آئینی اصلاحات

آئینی اصلاحات

مہذب اقوام میں تبدیلی کو قبول کر لیا جاتا ہے، مشرق میں تقریباً ہر قوم نے تبدیلی کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے، تبدیلی زندگی کا حسن ہے، جیسے جیسے تبدیلی سرائیت کرتی ہے زندگی میں بھی غیر محسوس طریقے سے تبدیلی آتی چلی جاتی ہے، اور پھر اس کا احساس ہوتا ہے تبھی تو ہم کہتے ہیں دیکھو زندگی کتنی بدل گئی، یہ کلچر کی تبدیلی ہوتی ہے علم کے ذرائع تبدیل ہو جاتے ہیں بہت سا علم OBSOLETE ہو جاتا ہے نئی تحقیق آجاتی ہے، سوچنے کے انداز بدل جاتے ہیں، جینے کے نئے انداز متعارف ہوتے ہیں، لباس، بول چال، رہن سہن، بدل جاتے ہیں، طرزِ تعمیر میں تبدیلی آ جاتی ہے یوں سمجھ لیجیے کہ تبدیلی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے، اگر زندگی STAGNANT ہو جائے تو اس جوہڑ سے بدبو آنے لگتی ہے، اس بدبو سے زندگی کا ماحول متعفن ہو جاتا ہے تو سوچئے کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو زندگی میں تبدیلی کو روکتی ہیں ان عناصر میں سب سے اہم رجعت پرستی ہے جو زندگی کے بہاؤ کو روک دیتی ہے رجعت پرستی کو استقامت بخشنے میں مذہب بھی ایک کردار ادا کرتا ہے ، مذہب کی تاویلات مختلف انداز سے کی جاتی رہی ہے کبھی کہا جاتا تھا یہ عبادات کا مجموعہ ہے پھر کہا گیا کہ یہ CODE OF LIFE ہے پھر بات بدل دی گئی اور کہا گیا کہ یہ ایک نظریہ ہے اگر یہ عبادات کا مجموعہ ہے تو یہ ایک ذاتی مسئلہ ہوا اگر ایسا ہے تو یہ زندگی میں آنے والی تبدیلیوں سے متصادم نہیں، عبادات ہوتی رہیں اور زندگی اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ رواں دواں رہے تو کوئی مضایقہ نہیں، اگر CODE OF LIFE ہے تو بتایا جائے کہ زندگی کا ضابطہ ہے کیا، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ عرب قبائلی طرزِ زندگی اپنا لی جائے یہ نہیں ہو سکتا، دنیا بدل چکی ہے اب وقت کا پہیہ لوٹایا نہیں جا سکتا، جہاں تک تعلق ہے نظریہ کا تو کوئی نظریہ جامد نہیں ہوتا اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، کوئی بھی نظریہ اس وقت اپنی اصل شکل میں موجود نہیں یہاں تک کہ مذاہب کی ہیئت بھی بدل چکی پاکستان جب بنا تو اقتدارِ اعلیٰ خدا کو سونپ دیا گیا اور قوم کے گلے میں قرار دادِ مقاصد کی گھنٹی باندھ دی گئی، یہ کام کر کے قوم کی نبض دیکھی گئی اور سمجھ لیا گیا کہ قوم اپنے ہی نشے میں ہے اس ان پڑھ قوم کو کچھ خبر نہ ہوئی کہ اس کے ساتھ کیا واردات ہو گئی جن کو اسلام کی ابجد سے واقفیت نہ تھی وہ بھی اسلام کے لئے لٹھ پکڑ کر سوتے تھے پاکستان کی پوری تاریخ دیکھ لیں ملک میں یا تو مارشل لاء رہا یا پھر جیوڈیشیل مارشل لاء میڈیا ان دونوں کے ڈھول بجاتا رہا، جبز لز بہت رسوا ہوئے مگر جوں کو عزت مآب ہی کہا جاتا رہا، پچھلے دو تین سال سے عدلیہ آپے سے باہر ہو گئی، اور پھر بہت سے زخم ہرے ہو گئے، جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کو جائز قرار دینا، بھٹو کا JUDICIAL MURDER یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دینا، افتخار چودھری پیچ اور اس سے پیدا ہونے والے چھوٹے چھوٹے خدا وجود میں آگئے ثاقب نثار، گلزار ، کھوسہ ، بندیال جو چیف جسٹس بنے تو بہت بڑے خدا بن گئے پھر آئین کو بار بار REWRITE کیا گیا ایک آمر کے کہنے پر قرار داد مقاصد کو آئین کا حصہ بنادیا گیا، افتخار چودھری کے دور سے سپریم کورٹ نے اپنی پوری توجہ سیاسی مقدمات پر رکھی، سول مقدمات کا انبار لگ گیا، اپنے مقاصد کے حصول کے لئے یہ عدلیہ فوجی بوٹوں کے نیچے رہی، اور اس عدلیہ کو اپنے وقار کا کوئی خیال نہیں آیا یہاں تک کہ حج اپنی بیویوں اور بچوں کے دباؤ میں آکر فیصلے لکھنے لگے جو میڈیا میں رپورٹ ہوتے رہے، حکومتیں ان فیصلوں کے رحم و کرم پر رہیں اس گراوٹ کو دیکھ کر دنیا نے اس عدلیہ کو کھٹیا فیصلے دینے کی بنا دنیا کی 130 نمبر کی عدلیہ کہا، اور یہ بھی کہا کہ یہ عدلیہ کرپشن میں نمبر ون ہے مگر عدلیہ کے کسی حج یا چیف جسٹس کو عدلیہ کے وقار کو بلند کرنے کا خیال نہیں آیا جو شرمناک ہے، یہ عدلیہ ایک جانب POLITICIZED ہوئی تو دوسری طرف سپریم کورٹ میں پھوٹ پڑ گئی پوری سپریم کورٹ دو دھڑوں میں بٹ گئی ، پوری طرح POLARIZED پی ڈی ایم کی حکومت اس عدلیہ سے خائف رہی، انتخابات ہر چند کہ آزادانہ نہ تھے مگر اس کے نتیجے میں جو حکومت آئی وہ بہت کمزور تھی اس کو ہر لمحہ یہ خوف رہا کہ اس حکومت کو گھر بھیج دیا جائیگا، یہ بھی سننے میں آیاکہ اسی سپریم کورٹ کے کچھ جوں نے پی ٹی آئی سے کہہ دیا کہ جائیں اگلے انتخابات کی تیاری کریں، لہٰذا یہ دیکھ لیا گیا کہ عدلیہ اپنی روش تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہر چند کہ تبدیلی کی بہت ضرورت ہے، سو آئینی اصلاحات کا فیصلہ کیا گیا، اصلاح کی ضرورت تب پیش آتی ہے
جب STAGNANT پانی سے تعفن اٹھنے لگا، مجھے نہیں معلوم کہ پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین اور مولانا آئینی اصلاحات سے خوف زدہ کیوں تھے ، یہ کیوں کہا جا رہا تھا کہ ابھی اصلاحات کی ضرورت نہیں ہے جب سب کچھ بگڑا ہوا ہو تو اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے، بگاڑ کی اصلاح جلد ہو جانی چاہیے آئینی اصلاحات کے لئے حکومت کو دو تہائی اکثریت چاہیئے تھی، بظاہر مطلوبہ تعداد موجودنہیں تھی، مولانا کے پاس گیارہ ووٹ تھے اس لئے مولانا سے بار بار رابطے ہو رہے تھے
مولانا کنفیوزڈ تھے وہ یقینا یہ سوچ رہے تھے کہ پی ٹی آئی ان کو کیا دے سکتی ہے، جب سے پی ٹی آئی مولانا سے رابطے میں تھی تو اندازہ ہو رہا تھا کہ مولانا کی اسٹریٹ پاور دیکھ کر یہی لگ رہا تھا پی ٹی آئی مولانا کو احتجاج کی جانب دھکیلے گی، مولانا تو پتہ تھا کہ احتجاج ان کو کمزور کر دے گا، لہٰذا کچھ پس و پیش کے بعد مولانا نے آئینی اصلاحات کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا مولانا کو خوش کرنے کے لئے آئینی اصلاحات کے بل میں 2028 تک سود کو ختم کرنے کا وعدہ کر لیا گیا مولانا آج تک سود کی مناسب تعریف بھی نہیں کر سکے وہ جدید مالیاتی نظام کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں مگر مذاکرات میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر فیصلے کئے جاتے ہیں، مولانا کی FACE SAVING کے لئے ان کا یہ مطالبہ مان لیا گیا ، یہ سچ ہے کہ عدلیہ نے مولانا کو نہیں کاٹا، عدلیہ کے ڈسے ہوئے یا تو پی پی پی والے ہیں یا پھر مسلم لیگ، ہر چند کہ آئینی ترمیمات بظاہر HIGH HANDEDLY کی گئی ہیں مگر مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا، عدلیہ اپنے فیصلوں سے ملک کو انتشار کی طرف لے جانا چاہتی تھی جو عدلیہ کر رہی تھی شائد اس کا اندازہ خود عدلیہ کو نہیں تھا، مگر ملک کو ضرورت تھی کہ ججوں کے سیاسی کردار کو محدود کیا جائے، تاکہ حکومت کا کاروبار مناسب طریقے سے چلتا رہے اور عدلیہ انتظامیہ کو مفلوج نہ کر سکے حکومت نے پی ٹی آئی کے کچھ منحرف اراکین کی مدد سے آئینی ترامیم منظور کرالیں ہیں حکومت اور اسکے اتحادیوں کے لئے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ تمام ترمیمات اب آئین کا حصہ بن چکی ہیں اور بہت ممکن ہے کہ حکومت جلد ہی دو تہائی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جلد ہی کوئی اور اصلاحات کا بل متعارف کرادیے اور وہ بھی آسانی سے دونوں ایوانوں سے منظور کرا لے، ملک کو امن کی بہت ضرورت ہے، گزشتہ تین سالوں سے ہم نے مسلسل احتجاج دیکھے ہیں اور اس کے معیشت پر اثرات بھی دیکھے ہیں، امید کی جا سکتی ہے کہ اب حکومت آسانی سے اپنے معاشی پروگرام کو بروئے کارلا سکے گی۔

kamran