ہفتہ وار کالمز

آ بیل مجھے مار!

پاکستان میں کئی دنوں سے آوازیں آ رہی ہیں کہ بھارت حملہ کرنے والا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ جب تک دفاع کے بجٹ کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، یہ آوازیں آتی رہیں گی۔ ان کا ماخذ زیادہ تر محکمۂ دفاع،اور اسکے ذیلی ادارے، ماتحت ملازمین اور سیاستدان، خواجہ آصف، وزیر اطلاعات، تارڑ، محسن نقوی، اور دیگر چمچے ہوںگے ، جو کئی دنوں سے جنگ کے راگ الاپ رہے ہیں تا کہ آئی ایم ایف کے کانوں تک یہ خطرہ پہنچ جائے۔حقیقت پسند لوگ جانتے ہیں کہ پہلگام کا واقعہ ایسا نہیں کہ دونوں ملک وسیع پیمانے پر جنگ شروع کر دیں اور پھر وہ ختم ہونے کا نام نہ لے۔اور وہ بھی کسی واضح ثبوت ملے بغیر۔
تقریباً دو ہفتے پہلے، بی بی سی اُردو سروس کی خبر کے مطابق، بھارت میں جنرل عاصم منیر کے پتلے جلائے گئے۔ صرف بھارت میں نہیں، دنیا میں کئی جگہ جنرل صاحب کی تقریر کو نا پسندیدگی سے دیکھا گیا، جس میں انہوں نے،کشمیر پر گوہر افشانی کی۔ جنرل صاحب پچاس کی دہائی کے آخری حصہ میں ہیں۔ ان کے والد سکول کے پرنسپل اور مذہبی عالم ہیں۔ انہوں نے ۱۹۸۶ء میں منگلا کے فوجی سکول میں داخلہ لیا، اور سورڈ آف آنر کا اعزاز حاصل کیا۔تقریباً چار دہائیوں میں، جنرل منیر پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں، کشمیر کے پاس، خدمات انجام دیں۔اس کی سراغرسانی کے ادارے میں کام کیا اورسعودی عرب میں ان کے محکمۂ دفاع کی ترقی اور مضبوطی کے لیے کام کیا۔تعلیمی اسناد میں ایک ماسٹرز کی ڈگری اور جاپان اور ملائشیا کی اسناد شامل ہیں۔پاکستان میں بمشکل آٹھ ماہ کی انٹو سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ کی حیثیت میں کام کرنے کے بعد عمران خان نے ان کو عہدہ سے ہٹا دیا۔ اس سے ایک دراڑ پڑی جس سے ان کے تعلقات پر گہرا اثر پڑا۔آج خان جیل میں ہے اور جنرل پاکستان کی سب سے طاقتور شخصیت ہے۔ ان کا مزاج جنرل باجوہ سے مختلف ہے۔ جب باجوہ کے دور میں بھارتی شہر پلواما میں حملہ ہوا تھا تو باجوہ نے اسکو سنبھال لیا تھا۔اور جب کپتان نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو واپس بھیج دیا تھا تو تعلقات کافی بہتر ہو گئے تھے۔لیکن باجوہ کے مقابلے میں، جنرل منیر کو بہت سے شدید مسائل کا سا منا ہے، جن میں دہشت گردی، سیاسی کشیدگی، اقتصادی مشکلات اور علاقائی تنائو شامل ہیں۔
پہلگام پر دہشت گردی کے حملہ سےکچھ دن پہلے، جنرل منیر نے اپنی تقریر میںباہر سے آئے مہمانوں سے کہا کہ ہم ہندوئوں سے بہت مختلف ہیں۔کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ اور پاکستان کبھی بھی کشمیر کے حریت پسندوں کی مدد سے دست بردار نہیں ہو گا۔ٹھیک پانچ دن بعد ۲۲ اپریل کو، بھارتی کشمیر کے شہر پہلگام میں ٹورسٹ کے ایک گروہ پر گولیاں چلائی گئیں۔ اس لیے، جنرل صاحب کی تقریر کو معمول کی خالی خولی نعرہ بازی نہیں سمجھاجا سکتا۔کیونکہ اس کے لہجہ سے ہندو مسلمانوں میں تنائو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو کہ اشتعال انگیز حرکت تھی۔چونکہ یہ تقریرعین پہلگام کے حملہ سے پہلے کی گئی تھی ، تو اس سے حالات کو آسانی سے بہتر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس تقریر کی مختلف توجیہات پیش کی جا رہی ہیں۔ مثلا! یہ کہ وہ اب مکمل طور پر طاقت پر قابض ہیں۔اور پاکستان ایک دفعہ پھر فوجی قبضہ میں آ چکا ہے۔اگرچہ پہلگام پر حملہ میں پاکستانیوں کی شرکت پر کوئی ثبوت نہیں دیا گیا، جنرل کی بات نے ان ملکوں کے درمیان تعلقات کی خلیج کو اور کشادہ کر دیا ہے۔
پاکستان میں جنرل صاحب نے۹ مئی کے واقعہ کو وجہ بنا کر تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے ہیں۔جنرل منیر کیا اپنی حیثیت مضبوط کر رہے ہیں تاکہ انہیں ملازمت میں اور توسیع مل جائے؟( یا احکامات امریکہ سے آ رہے ہیں؟) بہت سی آراء ہیں۔کیا بھارت میں جو نفرتوں کا بھونچال آ ّیا ہے اس سے ہندو پاک میں ایک بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے یا اس واقع کو سفارت کاری سے حل کر لیا جائے گا؟ تو صاحبان یہ تھا بی بی سی کی خبر کا لبِ لباب۔
اب ہم دیکھتے ہیں ان اسباب کو جو ان واقعات کے پس منظر میں بر پا ہیں۔دوستو، پاکستان کا بجٹ برائے 2025-26 پیش ہونے جا رہا ہے۔یہ کوئی اتفاق ہے یا نہیں کہ اکثر بجٹ سے پہلے کوئی نہ کوئی ایسا واقع رو نما ہو جاتا ہے جس سے پاکستانیوں کو باور کروایا جاتا ہے کہ پاکستان کی فوج بہت ضروری خدمات انجام دے رہی ہے، ان کی مالی ضروریات کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اس سال حالات مختلف نہیں ہیں۔ پاکستان اکثر دفاعی اخراجات بجائے کم کرنے کے اور بڑھا دیتا ہے۔ مثلاً اس آنے والے بجٹ میںمحکمۂ دفاع کے لیے جی ڈی پی کا 7.1 فیصد مختص کرنے کی تجویز ہے۔ جو گذشتہ برس کے مقابلے میں 159 بلین روپے زیاد ہے۔ اس سے کل دفاعی بجٹ 2,281 ارب روپے کا ہو جائے گا۔ یعنی گذشتہ سال سے 14.16 فیصد زیادہ۔
پاکستان جو پہلے ہی آئی ایم ایف کے دبائو میں ہے، کہ دفاع کا بجٹ بہت کم کر ے تو وہ بجائے کمی دیکھنے کے اتنی زیادتی کیسے منظور کرے گا۔ اگر معاملہ صرف وزیر اعظم تک محدود ہوتا تو سب منظور ہو جاتا، لیکن اس دفعہ آئی ایم ایف پاکستان کے بجٹ کے سیشن کے ختم ہونے تک موجود رہے گا اور اپنی ہدایات پر پورا عمل کروائے گا۔ اس مشکل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہو سکتا تھا کہ بھارت پاکستان پر جنگ مسلط کر دے۔اگر جنگ ہو جاتی ہے تو فوج کے اخراجات کم کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہو گا۔ لیکن بھارت کیوں بیٹھے بٹھائے پاکستان پر جنگ شروع کر دے گا؟ اس کے لیے تو بہت مضبوط وجہ چاہیئے اور ایسی کہ سارے ہندوستان کے لوگ پاکستان پر تھو تھو کرنے لگیں۔ہو سکتا ہے کہ یہ ہماراخیال خام ہی ہو؟ لیکن اب جب ہم پہلگام پر دہشت گروں کے حملہ کو دیکھیں تو کیا سب مہرے اپنی اپنی جگہ پر فٹ نہیں ہو جاتے؟ یہ غالباً پہلی مرتبہ ہے کہ ہندوستان میں امریکہ کا نائب صدردورے پر آیا ہوا ہے اور پاکستان میں آئی ایم ایف کا وفد بجٹ پاس کروانے ۔ایسے میںبھارت اگر پہلگام کے واقعہ کو وجہ بنا کر پاکستان پر جنگ مسلط کر دی تو ہے مگر جنگ زیادہ دیر تو نہیں چلے گی ۔کچھ لوگ مارے جائیں گے اور آئی ایم ایف پاکستانی فوج کا بجٹ جتنا مانگا ہے اتنا ہی منظور کر کے چلا جائے گا؟کیا ایسا نہیں لگتا کہ اگر پاکستان میں آئی ایم ایف کا وفد نہ آتا تو پہلگام کا واقعہ بھی نہ ہوتا؟
اگر واقعات کی کڑیوں کو جوڑا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ شہباز شریف نے جنرل کو بتا دیا ہو گا کہ کہ آئی ایم ایف کے ہوتے ہوئے ہم دفاع کا اضافی بجٹ نہیں پاس کر سکیں گے بلکہ اسے بھی خاصا کم کر دیں گے۔اس کے لیے وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں۔غالباً یہی وجہ ہے کہ دونوں بھائیوں اور بھتیجی نے پہلگام کے واقع پر مذمت کرنے سے اجتناب کیا۔ وہ اس سازش کا حصہ ہیں۔
مسئلہ یہی نہیں ہے۔ اس سب کے علاوہ یہ بھی ہے کہ پاکستان جو ابتک ادھار لے لے کر فوج کو رقمیں دیتا رہا تھا وہ راستہ بھی سوکھ گیا ہے۔ اس لیے فوج نے حکومت سے ہزاروں ایکڑ اراضی لے لی کہ زراعت سے آمدنی بڑھے گی تو فوج کو زیادہ بجٹ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کے علاوہ زر مبادلہ کے لیے پاکستان اپنی معدنیات کو اونے پونے بیچ کر ڈالر کما لے گا جنہیں فوج کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اس کے لیے معدنیات پر ایک قانون بنانے کا ارادہ کیا گیا جس کے تحت معدنیات کی ملکیت صوبوں سے نکل کر مرکز کے تحت آ جائے گی۔ وہاں تو جنرل صاحبان ہر کرسی پر بیٹھے ہیں، کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
جہاں تک مودی کا تعلق ہے اس نے پہلگام کے واقعہ سے جتنا فائدہ لیا جا سکتا تھا اس سے کہیں زیادہ لے لیا ہے۔ سب سے پہلے جو سندھ طاس کا معاہدہ ہے اس کو معطل کر کے مستقبل میں پاکستان کا پانی بند کرنے کا انتظام کر لیا ہے۔پاکستانیوں کو جوکسی ویزا کے تحت بھارت آئے ہوئے تھے ان کے ویزے کینسل کر کے انہیں واپس بھجوا دیا ہے۔بھارت میں پاکستانی سفارت خانے سے جو ملٹری اور نیوی وغیرہ کے سفارت کار تھے ان کو بھی واپس بھجوا دیا ہے۔پاکستان سے جو ذرا سی تجارت تھی وہ روک دی ہے۔پاکستان نے جو اس کے جواب میں وہ سب کچھ کیا ہے جو کرنا چاہیئے تھا۔ اس نے پاکستان کی فضائی حدود پر سے بھارتی ساخت اورملکیت کے جہازوں کی پروازیں بند کر دی ہیں۔ اس سے ان ہوائی کمپنیوں کو خاصا نقصان ہو گا۔ ابھی تک بھارت یہ واضح طور پر ثابت نہیں کر سکا ہے کہ پاکستانی پہلگام کے حملے میں ملوث تھے۔ اگر تھے تو ان کو قرار وقعی سزا ملنی چاہیئے۔لیکن اس کا جواز بنا کر پاکستان پر کوئی بڑا حملہ تو جائز نہیں ہوسکتا۔کیونکہ اس میں نہ صرف لڑائی بڑھ سکتی ہے، دونوں ممالک کے فوجی اور شہری بھی ہلاک ہو سکتے ہیں، جو بالکل غیر ضروری ہو گا۔
بھارت بھی غالباً اس حملہ کے محرکات کو سمجھ گیا ہے۔ اس نے آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے بجٹ میں دفاعی اخراجات کو کم کرے۔ آئی ایم ایف تو پہلے ہی یہ ارادہ کیے بیٹھا ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کی فوج کب تک پاکستان کا خون چوس کر اپنا پیٹ پالتی رہے گی؟ اب تو اس کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں والی مثال ہے کیونکہ اس نے اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت بنا لی ہے، جو جھوٹے ووٹوں پر بنی ہوئی ہے۔ فوج جب چاہے اسے منٹوں میں گرا سکتی ہے۔ اس لیے حکومت، وفاقی کیا اور صوبائی کیا، سب بلیک میل ہو رہی ہیں۔ فوج جس کو دل چاہے جس کرسی پر بٹھانا ہو بٹھا دیتی ہے۔ وزیر اعظم جی حضور کی مثال ہر کاغذ پر دستخط کرنے پر تیار بیٹھا ہوتا ہے۔اتنا مزیدار کام تو تب بھی نہ ہوتا اگر فوج مارشل لاء لگا کر آتی۔اب تازہ مثال ہی دیکھ لیں کہ حاضر سروس کے جنرل کو وفاق میںحکومت کا مشیر لگوا دیا گیا ہے۔ اب باقی کیا رہ گیا۔وہ مشیر جو ’’مشورے‘‘ دے گا ، انہیں آمنا و صدقنا کہہ کر وزیر اعظم سر تسلیم خم کر کے مانے گا۔یہ تعیناتی ، در حقیقت، مارشل لاء کی آخری کڑی ہے۔کٹھ پتلی وزیر اعظم کو بھنگ پی کر سوئے رہنا چاہیئے۔
ان سب حرکات کے باوجود، فوج کو جو پیسہ چاہیئے، وہ نہیں مل سکتا، کیونکہ خزانہ جو خالی رہتا ہے۔ قرضے مل نہیں رہے۔ اب خالی خزانہ پر قبضہ ہو بھی گیا تو کیا فائدہ؟سندھیوں نے نہریں بنانے کے منصوبے پر پانی پھیر دیا ہے۔ ادھرشمالی علاقہ جات میں معدنیات کے قانون کے مسودے پر پیش رفت نہیں ہو رہی۔ بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں نے جو ملک کے حالات دیکھے ہیں، شاید ہی کوئی سر پھرا ہو گا جو سرمایہ لائے گا۔جدھر دیکھیں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ اگر عمران خان کو باہر آنے دیں تو وہ چند ہی دنوں میں ایک مصیبت کھڑی کر دے گا۔اگر وہ وزیر اعظم بن جائے تو معلوم نہیں فوج کے ساتھ کیا کرے؟ اگر ڈیل کر لیتا تو یہ خطرہ تو نہ ہوتا۔
جنرل صاحب کو جنگ کے طبل بجانے میں کچھ اور بھی سنہرے خواب نظر آ رہے ہوں گے۔مثلاً عوام میں روز افزوں فوج سے نفرت کم ہونے کا امکان کیونکہ جنگ میں عوام فوج کی حمایت کرتے ہیں۔ جنگی ترانے بناتے ہیں اور فوجیوں کا خون گرم کرتے ہیں۔وہ سب کچھ نہیں ہو رہا۔ فوج نے خود ہی ایک بے معنی سا ترانہ بنایا ہے جو بالکل مقبول عام نہیں ہوا۔لگتا ہے کہ ۹ مئی کے واقعہ کی طرح یہ ڈرامہ بھی فلاپ ہو جائے گا۔کیا ہی اچھا ہو کہ فوج ان سب واقعات سے سبق حاصل کرے اور تمام سیاسی قیدیوںکو رہا کرا کر واپس بیرکوں میں چلی جائے۔ اپنے فوجی جرنیلوں کو جنہیں حکومت کی کرسیوں پر بٹھایا ہے انہیں بھی واپس بلا لے۔ اگر یہ سب کچھ کرے تو عوام میں اس کی مقبولیت بجلی کی تیزی کی طرح واپس آ سکتی ہے۔آزمائش شرط ہے۔ امریکی تواسرائیل کی خوشنودی کے لیے عمران خان کو طاقت سے پرے رکھنا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان اپنی جگہ کسی اور کو بٹھا دے، پاکستان کی خاطر؟ ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button