ارشد ندیم!
ارشد ندیم نے اولمپک 2024 PARIS گولڈ میڈل جیت لیا، ہم ارشد ندیم کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں، یہ کارِ جنوں تھا، محال تھا مگر ارشد کی بے پناہ محنت اور لگن نے اس کام کو آسان بنا دیا، ارشد ندیم کا تعلق پاکستان کے بہت پس ماندہ قصبے میاں چنوں سے ہے غریب گھرانہ ہے گھر کے لوگ سادہ لوگ ہیں اور کسی کسی نہ کسی طرح اپنا پیٹ پال لیتے ہیں ارشد نے مختلف کھیل کھیلے پھر جیولن تھرو پر توجہ مرکوز کی کچھ شد بد سے آگے بات بڑھی تو ایشین گیمز میں قسمت آزمائی کی اور سرخرو ہوا، تب سے اہل وطن کی آنکھوں میں سمانے لگا ارشد کو یہ سارا کام خود اپنی صلاحیت اور اپنے ذاتی وسائل کے سہارے ہی کرنا پڑا، حکومت کو یوں بھی کھیل اور فنون لطیفہ سے کوئی شغف نہیں ہوتا اور جب سے جنرل ضیا الحق کا اسلام ایجاد ہوا ملک سے موسیقی، رقص، گائیکی رخصت ہوئے، ریڈیو پاکستان پر ریجرز نے قبضہ کر لیا یہ قبضہ حال ہی میں ختم ہوا تو آلات موسیقی سے گرد آلود چادریں اتاری گئیں، گٹار اور ستار کے تار زنگ آلود ہو چکے ہونگے ، وائلن اور پیانو بھی چپ ، طلبہ اور ڈھولکی کا پتہ نہیں کیا حال ہوگا، مذہبی جنونیت نے ہمارے بہت سے اثاثے چھین لئے جو ہماری سماعتوں کو رنگ و خوشبو بخشتے تھے، وہ شاعر بھی منظر سے غائب نہ نغمہ نگاری نہ مشاعرے، زندگی کے سارے منظر بنجر ہو گئے اس سانحے کو چالیس سال ہو گئے ، اس دوران نعت خوانی کو عروج حاصل ہوا وہ بھی جنید جمشید کی بدولت جو ایک پاپ سنگر تھا، ذہین انسان تھا اس نے سمجھ لیا کہ پاپ سنگنگ کااس ملک میں کوئی مستقبل نہیں تو اس نے اپنی راہ بدل لی اور اس پر ہن برسنے لگا، جنید کو یہ بھی معلوم تھا کہ زمانہ بدل جائیگا لہٰذا اس نے کپڑوں کا کاروبار شروع کر دیا، اس کی کمپنی DOT.J اب ساری دنیا میں مشہور ہے ، اس طرح اس نے پاپ سنگنگ کی قربانی دے کر اپنا مستقبل بچا لیا، یہ بات تو برسبیل تذکرہ نکل آئی، بات کھیلوں سے نکل آئی، 1990 تک کرکٹ اور ہاکی کے کھلاڑی اسکول اور کالجز سے نکلتے تھے اور مختلف محکمے ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو اپنے ہاں نوکریاں دیا کرتے تھے، اسکول اور کالجز ہی کرکٹ کی نرسری تھی انہی اسکولوںاور کالجز نے کرکٹ کو چمکتے ہوئے ہیرے دئے اسی لئے ان کھلاڑیوں میں تمیز اور تہذیب دیکھی جا سکتی تھی اور بات کرنے کا سلیقہ بھی حالانکہ غریب گھر کے اچھے کھلاڑیوں کو اسوقت بھی نظر انداز کیا جاتا تھا، راولپنڈی میں 1960 میں توقیر کا طوطی بولتا تھا جس کا تعلق مسلم ہائی اسکول سے تھا پھر راولپنڈی کے فیض الاسلام ہائی اسکول کے اقتدار نے اپنا لوہا منوایاایک بار تو قومی ٹیم میں اقتدار کا نام بھی آیا مگر غریب گھرانے کا بچہ تھا سفارش نہ تھی اسلئے ٹیم میں منتخب نہ ہو سکا، غربت بہت سے اچھے کھلاڑیوں کو کھا گئی کراچی میں ناظم آبادکا ایک لڑکا جسے بھیجی کے نام سے پکارتے تھے اچھا فاسٹ بولر تھا مگر وہ کبھی ٹیم کا حصہ نہ بن سکا، ہاں جنرل برکی کا لڑکا جاوید برکی اگر اچھا کھیلتا ہو تو ٹیم میں اس کی جگہ پکی ارشد ندیم نے جب ایشین گیمز میں نام کمایا تو اس وقت بھی ارشد ندیم نے کہا تھا کہ اس کو TRAINING کے لئے وسائل میسر نہیں، مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک ویٹ لفٹر نے بھی ایسی ہی شکایت کی تھی، از راہِ کرم حکومت نے ارشد ندیم کو TRAINING کے لئے دو کروڑ فراہم کئے جب کہ بھارت کے نیرج چوپڑا کو بتیس کروڑ میسر تھے اور غیر ملکی کوچز بھی، ارشد ندیم کو ایک پاکستانی کوچ میسر تھا اور سنا ہے کہ ارشد ندیم کو اپنے کوچ کی ادائیگی بھی کرنی پڑتی تھی بہر حال ارشد ندیم نے بہت نامساعد حالات میں یہ کارنامہ کر دکھایا، اور چالیس سال بعد ملک کو ایک گولڈ میڈل میسر ہوا، یہ میڈل خالصاً ارشد ندیم کی محنت شاقہ اور RARE PASSION کی بنا پر ممکن ہوا، ارشد ندیم کے FOCUS/ CONCENTRATION کو ہزار سلام، ایسا نہیں کہ کھلاڑیوں کے ساتھ یہ ہتک آمیز رویہ اس دور کا ہے، بات یہ ہے کہ پاکستان پر حکومت ہمیشہ وڈیروں کی رہی ہے، وڈیرہ کھیل کو کیا جانے، وہ میلوں ٹھیلوں کا عادی، زیادہ سے زیادہ کبڈی کے مقابلوں میں اس کو انعامات دینے کے لئے علاقے کے زمیندار یا وڈیرے کو بلایا جاتا ہے، اور بس سندھ میں ایک قدیم کشتی ہوتی تھی اسے ملاکھڑا کہا کرتے تھے سندھ کے وڈیرے کو اس سے بھی دلچسپی نہیں وہ قدیم کشتی کا فن بھی مر گیا، کبھی کسی سیاستدان کو کسی کرکٹ میچ، کسی ہاکی میچ یا کسی ٹینس میچ کے مقابلوں میں بیٹھے دیکھا ہے کبھی سنا ہے سے واسطہ نہ کھیلوں ، نہ علم سے سے اور نہ ہی بلاول، نواز شریف یا زرداری نے ٹکٹ خرید کر کوئی میچ دیکھنے گئے ہوں ٹکٹ خرید کر کوئی فلم دیکھی ہو ، ان ان پڑھ زمینداروں اور وڈیروں کو نہ فنون لطیفہ سے، تو ان سے کیا بات کی جائے کیا شکوہ کہ انہوں نے ارشد ندیم کی مدد نہیں کی، یہ جدید دنیا سے نہ واسطہ رکھتے ہیں اور نہ ہی جدت اور جدیدیت ان کو پسند ، کراچی میں ایک بار مجھے حنیف محمد سے ملنے کا اتفاق ہوا، اس وقت وہ کچھ علیل تھے ایک معقول سے گھر میں رہتے تھے باتوں کے درمیان میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو کوچنگ کی سہولت میسر تھی، سنبھل کر بیٹھ گئے مسکرا کر کہنے لگے یہ سوال آج تک مجھ سے کسی نے نہیں پوچھا پھر بولے اس وقت کوچنگ کا کوئی تصور نہیں تھا جو کچھ تھا وہ ہمارا اپنا INTUTION تھا یا کسی اور کھلاڑی کا کھیلنے کا طریقہ جو ہم اپنا سکتے تھے، یا جو بہتر لگتا تھا، پوچھا حکومت سے کچھ سہولتیں ملتی تھیں کیا؟ ہنس کر کہنے لگے اگر ایسا ہوتا ہم کسی پوش ایریا میں رہتے دو چار گاڑیاں ہوتیں، مجھے ان کے چہرے پر ملال نظر آیا، یہ بات تو سب کو ہی معلوم ہے کہ اس زمانے میں ایک میچ کے 350 روپے ملا
کرتے تھے مگر اس کے باوجود سب کھلاڑی ملک کے لئے کھیلتے تھے ٹیم کے اندر کوئی سیاست نہ تھی، جب سے سعید احمد نے پاکستان کے لئے کھیلنا شروع کیا ٹیم میں سیاست بازی شروع ہو گئی جو اب تک موجود ہے،پاکستان میں کھیلوں کی کوئی ACADEMIES تو موجود نہیں ہیں، موسیقی، اداکاری، رقص ، اور تھیٹر کی بات تو دور کی بات ہے، کھیل اور فنون لطیفہ بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لئے بہت ضروری ہیں مگر اس کا ادراک وڈیروں اور زمینداروں کو نہیں ہو سکتا اس ملک میں شاعر ادیب ڈرامہ نگار، افسانہ نگار کو کوئی نہیں جانتا مگر یہ ضرور جانتا ہے کہ وہ کون سا مولوی ہے جو خصوصی دعا کا ماہر ہے، کون سا ذاکر ہے جو رلا سکتا ہے اور کون وزیر اعظم کی حلف وفاداری میں نعت پڑھتا ہے اور کون قرأت کرتا ہے، ڈاکٹر عبدالسلام کا نام کسی کو یاد نہیں ڈاکٹر عبدالقدیر بیچارے رسوا ہوئے اور ملالہ کا نام اس بنا پر یاد ہے کہ طالبان اس سے نفرت کرتے ہیں اور نفرت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کی طرف دار ہے، یہ ہمارے دور کی سچائیاں ہیں، ارشد ندیم نے اپنی محنت کے بل بوتے پر نام کمایا ہے ارشد ندیم کی اپنی لگن اور مسلسل کاوش نے اس کی مدد کی ہے، ارشد ندیم اگر سرکار کا محتاج ہوتا تو شائد ایسا نہ کر پاتا ایک ویٹ لفٹر نوح دستگیر بھٹی نے کہا ہے کہ اس کو اولمپکس میں QUALIFY کرنے سے روکا گیا اور دباؤ ڈالا گیا کہ اسے یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ اس کو اس مقام تک پہنچنے میں حکومت اس کی معاون رہی، یہ حکومتی رویہ ناقابلِ قبول ہے قوم کو اس وڈیرہ شاہی سے جان چھڑانی ہو گی۔