ہفتہ وار کالمز

نظیر اس کی نظر آئی نہ سیاحان عالم کو!

نومبر اور اپریل کے مہینے علامہ محمد اقبال کی طرح پروفیسر نظیر صدیقی کے حیات نامے میں بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔پروفیسر نظیر صدیقی 7 نومبر 1930ء ء کو سرائے ساہو، ضلع چھپرا، بہار میں پیدا ہوئےتھے ،جبکہ 12 اپریل 2001ء کواسلام آباد میں وہ خالق حقیقی سے جا ملے ۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے بہترین پروفیسر تھے ۔ ان سے زیادہ مخلص عالم، صاحب طرز نثر نگار، معتبر نقاد اورعمدہ شاعر میں نے نہیں دیکھا۔ پاکستان میں رائج الوقت معیار کے بالکل برعکس حد درجہ سادہ، صاف دل اور صاف گو پروفیسر تھے ، وہ سازش کے فن سے ناآشنا، چاپلوسی سے ناواقف اور ریشہ دوانیوں سے دور رہتے تھے ۔اس سب کے عوض وہ اچھا سوچتے، اور کثرت سے لکھتے تھے ۔ کیا خوب لکھا ہے پروفیسر نظیر صدیقی نے ؛ تاثرات و تعصبات ، میرے خیال میں، تفہیم و تعبیر ، ادبی جائزے، ڈاکٹر عندلیب شادانی۔ ایک مطالعہ ، اردو ادب کے مغربی دریچے، یگانہ چنگیزی ، شیرازۂ خیال ، جدید اردو غزل ایک مطالعہ ، اُردو میں عالمی ادب کے تراجم،جان پہچان ،شہرت کی خاطر ، شعری مجموعہ حسرتِ اظہار،اور Iqbal and Radhakrishnan: A Comparative Study ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ اپنی خود نوشت ’’سو یہ ہے اپنی زندگی‘‘ کا نسخہ ، از راہ کرم مجھے دیتے ہوئے انہوں نے اس پر لکھا تھا کہ کامران کو اس کتاب میں وہ سب کچھ نہیں ملے گا،جس کے لیے وہ اسے پڑھنے کی زحمت گوارہ کریں گے۔ میں 1985ء میں یونیورسٹی کا حصہ بنا، یونیورسٹی آنے کے بعد جن شخصیات سے تعارف اور تعلق استوار ہوا، پروفیسر نظیر صدیقی ان میں شامل تھے۔ یونیورسٹی آتے ہی وائس چانسلر کی طرف سے مجھے یونیورسٹی کے ادبی فورم اوطاق کا سیکریٹری بنا کر یونیورسٹی کو شہر اسلام آباد کی ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا ہدف دیا گیا۔اور پھر اس فورم کے زیر اہتمام ادبی تقریبات کا سلسلہ شروع ہوا۔نظیر صدیقی شاعر بھی تھے اور نقاد بھی، لہٰذا ایسی تقریبات میں ان کی مشاورت اور شمولیت بڑی بامعنی ہوتی۔ میں شاعر نہیں تھا ، تنقید سے بھی کوئی رغبت نہیں تھی، ہاں چپکے چپکے افسانے لکھا کرتا تھا۔جس کی خبر میرے سوا کسی اور کو نہیں تھی۔ ہماری دلچسپیاں مختلف تھیں، مجھے یونیورسٹی کی اندرونی سیاست سے لے امریکہ،روس ، یورپ ،چین (سنکیانگ کی ایغور تحریک اور اس میں امریکی اعانت)، افغانستان کے دہکتے ہوئے چولہے اور اس پر رکھی انگیٹھی کے اوپر سجنے والے فرائی پین سے بیک وقت دلچسپی تھی ۔جبکہ پروفیسر نظیر صدیقی خالص علمی و ادبی مصروفیات میں منہمک رہتے۔وہ یونیورسٹی کے اندر اور باہر کی سیاست سے کوسوں دور رہتے تھے۔وہ سنجیدہ مزاج پروفیسر اور میری ہر بات مزاح کا پہلو لئے ہوتی تھی ۔ وہ شعبۂ اُردو کے سب سے فاضل اور عالم پروفیسر تھے ، تصانیف بھی انہی کی زیادہ تھیں،شہرت بھی سب سے زیادہ اور مثبت، لیکن نہ کبھی وہ سیاست درباں کو خاطر میں لائے اور نہ کبھی کسی در پہ صدا لگانا مناسب خیال کیا۔ان سے کم صلاحیت والے ہم کار ،جو ہر در کے دونوں اطراف صدا کاری کے فن میں طاق تھے ، زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرتے چلے گئے۔ برصغیر پاک و ہند سے لے کر انگلستان تک ان کی علمی و ادبی مساعی کے معترف اور مداح موجود تھے۔کراچی ان کے ہم خیال رفقاء کا گڑھ تھا ،لیکن رہتے اسلام آباد جیسے بے مہر شہر میں تھے۔اُردو کے بڑے بڑے ادیب ان کے مہمان ہوا کرتے تھے۔ پروفیسر صاحب دوہری ہجرت کے عمل اور کرب سے گزرے تھے ،جبکہ میں ان کی ایک تیسری ہجرت کو بھی شمار کیا کرتا ہوں ،یعنی پہلی بہار سے مشرقی پاکستان، دوسری مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان اور تیسری کراچی سے اسلام آباد۔ میں جانتا اور سمجھتا ہوں کہ؛ ہجرت تلخیوں کی دکان نہیں ، بلکہ کان ہوا کرتی ہے ،اور سچ تو یہ ہے کہ ایک ہجرت کرنے والا ساری زندگی کسی نہ کسی طور کان کنی میں مصروف رہتا ہے۔ پروفیسر نظیر صدیقی ڈھاکہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے،ڈاکٹر عندلیب شادانی کے شاگرد اور رفیق ۔ڈھاکہ قیام کے دوران ہی اُردو اور انگریزی ادب پر ان کی تحریریں برصغیر پاک و ہند میں مقبولیت حاصل کر چکی تھیں۔ انہوں نے ڈھاکہ میں گھر بھی بنایا تھا۔لیکن مشرقی پاکستان کے حالات رفتہ رفتہ جو رخ اختیار کرتے جا رہے تھے،ان کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی اہلیہ اور دو بچیوں کے ساتھ دسمبر 1969 کو ہی مغربی پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کر لیا ، گویا بہار سے ڈھاکہ اور پھر ڈھاکہ سے کراچی کی طرف ہجرت ، ہجرت کا یہ سفر اسلام آباد آ کر تمام ہوا۔یہاں انہوں نے زندگی نئے سرے سے شروع کی، گھر بھی بنایا، بچوں کو اعلی تعلیم بھی دلوائی ۔ بھلے زمانوں کے پروفیسروں میں سادگی ، خلوص اور ایک درجے کی معصومیت ہوا کرتی تھی۔پروفیسر نظیر صدیقی کا وقار اپنے اختیارات پر نہیں ،علم پر مدار کرتا تھا۔ وہ دنیاداری اور طراری سے کوسوں دور تھے ۔ اُردو نہایت ششتہ بولتے تھے ، لکھتے کمال کا تھے ، لیکن اپنے علمی کام اور شعبہ جاتی فتوحات کی مارکیٹنگ نہیں کرتے تھے، جبکہ ان کے بیشتر رفقاء گفتار کے غازی تھے۔ یعنی وہ جو میر تقی میر نے کہہ رکھا ہے کہ؛
کیا میرے روزگار کے اہل سخن کی بات
ہر ناقص اپنے زعم میں صاحب کمال تھا
تو پروفیسر نظیر صدیقی کے اطراف بھی ایسے ہی صاحبان کمال چلتے پھرتے ،بلکہ چلتے پرزے تھے۔اسی ماحول کی وجہ سے وہ منصبی ترقی اس رفتار سے نہیں کر سکے، جو ان کا استحقاق تھا۔ وہ اپنے آپ میں خوش اور مطمئن رہنے والے شخص تھے۔ ذاتی اور نجی زندگی کو بڑے سلیقے اور ضبط و تحمل کے ساتھ گزارتے تھے۔فیض کا یہ شعر ان کے مزاج کی درست ترجمانی کرتا ہے کہ؛
بہت ملا نہ ملا ،زندگی سے غم کیا ہے
متاع درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے
ان کی دوستی شعر و سخن سے تھی ،ان کا مستحکم رشتہ قلم سے رہا ،وہ اپنی ادیبانہ انا اور عالمانہ استغناء کو ہمیشہ مقدم رکھتے تھے۔ یوں سمجھیئے کہ وہ جو میر تقی میر نے کہا تھا ، بس وہی صورت تھی کہ؛
نظیر اس کی نظر آئی نہ سیاحان عالم کو
سیاحت دور تک کی ایک ہے وہ بے نظیری میں!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button