باہمی نہیں ذاتی مفاد
قائد ِ عوام نے جمہورت کی بنیاد رکھتے ہوئے اپنے نظریات کو آمریت کے بوجھ تلے دبے عوام پر آشکارہ کیا تھا جن میں اس نظریے نے بہت پذیرائی پائی ذوالفقار علی بھٹو شہید نے بتایا تھا کہ یہ کوئی خدائی قانون نہیں کہ غریب ہمیشہ غریب رہے یعنی پُر خلوص و بامعنی کاوشوں سے غربت کو امارت میں بدلا جا سکتا اسی نظریے کو بہت سی دیگر جماعتوں نے بھی اپنانے کی کوشش کی مگر چونکہ غربت مٹانے کی بات سیاست میں صرف اقتدار کی رسائی تک ہوتی ہے اسی کارن غربت اپنے میلے کپڑے بدلنے میں ناکام رہی ہے لہٰذا یہ کہنا بے جا نہیں لگتا کہ نظریات فرد ِ انسانی کے لئے اثاثہ اور سیاسی جماعتوں کے لئے بیوپار ہے ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعداس رفقائے ہجوم میں وہ ہاتھ ہی نہیں ملا جس پر ہم بیعت کرتے ہوئے اپنی آنے والی منازل کے خواب دیکھ سکتے عصر ِ حاضر میں عوام الناس کو فرخندہ مقالی سے صرف فریب دئیے جا رہے ہیں کیونکہ ملک میں رائج سیاسی روایات فن ِ سپاہ گری کے اخذ کردہ ہونے سے عوامی نظریات کی متحمل نہیں ہوتیں جس سے طبقات ِ فکر کی محرومیاں ،معاشی غربت سے پھیلتی رسوائیاں ہمیں باعزت مقام دنیاوی معاشرے میں نہیں بخشتی ہیں ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہماری اس بے مقامی کی وجہ اپنے دستیاب وسائل کو نہ بروئے کار لا کر دوسروں کی امدادوں پر انحصار کرنا ہے پھر یہ امدادیں یہ قرضے ریاست کے باہمی مفاد میں استعمال ہوتے تو آج ہم بیجا ٹیکسوں کی شکل میں یہ قرضے واپس نہ لٹا رہے ہوتے چونکہ مخصوص اشرافیہ کے مقاصد باہمی نہیں ذاتی مفاد کی تہہ میں پنہاں تھے اسی لئے ریاست کی معیشت کو معاشی ماہرین یا ارباب ِ اختیار نے زمینی حقائق کو مقابل رکھتے ہوئے استوار نہیں کیا گو کہ شور برپا کیا ہوا ہے حکومت کے مدح سراؤں نے کہ چالیس فیصد کو چھوتی مہنگائی حکومتی معاشی پالیسی و جہدوجہد سے 6.9فی صد پر آ چکی ہے سٹاک ایکسچینج کا بامِ عروج کو چھونا اور شرح سود کا کم ہونا ،سمند پار سے ماہانہ ترسیلات میں خاطر خواہ اضافہ ،اس کے ساتھ ساتھ زر ِ مبادلہ کے ذ خائر میں ہوشربا اضافہ حکومت کی کامیاب پالیسیوں کے نشاندہی کرتے ہیں مگر اک عام آدمی کی معاشی زندگی پہ ان کا اثر نمایاں نہیں ہوا وہ اپنے آمدن و اخراجات کے عدم توازن سے خود کو محرومیوں کی قید میں گردانتا ہے ملک کے چند فیصد لوگوں کو چھوڑ کر اکثریتی طبقاتِ ریاست موجودہ مہنگائی کی شرح کم ہونے پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہا ہے کیونکہ اشیائے ضروریہ ہوں یا روز مرہ استعمال ہونے والی اشیاء اُن کی قیمتوں میں کوئی فرق نہیں آیا گویا مہنگائی کے کنویں میں قید عوام باہر نہیں نکل سکی ہے تو ایسے معاشی اشاریوں پر وہ لوگ خوش ہو سکتے ہیں جن کا ذاتی مفاد ہو ۔راوی اسے ہمیشہ سے ہندسوں کی ہیر پھیر ہی سمجھتا آیا ہے ہوش سنبھالنے سے لیکر عمر ِ رواں تک مہنگائی کا شور اس قدر سنا ہے کہ سماعتیں ان سے خاصی مانوس ہو چکیں ہیںاجسام ِ عوام بھی مہنگائی کی روش سے لگتا ہے کہ عادی ہو چکے ہیں کیونکہ عوامی رد ِ عمل دیکھنے کو نہیں ملتا ایک زمانہ ایوب آمریت کا بھی تھا جب چینی کی قیمت میں صرف 4آنے کا اضافہ ہوا تھا تو عوام نے سڑکوں پہ آ کر حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا میں موجودہ عوام کو اشتعال یا اُکسانے کی بات نہیں کر رہا صرف تاریخ کا موازنہ موجودہ حالات سے کر رہا ہوں نظام ِ حکومت کوئی بھی براجمان ہو وہ باہمی مفاد میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار نہیں لاتا بلکہ ذاتی مفاد کو اہمیت دیتا ہے انسان کی اس لالچی نفسیات کا تدارک کرنے والے حکماء کے پاس اب وہ نسخہء کیمیا دستیاب ہی نہیں جس سے علاج ممکن ہو پاکستان کی داخلی سیاست میں ایسی کوئی پیچیدہ گرہ ہے جسے خوشگوار بیانات سے کھولنا ناممکن لگتا ہے ذاتی مفاد پرستی کا یہ زہر چھوٹے طبقات کو بھی اپنے تالاب میں ڈبو چکا ہے ایک ریڑھی والے سے لیکر جاگیردار تک اور حکمرانوں سے لیکر عام چھوٹے دکاندار تک سب ایک دوسرے کا گلا کاٹنے میں دیر نہیں لگاتے پرائس کنٹرول کمیٹیاں تو شاید وجود ہی نہیں رکھتیں کہ انھیں منافع کی حد میں رہنے کی تلقین کریں یوں معاشرہ جس میں جینا سزا سا لگتا ہے باہمی مفاد نہیں ذاتی مفاد کی تگ و دو میں ہے اللہ ہدایت دے انھیں ۔