جنگ شروع نہ ہوتی تو اچھا تھا!

رحمان عباس کا پانچواں ناول زندیق ستمبر 2021ء میں مکمل ہوا اور 2022ء میں شائع ہوکر مطالعے اور تجزیئے کا عنوان بن گیا۔سات سو پچاسی صفحات کے اس ضخیم ناول کا ہوشرباء اور چشم کشا متن سیکڑوں بل کھاتے ہوئے ، متنوع سمت لہراتے ہوئے اور متعدد ان کہی باتیں سمجھاتے اور بعض نادر توجیہات سمجھاتے ہوئے ، بالآخر اس پیراگراف پر منتہی ہوتا ہے کہ؛ "سرحد پر فائرنگ جاری تھی ۔۔۔ جمعہ کا دن تھا۔ پلوامہ، گندربل اور سری نگر میں فوجی گاڑیوں کو ڈرون میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ اس کے فوراً بعد فوجیوں پر کشمیر میں جابجا حملے شروع ہوئے ، کوئی شہر، کوئی قصبہ ، کوئی گاؤں ایسا نہیں تھا جہاں لوگ اپنے گھروں کے باہر سینہ سپر اور چاک گریباں نہیں تھے۔ میڈیا میں بھارتی فوجی تجزیہ نگاروں کا دعوی تھا کہ یہ لیزر ڈرون ٹیکنالوجی پاکستانی فوج نے دہشت پسندوں تک پہنچائی ہو گی ورنہ جو حملہ ہوا ہے، وہ ممکن نہیں تھا۔ اس حملے کی بازگشت سے ملک میں شدید احتجاج اور مسلمانوں کے خلاف تشدد پھوٹ پڑا ۔ سیکڑوں شہروں میں مسلمانوں کی املاک، مساجد اور آبادیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ رات دس بجے تک پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کی ہلاکت کی اطلاع تھی۔ رات ایک بجے بھارتی فوج نے گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موجود دہشت گردوں کے تربیتی مراکز پر حملہ کر دیا۔اور جنگ شروع ہو گئی۔” گویا آج سے تین سال پہلے شائع ہو چکے ناول میں ان تمام خدشات کو شمار کر کے بیان کر دیا گیا تھا، جن پر موجودہ انتہا پسند بھارتی حکومت کشمیر ہی کو مرکز بنا کر اسی "جنگ ” کو شروع کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے ،جس کا ایک اظہار خدشے کے طور پر زندیق میں کر دیا گیا تھا۔ پہلگام میں ہونے والے افسوسناک واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ایک آدھ ثبوت تو دور کی بات ہے ، بھارتی حکومت ابھی تک دہشت گردوں کو نہ تو شناخت کر سکی ہے اور نہ ہی گرفتار، اور نہ ہی اس سمت ابھی تک کوئی کامیابی حاصل کر پائی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بھارتی شور اور حکومتی اضطراب کو قبول نہیں کیا جا رہا ۔خود بھارت کے اندر سے حکومت کے لیے ایسے سوالات کے طوفان اٹھ رہے ہیں ، جن میں سے کسی ایک کا جواب بھی جنگ کے لیے آمادہ و تیار حکومت کے پاس نہیں ہے۔زندیق کی ایک حیرت انگیز پیش بینی یا مستقبل شماری بے حد حیران کر رہی ہے ۔اس وقت دونوں ملکوں کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے دیکھ اور سمجھ رہے ہیں کہ بھارتی افواج کے سربراہان اور آمادہ جنگ نریندر مودی کے خیالات میں واضح فرق پایا جا رہا ہے ۔زندیق کی مستقبل شماری ملاحظہ ہو، ناول کے مطابق ،ملک میں انتشار عروج پر ہے اور جنگ کے آثار گہرے بادلوں کا روپ دھار رہے ہیں کہ ثناءاللہ کشمیر میں اپنی پوسٹنگ کے بعد ؛ ثناء اللہ نئے کیمپ میں خود کو ایڈجسٹ کر رہا تھا ، آب و ہوا سے موافقت و مطابقت پیدا کر رہا تھا۔۔۔۔ایک بار جنرل چاولہ سے تفصیلی بات ہوئی انھوں نے اپنے ذرائع سے معلوم کیا تھا کہ کور کمانڈر کانفرنس میں کافی ہنگامہ ہوا ہے، وہ جنرل جنہوں نے حکومت کی پالیسی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے ان میں سے بہت سوں کا تبادلہ جنوبی ہند یا فوج کے غیر فعال اداروں میں کیا گیا ہے۔ کئی سینئر جنرل دس پندرہ دن میں ایک ساتھ احتجاجاً استعفیٰ دینے والے ہیں۔ ثناء اللہ کا خیال تھا کہ استعفیٰ دینا مسئلے کا حل نہیں لیکن چاولہ اس کے خیال سے متفق نہیں تھے۔” گویا 2025ء میں بھارتی فوجی سربراہان اور شدت پسند بھارتی سیاسی حکمران جنگ کے موضوع ، جواز اور طریقہ کار پر جن اختلافات کا برملا اظہار کر رہے ہیں ، اس کا اندازہ و قیاس اور امکان شماری رحمان عباس ستمبر 2021ء تک کر چکے تھے۔ زندیق میں ناول نگار اپنی سیاسی ، سماجی اور جغرافیائی امکان شماری میں پاکستان اور ہندوستان میں انتہا پسند مذہبی شدت پسندوں کے برسراقتدار آنے کا منظر دیکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ؛ "پاکستان میں آئندہ ماہ الیکشن تھا ، اس بار اسلامی متحدہ محاذ کافی طاقت ور لگ رہا تھا۔بھارت کو ہندوراشٹر بنانے کے اعلان کے بعد اسلامی متحدہ محاذ نے الیکشن سے متعلق اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور کہا کہ اب پاکستان میں شریعت کا نفاذ لازم ہو گیا ہے چنانچہ یہ الیکشن شریعت اور کشمیر کے نام پر لڑا جائے گا۔ مذہبی محاذ اقتدار میں آکر شریعت کا نفاذ کرے گا ، اس کے بعد کشمیر کے لیے غزوہ ہند کی تبلیغ و تشہیر کرے گا۔ پاکستانی فوج اگر اس بار مذہبی تنظیموں کی حمایت نہیں کرتی تو فوج میں انتشار اور سخت گیر مذہبی فوجیوں کی بغاوت کا قوی امکان تھا چنانچہ فوجی لیڈر شپ نے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر اسلامی متحدہ محاذ کو حمایت کی پیش کش کر دی ، اب الیکشن محض ایک رسم تھی۔ ہر تین چار دن میں بھارت کے کسی نہ کسی شہر میں ہندوراشٹر کے خلاف احتجاج ہوتا ، اس کے خلاف ہندوراشٹر سینا سے جڑی ہوئی کوئی نہ کوئی تنظیم مظاہرہ کرتی ، حالات کشیدہ ہو جاتے۔ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا بیانیہ شدت اختیار کر گیا ، وہاں چین ، لداخ سے ملحق سرحدی علاقوں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا، لیکن بیک ڈور ڈپلومیسی جاری تھی۔۔۔۔۔پاکستان میں اسلامی متحدہ محاذ نے الیکشن جیت کر حکومت بنالی۔۔۔۔۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں مذہبی جماعت نے آئین کو شریعت میں تبدیل کرنے کا بل پاس کیا ، اسی دن بھارت مخالف تنظیموں پر لگی پابندیوں کو ختم کر دیا۔ بین الاقوامی میڈیا ابھی اس موضوع پر بحث کرتا کہ مذہبی محاذ نے ملک بھر سے نوجوانوں کو غزوہ ہند کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کی ہدایت کی، اس اعلامیہ کے خلاف بھارت نے سخت رد عمل ظاہر کیا ، پاکستان کے سفارت کار کو ملک بدر کر دیا ، جواب میں پاکستان نے بھارت کے سفارتی عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔”یہاں ناول نگار پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے اثرورسوخ ، مقبولیت اور پسندیدگی کے بارے میں صحیح اندازہ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔اس نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا ہے کہ؛ پاکستان میں آج تک تمام شور شرابے کے باوجود کوئی شدت پسند مذہبی جماعت خاطر خواہ ووٹ حاصل کر کے پارلیمان میں فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں کر سکی ، اور نہ ہی مستقبل میں اس طرح کا کوئی امکان موجود ہے ۔ پاکستانیوں کی فیصلہ کن اکثریت انتہا پسندانہ مذہبی تصورات کو اسلام کا حصہ خیال نہیں کرتی۔پاکستانی ملا ہمیشہ ایک زیر استعمال آلہ کار کے طور پر نمایاں ہوتا رہا ہے اور وہ بھی معقول معاوضے پر۔اگر ملا کو استعمال کرنے والے ایسا نہ کریں، یا ایسا کرنے کی ضرورت محسوس نہ کریں،تو یہی ملا واپس اپنی زیردست معاشرتی حیثیت میں واپس چلا جاتا ہے ،یا چلا جائے گا۔پاکستانیوں کی فیصلہ کن اکثریت تعلیم سے محبت کرنے والے باشعور اور روشن خیال اور امن سے محبت کرنے والے لوگوں پر مشتمل ہے۔ سیاست کا کوئی بھی طالب علم جان سکتا ہے کہ پاکستان میں جب بھی مذہبی شدت پسندی کا مصنوعی ابال پیدا کیا گیا تو اس کے پیچھے کسی بین الاقوامی طاقت کے مفادات اور مقاصد پنہاں تھے۔ایسا کئی بار ہوا ،اور اب پاکستانی کسی بھی بین الاقوامی طاقت کے فیصلہ رسوخ اور اس کے نقصان دہ نتائج و اثرات سے بے زار اور نالاں ہیں۔لہٰذا پاکستان میں کبھی مذہبی شدت پسندوں کے برسر اقتدار آنے کا امکان اور مفروضہ درست شمار نہیں ہو گا۔زندیق ہمیں بھارت میں سیکولر جمہوریت پسندوں کی طرف سے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی ہر کوشش کی مزاحمت سے آگاہ بھی کرتا ہے ۔دراصل بھارت کے یہی سیکولر جمہوریت پسند لوگ خطے میں امن و خوشحالی کی ضمانت خیال کئے جا سکتے ہیں ۔ناول زندیق پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں بتاتا ہے کہ؛ "…دلت ادبیوں کی ایک تنظیم نے اعلان کیا کہ اگر بھارت کو ہندو راشٹر بنا دیا گیا تو وہ اس کے خلاف ماس سوسائڈ کریں گے تاکہ ان کے احتجاج سے دنیا کی توجہ اس طرف مبذول ہو، آسام اور شمالی ہند کی زیر زمین جہادی تنظیموں نے اعلان کیا کہ وہ نکسلائٹ تحریک کی طرز پر پولیس اور فوجیوں کے خلاف سنگھرش شروع کریں گے۔ نکسلائٹ تحریک کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا لیکن کرناٹک، آندھرا پردیش اور اڑیسہ میں ایف بی ایس کے دستوں پر گزشتہ دو ہفتوں میں تین بار حملہ ہوا۔۔۔۔بھارت میں ہندوراشٹر کے خلاف بائیں بازو اور آئین سے مخلص تنظیموں اور افراد نے سیکولر فرنٹ بنایا ور اعلامیہ جاری کیا کہ اگر حکومت نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا تو وو جمہوری طرز پر احتجاج کریں گے، سپریم کورٹ میں حکومت کے خلاف لڑیں گے، ان کے اس اعلامیہ پر حکومت نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔” 2025ء کی صورت حال میں انتہاءپسند نریندر مودی کے حکمران ٹولے کو بھارت کے یہی سیکولر جمہوریت پسند چیلنج کر رہے ہیں۔پہلگام واقعے کی منظم تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نریندر مودی نے پہلگام حادثے کے فوراً بعد جس سرعت سے پاکستان پر الزام لگا کر سندھ طاس معاہدہ معطل کرکے دیگر اقدامات کا اعلان کیا، اس کے بعد لازم ہے کہ بھارتی وزیر اعظم اب اپنا نام تبدیل کر کے نریندر مودی کی بجائے نادان مودی رکھ لے۔کیونکہ دنیا بھارت کی حرکتوں اور جنگ کی بے قرارآرزومندی کو نادانی ہی شمار کر رہی ہے۔رحمان عباس کے ناول زندیق نے دونوں ملکوں کے مابین اپنے اپنے مذہبی انتہاء پسندوں کی سخت گیری اور شدت پسندی کے باعث جس جنگ یا محاربے کی طرف اشارہ کیا تھا، اطمینان کی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے امن پسند اور انسانیت شعار لوگ اس جنگ کے خلاف ہیں۔لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسا ہو نہیں سکا اور ناول زندیق کا اختتام ” اور جنگ شروع ہو گئی ” چھ اور سات مئی کی درمیانی شب امر واقعہ کی صورت اختیار کر گیا۔ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق انڈیا نے پاکستان اور اِس کے زیر انتظام کشمیر میں چھ مقامات کو میزائلوں سے نشانہ بنایا ، جس کے نتیجے میں 26 پاکستانی شہری ہلاک جبکہ 46 زخمی ہو گئے ہیں۔پہلگام حادثے میں بے گناہ سیاحوں کو ہلاک کرنے والے دہشت گردوں کو ابھی تک تلاش اور شناخت نہیں کیا جا سکا،لیکن پاکستان کے 26 بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کے ذمہ دار دہشت گردوں کو پوری دنیا اچھی طرح سے جانتی اور پہچانتی ہے ،ان کو سزا کون دے گا؟ انڈیا نے پاکستان کے وسط میں میزائل حملے کرکے ایک ایٹمی طاقت کی بین الاقوامی سرحدوں کے تقدس کو بھی پامال کیا ہے، یہ ایک اچھا آغاز نہیں ہے۔ میری اب بھی پختہ رائے یہی ہے کہ جنگ شروع نہ ہوتی تو اچھا تھا۔