معمہ بھی وہ جو ایک OPEN SECRET ہو دوسرا سوال یہ ہے کہ NCA نے جو پیسہ واپس کیا وہ سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں کیوں آیا، سپریم کورٹ نے وہ پیسہ کیوں قبول کر لیا اور سنا ہے کہ وہ پیسہ INVEST بھی ہوا اور منافع کی ایک معقول رقم بھی موصول ہوئی، پھر یہ کیسے ہوا کہ آنے والی رقم سے وہ جرمانہ بھی ادا ہو گیا جو سپریم کورٹ نے ملک ریاض پر عائد کیا تھا، مگر اس سے الگ کیس یہ بنا کہ وزیر اعظم ہوتے ہوئے عمران نے ایک بڑی زمین اور اس پر القادر یونیورسٹی کی عمارت ملک ریاض سے کیسے قبول کر لی، اور اب یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ CONFLICT OF INTERESTکے باوجود وہ ٹرسٹ جائز ہے کیونکہ اس میں سیرت النبی کا درس دیا جاتا ہے، یہ دلیل تو صحیح ہے کہ چوری کی زمین پر مسجد بنا دی جائے تو اس کو جائز اس لئے قرار نہیں دیا جا سکتا کہ وہاں نماز پڑھی جاتی ہے، مگر معاملہ یہ ہے کہ عمران کی POPULARITY کا ایک کرشمہ ہے اور وہ یہ کہ مرشد کے مرید کوئی بات ماننے کو تیار ہی نہیں، ہزار فیصلے عدالت کے لے آئیے اگر مرید نہ مانے، اکثریت نہ مانے تو آپ کیا کر لینگے میں نے ایک TWEET ایسی بھی دیکھی جس میں کہا گیا کہ اگر عمران خود اعترافِ جرم کر لے تب بھی ہم نہیں مانیں گے ، اس کے بعد کہانی ختم ہو جاتی ہے ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ملک ریاض نے کوئی کام غلط نہیں کیا اور عمران سے تو خطا ہو ہی نہیں سکتی، پھر کیسا کیس اور کیسا فیصلہ ، یہ سب کوڑے دان میں ڈالیں، اس موضوع پر لکھنا گناہ ہی تصور کیا جائے گا بلکہ مقبولیت کو سامنے رکھتے ہوئے اہل قلم کو چاہیے کہ وہ سچ نہ لکھیں یہ فیصلہ ٹھیک ہے یا غلط اس بحث میں پڑے بغیر یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ فیصلہ اسی عدلیہ کی جانب سے آیا ہے جو دنیا میں 130 کی عدلیہ ہے اس نمبر سے نیچے کچھ افریقی ممالک کی JUDICIARY ہے سو اس فیصلے کی CREDIBILITY کیا ہو گی، کون وزن دے گا اس فیصلے کو ، مجھے یاد نہیں کہ پاکستان کی عدلیہ نے گزشتہ ستتر سال میں کوئی ایسے فیصلے لکھے ہوں جن کو عالمی طور پر تسلیم کیا گیا ہو عدلیہ کی CREDIBILITY پر بہت سے سوال اٹھتے رہتے ہیں، بار بار عدلیہ کو ذہن سوال اٹھتے رہتے ہیں، بار بار عدلیہ کو ذہن نشین کرانا پڑتا ہے کہ عدلیہ نے چار مارشل لاز کو VALIDATE کیا ہے، چند ماہ پہلے چھ ججوں نے ایک خط لکھا تھا کہ ان پر فیصلے لکھنے کا دباؤ ہے ظاہر ہے کہ اشارہ ESTABLISHMENT کی جانب تھا، یہ شکایت جسٹس نسیم سے لے کر مختلف اوقات میں مختلف حج کر چکے ہیں مگر کسی بھی جج نے کبھی احتجاجاً استعفیٰ کبھی نہیں دیا، شکایت کی مگر کام بھی کرتے رہے، اتنی اچھی تنخواہ، مراعات اور کروفر کو کون چھوڑ سکتا ہے اور یہ بھی تو ہے کہ حج اگر صاحبان اقتدار کو خوش رکھتے ہیں تو ان کو OUT OF MERIT ترقی بھی دی جاتی ہے سپریم کورٹ میں آج بھی دو حج ایسے بیٹھے ہیں جن کو OUT OF MERIT ترقی دی گئی ہےسپریم کورٹ میں بے شرمی کے ساتھ بیٹھے ہیں اور ان کا ضمیر نہیں جاگتا ، یہی عدلیہ بے تحاشہ JUDICIAL ACTIVISM کا شکار رہی، شرم آتی ہے یہ لکھتے ہوئے کہ معزز جج صاحبان نے اپنے گھر والوں کی فرمائش پر فیصلے لکھتے رہے ایک آواز تو GOOD TO SEE YOU کی بھی سنائی دی،افتخار چودھری بنچ نے کیا کیا کمالات دکھائے نواز شریف رٹ لگاتے رہے اور زرداری کام نہ کر سکے پانامہ کیس کا فیصلہ لکھنے والے کون تھے، کون تھے وہ حج جنہوں نے ڈیم کے لئے رقم اکٹھا کی عوام کو کھلا دھوکہ دیا، پہلے کبھی جج بننے کے لئے امتحان دینا پڑتا تھا مگر بعد میں سیاست دانوں نے یہ طریقہء کار بدل دیا اب PICK AND CHOOSE جس پر ارباب حل و عقد مہرباں ہو جائیں وہ حج بن جاتا ہے اور اسے پھر اپنے فیصلوں سے اس احسان کا بدلہ چکانا ہوتا ہے پھر ہم فیصلوں میں قانون تلاش کرتے ہیں جوں میں اخلاقیات ڈھونڈتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے، موجودہ حکومت نے چھبیسویں ترمیم کرکے کسی حد تک JUDICIAL ACTIVISM کو روکنے کی کوشش کی ہے مگر وہ حج غضب ناک ہیں جن سے اختیارات لے لئے گئے ہیں ابھی ایک کیس غلطی سے آئینی بینچ کی بجائے سپریم کورٹ میں لگ گیا اس پر ججوں کی خود سری دیکھنے والی ہے،آنر ایبل جسٹس منصور علی شاہ کس قدر غصے میں ہیں ایڈیشنل رجسٹرار کو او ایس ڈی بنا دیا گیا، پاکستانی عدلیہ دنیا کی بدترین عدلیہ ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک LUNATIC ASYLUM ہے جہاں RATIONAL ATTITUDE عنقا ہے اور سارے ہی جوں کو ANGER MANAGEMENT COURSE لینے کی ضرورت ہے ایسی عدلیہ جتنے بھی فیصلے لکھے گی تو ان کی کوئی وقعت نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کی تعمیل ہو سکے گی، فی الحال تو عدلیہ میں کسی بہتری کے کوئی آثار نہیں، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے آنے والے ججوں سے کسی مہذب رویہ کی امید نہ رکھی جائے۔

Ejaz Farooqi

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے