ہفتہ وار کالمز

ہمسایو، ہوش کے ناخن لو!

بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی خبر کے مطابق، 22اپریل 2025 کو بھارتی کشمیر کے علاقے پہلگام میں حریت پسندوں کے ایک گروہ نے 26 اشخاص کو ہلاک کر دیا اور 17زخمی ہو گئے۔ جن حملہ کرنے والوں نے یہ ذمہ واری قبول کی وہ اپنا نام کشمیر رزسزٹنس فرنٹ بتاتے ہیں۔ بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ دو دہائیوں میں اتنا بڑا حادثہ نہیں ہوا تھا۔کہا گیا کہ یہ گروہ پاکستانی تنظیم لشکر طئیبہ سے منسلک ہے جنہوں نے 2008میں بمبئی کے تاج محل ہوٹل پر حملہ کیا تھا۔اس نئے حملے کے جواب میں، بھارت نے پاکستان کے ساتھ جو سندھ طاس کا معاہدہ کیا ہوا ہے اسے معطل کر دیا اور اسلا م آباد پر اس سرحد کے پار حملے میں معاونت کا الزام لگایا ہے۔دونوں ملکوں کے تعلقات دیکھتے ہی دیکھتے سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔پاکستان نے بھارتی ہوائی کمپنیوں کے جہازوں کو پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہونے کو روک دیا ہے۔ سوائے سکھ یاتریوں کے سب بھارتیوں کے ویزے منسوخ کر دیئے ہیں، جیسے کہ بھارت نے بھی کیا ہے۔ سب سے تکلیف دہ حکم ہے جو اس تجارتی سامان کی ترسیل کو روکنے کا کیا گیا ہے جو بھارت سے افغانستان جاتا تھا۔ ان تمام پابندیوں سے جو رہے سہے تعلقات تھے ان کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔پاکستان نے جو جوابی کاروائی کی ہے وہ ترکی بہ ترکی ہے۔ اب صرف مختصر عملہ ایک دوسرے کے سفارت خانے میں رہے گا۔ کافی سفارت کاروں کو واپس جانے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے۔
کشمیر 75سال سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ رہا ہے۔ پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد جب وہاں کے ہندو راجہ نے بھارت کے ساتھ جانے کا اعلان کیا تو پاکستان نے احتجاج کیا۔ دونوں ملکوں کی فوجیں آپس میں ٹکرا گئیں۔ پاکستانیوں کی حمایت میں کچھ قبائیلی جنگ جو بھی آ کرشامل ہوئے۔ پاکستان نے کچھ کشمیر کے علاقے کو آزاد کروا لیا۔ یو این نے بیچ بچائو کروایا اور آئندہ ایسی جنگ کو روکنے کے لیے ایک لائین آف کنٹرول بنا دی اور وہاں اپنی چوکیاں بنوا دیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کے ہندو راجہ کا فیصلہ کشمیر کی مسلمان آبادی کے مفادات کے خلاف تھا اور جن بنیادوں پر بٹوارہ ہوا تھا، ان اصولوں کے بھی خلاف تھا لیکن انگریزوں نے بھارت کا ساتھ دیا اوراپنے بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف فیصلہ کر کے چلے گئے۔
کشمیر در اصل پاکستان کے لیئے ایک زندگی موت کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ جس پانی کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے وہ کشمیر سے گذر کر آتا ہے۔ اگر کشمیر بھارت کے پاس چلا جائے تو ایک دن بھارت اس پانی کو اپنے قبضہ میں کر کے پاکستانیوں کی ذراعت کو کاری ضرب لگا سکتا ہے، اور تین دن پہلے مودی نے دریائے سندھ کے معاہدے کو معطل کر کے یہ ثابت بھی کر دیا کہ بھارت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان میں صدر ایوب کی حکومت تھی جو فوجی جنرل تھا اور مارشل لاء لیکر آیا تھا۔ 1965میں کشمیر پر پھر جنگ شروع ہو گئی۔اس جنگ میںپاکستانیوں نے کشمیر میں خاصی پیش قدمی کر لی جس کے جواب میں بھارت نے پاکستان کی باقاعدہ سرحدوں پر کھلم کھلا جنگ شروع کر دی۔17 دن شدید جنگ جاری رہی جو یو این کی سیکیورٹی کونسل نے بند کروائی۔ اور تاشقند میں جنگ بندی کے مذاکرات ہوئے جن کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان کو ایک دوسرے کے علاقے واپس کرنے پڑے۔ اس جنگ میں بھارت حاوی رہا اور لائن آف کنٹرول کو مستقل بنا دیا گیا۔
کیا پاکستان کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ بھارت کے ساتھ پر امن طریقوں سے بھی کروا سکتا تھا؟ شاید۔ لیکن ایسا کرنا اس کی عسکری قوت کو منظور نہیں تھا۔کہتے ہیں کہ امریکہ اور روس کی دشمنی ایسی ہی بنیادوں پر چلتی ہے۔ امریکی فوج کا اتنا بڑا بجٹ ہے اور اس کی خواہشات اس سے بھی بڑی ہیں۔ اس لیے وہ چاہتی ہے کہ ہمہ وقت روس اور کیمونسٹوں کا خوف امریکنوں پر حاوی رہے، تا کہ ان کے بجٹ میں کمی نہ ہو اور امریکن جب اپنے فوجیوں کے تابوت آتے دیکھتے ہیں تو کیمونسٹوں کے خلاف ان کی نفرت بڑھ جاتی ہے۔ افغانستان میں بھی وہ روسیوں سے مقابلے کے لیے گئے تھے لیکن جب روسی چلے گئے تو انہیں شوق چر ایا کہ کیوں نہ اٖفغانستان میں ایک دو اڈے بنا لیں، ان سے پاکستان پر بھی نظر رہے گی اور ایران پر بھی، لیکن طالبان نے انہیں موقع نہیں دیا۔اور انہیں افغانستان سے نکلنا ہی پڑا۔
پاکستان کی فوج بھی ایک دو دشمنوں کو ہر وقت پالتی ہے۔ تین ہو جائیں تو کیا ہی بات ہے۔ جب ہندوستان سے صلح کی یا کشمیر کے مسئلہ کو سیاسی طور پر حل کرنے کی بات ہوتی ہے تو خدا کا کرنا کوئی نہ کوئی ایسا پھڈا ہو جاتا ہے کہ معاملات بہتر ہونے کے بجائے اور کھٹائی میں چلے جاتے ہیں۔ کشمیر کے تو ایک دو دفعہ معاملات طے ہونے والے تھے کہ بمبئی پر حملہ ہو گیا، اور دونوں ملک میلوں دور چلے گئے۔جب سے پاکستان نے ایٹم بم بنا لیے ہیں ہندوستان سے بڑی جنگ کا خطرہ تو ٹل سا گیا ہے۔ اس لیئے کہ بھارت یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا کہ پاکستان اس پر ایٹمی حملہ کر دے۔ لیکن چھوٹے موٹے معاملات تو ہو سکتے ہیں، جیسے کہ ممبئی کے ہوٹل پر، پلوامہ پر اور اب پہلگام میں۔
آپ کو شاید یاد ہو گا کہ جب ممبئی کے ہوٹل پر حملہ ہوا تو بھارتی کابینہ میں خاصی لے دے ہوئی کہ کیوں نہ پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے ایک زور دار بین الاقوامی سرحد پر حملہ کر کے سالوں کو مزہ چکھا دیا جائے۔ حملہ ہی کچھ ایسا تھا کہ امریکہ، روس اور یوروپی طاقتیں سب بھارت کا ساتھ دیتیں۔ لیکن اللہ بھلا کرے بھارتی سول سروس والوں کو جو پاکستان میں سفارت کاری کر چکے تھے، انہوں نے کہا کہ پاکستان پر اب جب کہ وہ ایٹمی دھماکے کر چکا ہے ، ایساحملہ کرنامناسب نہیں۔ کیونکہ اگر پاکستان ہارنے لگا جو یقینی ہے، تو وہ مایوسی میں یہ آخری قدم اٹھا سکتا ہے کہ اپنے ایٹم بم استعمال کرکے، جو بھارت کو بالکل منظور نہیں۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ پاکستان کو سفارتی اور سوشل میڈیا کے محازوں پر نا قابل تلافی نقصان پہنچایا جائے۔ چنانچہ بھارت نے یہی کیا، اور دنیا بھر میں جھوٹ سچ کی پرواہ کئے بغیرپاکستان کی ساکھ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
کہا جاتا ہے کہ ممبئی کے ہوٹل کے حملہ میں پاکستان کا کردار تھا۔ ہماری فوج نے جو دہشت گرد پال رکھے ہیں، (بقول وزیر دفاع خواجہ آصف) ، ان ہی میں سے کسی ایک کا کام تھا، جسے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے بے دھڑ ک مان لیا تھا۔یہ حملہ عین اس وقت کروایا گیا جب بھارت اور پاکستان میں تعلقات بہتری کی طرف جانے والے تھے۔ عسکریت کو نظر آیا کہ اگر یہ ازلی دشمن دوست بن گئے تو پاکستان کو فوج کی کیا ضرورت رہے گی؟ آئی ایم ایف تو ایک عرصہ سے شور مچا رہی ہے کہ پاکستان اپنے دفاع کے خراجات کم کرے۔تو سات لاکھ کی فوج بے چاری تو بے گھر اور بے کار ہو جائے گی؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ہونے نہیں دیا جائے گا۔اب پہلگام پر سیاحوں پر حملہ وقت کی ضرورت ہو سکتا ہے۔ دونوں طرف سے۔کیوں؟
اس وقت بھارت میں امریکہ بہادر کے نائب صدر اور ان کی بھارت نژاد اہلیہ بھارت میں مودی کی فیاضی اور ناز نخرے سے لطف انداوز ہو رہے تھے۔ مستقبل میں تجارت بڑھانے کے پروگرام بن رہے تھے۔ ایسے میں اگر ایسا حملہ کروا کر پاکستان کو بد نام کیا جائے تو تو امریکی تعلقات پر پاکستان کے خلاف کتنے شدید جذبات ابھر سکتے ہیں؟امریکی عوام تو پاکستان کے نام سے ہی بددل ہو جائیں گے؟ پاکستانی سوشل میڈیا میں ایسے بہت سے شواہد اور بیانیے دیے جا رہے ہیں جن سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یا تو حملہ ہوا ہی نہیں یا اسے بھارت نے خود کروایا۔
دوسری طرف اگر بھارت کے رد عمل اور سرکاری بیا نات کو دیکھا جائے، تو پاکستان کو سرا سر اس حملہ میں ملوث پایا گیا ہے۔ اگر چہ ابھی تک بھارت ملزموں کو پکڑنے میں ناکام ہوا ہے۔لیکن تاریخ سے ایسے واقعات کو دیکھنے کی تشریح کر رہا ہے۔جہاں تک پاکستانی عسکریت کا تعلق ہے، وہ آج کل خاصی پریشان ہے۔ سب سے بڑا غم اسے یہ کھا رہا ہے کہ پاکستانی عوام میں فوج کی مقبولیت نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے۔ اگر بھارت کے خلاف جنگ ہوتی ہے تو عوام لا محالہ فوج سے ہمدردی کریں گے اور فوج کو عمران خان کے خلاف سہارا مل سکتا ہے۔دوسرا بڑا عنصر حسب دستور آئی ایم ایف کا شدید اصرار ہے کہ دفاعی اخراجات کو پچاس فیصد کم کیاجائے۔یہ تو فوج کی حکمرانی میں بہت شدید خسارہ ہو سکتا ہے۔ یہ ہمارا وہم ہے یا حقیقت، لیکن قرائین یہی بتاتے ہیں۔تیسری بڑی وجہ کمانڈر انچیف کو نومبر میں ریٹائر ہونا ہے۔ اگر ہند و پاکستان میں جنگ بھڑکنے کے امکانات بڑھ گئے تو سپہ سالار کو مزید تین سال کی ملازمت میں توسیع سے کون مائی کا لعل روک سکے گا؟ اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر یہ تین خاصی وزنی ہیں۔
جہاں تک بین الاقوامی سرحدوں پر ہندوستان کی پیش قدمی کے امکانات تو کم ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں، اگرچہ بھارت کو امریکہ، روس، سعودی عرب، یوروپین یونین ، حتیٰ کہ چین کی حمایت بھی ہو سکتی ہے۔اگر بھارت کو پاکستان سے ایٹمی حملہ کا ڈر نہ ہوتا تو اس کی فوجیں کبھی کی سرحد کی طرف بڑھنا شروع ہو گئی ہوتیں۔
ان حالات میں ، بھارت کچھ تو کرے گا۔ اگر اس نے فوجی سزا دینی ہے تو ممکن ہے کہ آزاد کشمیر پر ایک آناً فاناً قسم کا حملہ کرے اور کچھ علاقہ اپنے قبضہ میں کر لے۔ اگر بڑا تیر مارنا ہے تو بجائے آزاد کشمیر کے، گلگت بلتستان کی طرف رخ کرے اور اس علاقے پر قبضہ کر لے جہاں آج کل معدنیات کا ذکر ہو رہا ہے اور امریکہ، چین اور بھارت کی نظر ان پر ہے۔ایک دفعہ یہ علاقہ پاکستان کے قبضے سے نکل گیا تو پھر کبھی واپس نہیں ملے گا۔اس میں کوئی شک نہیںکہ پاکستان کے پاس نہ تو اتنی اقتصادی قوت ہے اور نہ ہی عسکری کہ وہ ہندوستان کو کہیں بھی شکست دے سکے۔ اس قسم کی چھوٹی ، علاقائی جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا امکان بھی نہیں ہو گا۔ پاکستان کو بس یہ زخم کھا کر چپ رہنا ہی بہتر لگے گا۔ بڑے صاحب کو نوکری کی توسیع ملے نہ ملے، انہوں نے اتنا کما لیا ہے کہ کسی بھی بڑے ملک میں باقی کی زندگی آرام اور عیش کے ساتھ گذار سکیں گے۔وہ بھی اور ان کے ساتھ بڑے بڑے جرنیل بھی۔
پاکستان کا کیا ہے؟ نواز خاندان اور زرداری میں پہلے ہی ان بن ہو رہی ہے۔ یہ حکومت گر بھی سکتی اور گرائی بھی جا سکتی ہے۔تا کہ معاملہ تحریک انصاف کی گود میں ڈال دیا جائے، وہ اس ملک کی مکمل تباہی کی داستان کا آخری باب رقم کرے۔ عوام گئے چولھے میں۔ ان کی پرواہ نہ پہلے کسی کو تھی اور نہ تب ہو گی۔ان کو اپنے کیے کا کڑوا پھل تو کھانا ہی پڑے گا۔
بھارت سے پنگا لینا انتہائی بیوقوفانہ عمل ہے۔ پاکستان کو اپنے ہمسائے ملک سے تعلقات اعلی ترین رکھنے چاہئیں۔ نہ صرف ایک دوسرے ملک میں آمد و رفت کو آسان بنانا چاہیئے بلکہ تجارتی سہولتیں بھی دینی چاہئیں۔اس سے پہلے ہمیشہ کے لیے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے میں کیا حرج ہے؟اس کے بدلے میں پاکستان کو صرف ایک شرط منوانی چاہیئے کہ بھارت اپنی مسلمان آبادی کے انسانی حقوق کا احترام کرے گا۔اس قسم کے تعلقات بنانے میں بہتروں کا بھلا ہو گا۔ دونوں ملک ایک دوسرے سے ترقی کے کامیاب راستوں سے سیکھیں گے اور بجائے مسابقت کے، بھائی چارے سے کام لیں گے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button