معاشی جنگ و جدل

امریکہ اپنی اخلاقی و انسانی تحفظ کی ذمہ داریوں سے تو فارغ کب کا ہو چکا مگر فلسطین کے حوالے سے جس بررحمی سے جانبداری کا مرتکب ہوتے ہوئے اسرائیل کے مذموم عزائم کی تکمیل میں دامے درمے سخنے شامل ہوا ہے اُس رویے اور مسلم کمیونٹی کے متعلق اُس کے احساسات و جذبات سے دنیا باخبر ہو چکی یوں امریکہ ٹرمپ کی سربراہی میں اپنی ساکھ کے معاملے میں سب پر عیاںہو گیا ہے جو اس کے خارجی تعلقات کو مستقبل قریب میں شدید متاثر کر سکتے ہیںاپنی کھلی آنکھوں سے ظلم و زیادتی کو دیکھنے کے باوجود اسرائیل کو تھپکی پہ تھپکی دینا ،اور اپنی چودھراہٹ کو قائم رکھنے کے لئے وہ فلسطین کے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے اسرائیل کے جنگی جرائم میں برابر کا ذمہ دار ہے گویا کرہ ارض پر ان کے علاوہ کوئی دوسرا رہنے کا حق ہی نہیں رکھتا ،اگر کسی کو بھی رہنا ہے تو اُسے اپنی آزادی سلب کر کے ان کی غلامی میں تابع بن کے رہنے میں سلامتی ہے بصورت دیگر زندگی کا تصور ممکن نہیں!!!! اقوام ِ عالم کاوہ ادارہ جسے اقوام ِ متحدہ کہنے سے اب ہچکچاہٹ اس لئے ہوتی ہے کہ یہ صرف بڑی طاقتوں کے سامنے سربسجود ہوتا رہا ہے کشمیر کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا مسئلہ ہو ایران ہو یا عراق ہو ان سارے مسلم ممالک میں پھیلی کشیدگیوں پر اقوام متحدہ نے کبھی عدل و انصاف سے کام نہیں لیا اس کے برعکس ہمیشہ بڑی طاقتوں کے ایجنڈے پر کام کرتا رہا ہے با الفاظ ِ دیگر مسلمان ممالک کے لئے انتہائی سخت ،غلامانہ طرز ِ عمل کا رویہ روا رکھا گیا ہے جس کے واضح دلائل عراق جنگ کے دوران ، مقبوضہ کشمیر کی قراردادوں سے روگردانی ،ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکہ کی جانب جھکائو اور فلسطین کے مسئلے پر امریکی و اسرائیل کی جنگی جرائم پہ خاموشی اُس کی جانبداری کی واضح عکاس ہیں جیسے ہمارے وطن ِ عزیز میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عمران خان کو صادق اور امین کے لقب سے نوازا تھا جب کہ ان خواص کا اُن کی ذات سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا بلکہ عمران کی دروغ گوئی کی کئی مثالیں اب بھی تاریخ کی دیوار پر لطیفہ بنی ہمارے شعور پر مسکرا رہی ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ منصب پر قائم رہنے کے لئے یا زندہ رہنے کے لئے فرعونیت کی قصیدہ گوئی بھی تاریخ ہماری سماعتوں کو نذر کرنے سے نہیں کتراتی شرط ہے کہ معاشرتی چشم پوشی نہ آڑے آئے ۔سیانے کہتے ہیں کہ جھوٹ کا نزول بھی ابلیسی طاقتوں کے ہمراہ دنیا وی معاشرے میں نمودار ہوا اور فوری طور پر جسد ِ خاکی میں پیوست ہو کر اپنی کاروائیوں میں اتنا کامیاب ہوا کہ سیاست جو کبھی خدمت کا نام تھی آج گالی بن چکی ہے بلکہ جھوٹ کا شکار صرف ہم ہی نہیں سارے جہاں کی سیاست جھوٹ کا طواف کرتے دکھائی دیتی ہے امریکہ میں مقیم غیر ملکی طالب علموں کا فلسطین کے مسئلے پر احتجاج انسانی حقوق پر منطبق ہے جسے ٹرمپ حکومت نے ناپسند کرتے ہوئے اُن طالب علموں کو مختلف بہانوں سے تعلیم سے محروم کرنے کی سازش شروع کر دی ہے اسی طرح چھوٹے بڑے کمزور ممالک کو بھی عندیہ دے دیا گیا ہے کہ اپنے دائرے میں رہو اور فلسطین کے حوالے سے کسی بھی عملی قدم سے گریز کرو بصورت ِ دیگر نتائج بُرے ہو سکتے ہیںجس کے نتیجے میں بہت سے نحیف و نزار ممالک تو کیا بڑے بڑے خود کفیل ممالک بھی اپنے مفادات کی چادر لئے دبک کے بیٹھ گئے ہیں مجھے نہیں لگتا کہ اسرائیل کے خلاف اُمت ِ مسلمہ متحد ہو گی ۔حالیہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی سے جہاں کمزور ملکوں کی بیمار معیشت کو مزید خطرات لاحق ہوئے ہیں تو انھوں کسی بھی جوابی کاروائی کی جانب قدم نہیں بڑھایا مگر چین نے دنیا کی معیشت میں اپنے قد کو امریکہ سے اونچا رکھنے کے لئے اپنی کرنسی یوآن پر ساری توجہ مرکوز کر تے ہوئے ڈالر خریدنے کی پالیسی کو روکتے ہوئے ڈالر کو یو آن کے مقابلے میں سیل کر دیا ہے کیونکہ ڈالر اس وقت انتہائی مہنگی کرنسی ہونے کی صورت کسی بھی دوسری کرنسی کو ہضم کرنے کی صلاحیت مگر ٹرمپ کی یہ مادیت پرست پالیسی امریکہ کی اپنی معیشت کو کاروبار حکومت کو ہچکولے دینے لگی ہے جس سے ٹرمپ کے بیانات اپنی شکل تبدیل کر نے لگے ہیںکیونکہ ٹرمپ کے حمایت یافتہ گان میں کمی کا رحجان بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب چین اپنے موقف پہ ڈٹ کر اس معاشی جنگ و جدل جس کا آغاز ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی نے کیا چین اب ڈالر خریدنے کی بجائے بیچنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تا کہ چین اپنی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں گرنے سے روک سکے اور امریکہ چین اور اُس کے اتحادیوں کو غربت کی لکیر پر بٹھانے کے غم میں معاشی جنگ وجدل کے میدان میں آمنے سامنے ہیں گویا بہار کے اس موسم میں پھولوں کے کھلنے سے پہلے پرندوں کے باغوں میں چہچہانے سے پہلے ہی معاشی دیوانے اقوام ِ عالم کا گریاں چاک کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کیا بہتر ہو کہ غلام بنانے کی پالیسیوں کو ترک کرتے ہوئے دوستانہ مراسم کو پختگی دینے پر بڑی طاقتیں راضی ہو جائیں ٹو معاشی لین دین کے ساتھ ساتھ فلسطین کی طرح کے انسانوں اور مقبوضہ کشمیر کے جبری غلاموں کو بھی آزادی سے جینے کا حق مل سکتا ہے معاشی جنگ و جدل میں خلق ِ خدا کی خون ریزی یا بھوک و افلاس میں مبتلا انسانوں کو مزید محرومیوں کے سپرد کرنا معاشی جنگ کی فتح نہیں انسانیت کی ہار ہو گی ہمیں ذاتی مفادات سے نکل کر اپنی طاقت ورعملی سوچوں میں انسانیت کو دوام بخشنا ہو گا کیونکہ خون ِ نا حق سے زمین میں رزق بڑھتا نہیں سوکھ جاتا ہے۔