دے دعا کو مری وہ مرتبۂ حسنِ قبول!

صدر مملکت آصف علی زرداری خرابی طبع کے باعث کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ان کی صحت یابی کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے ،اور وہ جو مرزا غالب نے کہہ رکھا ہے کہ؛
دے دعا کو مری وہ مرتبۂ حسنِ قبول
کہ اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں
اللہ تعالیٰ انہیں جلد صحت عطا فرمائے ، کہ پاکستان میں متحمل ، معتبر اور متوازن طرز سیاست کی واحد مثال یہی سیاستدان ہے۔اپنے درد ، اپنے غم اور اپنے نقصان کی سطح سے اوپر اٹھ کر مدعی اور منصف ہونے کے دعویدار ستم گروں کو معاف کرنے کا حوصلہ رکھنے والے جواں مرد کے لیے صحت و سلامتی کی دعاؤں کے ساتھ سال 2022ءکے اپریل اور جون میں شائع ہونے دو کالمز کے دو اقتباس ذہن میں آ رہے ہیں؛ …پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آصف علی زرداری واحد شخصیت ہیں جنہیں ان کے مختلف ادوار کے مختلف مخالفین نے ہوش ربا الزامات کا نشانہ بنائے رکھا ۔ہمارے یہاں مجرم ہونا تو کوئی معیوب بات نہیں ،لیکن بے بنیاد الزامات کا عنوان ہونا ناقابل معافی جرم خیال کیا جاتا ہے۔ میں جب بھی تنہا بیٹھ کر آصف علی زرداری کی سیاسی زندگی کے” جرائم” شمار کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ کبھی بھی پایہ ثبوت کو نہ پہنچ سکنے والے ان ہوش ربا الزامات کی بارش نے آصف علی زرداری کے چہرے کی متحمل مسکراہٹ کو کبھی بھی مدھم نہیں پڑنے دیا۔ اور نہ ہی کسی اتہام کا کوئی چھینٹا ان تک پہنچ پایا ہے ۔ یہ سب کیسے اور کس طرح ممکن ہے کہ پاکستان کا سب سے زیادہ معتوب کیا جانے والا سیاستدان کسی عتاب اور کسی عذاب کو خاطر میں لائے بغیر ہمیشہ مستقبل کےممکنات کو شمار کرنے اور نتائج کی صورت گری پر متوجہ رہتا ہے۔اگرچہ زندان آصف علی زرداری کی سیاسی زندگی کا بڑا حوالہ ہے ، لیکن میں نے زنداں نامہ کی بجائے دست صبا سے رجوع کیا ، فیض احمد فیض کی آواز اور ابیات نے مجھے سمجھانا شروع کیا۔دو عشق عنوان کی اس نظم نے لگتا ہے کہ اس ستون وفا کے قلب و ذہن کی واردات کی تفہیم کو میرے لیے سہل تر کر دیا ہے۔
واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریت جاں، راحت تن، صحت داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پس زنداں، کبھی رسوا سر بازار
گرجے ہیں بہت شیخ سرِ گوشہء منبر
کڑکے ہیں بہت اہل حکم برسرِ دربار
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت
اس عشق ، نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
الزام ،دشنام اور انتقام پر مبنی پاکستانی سیاست کو پر امن بقائے باہمی اور یکساں دوطرفہ احترام کے اصول پر استوار کرنے کے لیے سب سے پہلے آصف علی زرداری نے اپنے دشمنوں کو معاف کرنے سے آغاز کیا ۔میدان سیاست میں اپنے بدترین مخالف کو معاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس کے ساتھ مساوی شرائط پر جینا سیکھ لیا ہے۔.۔۔ ( کالم:آصف علی زرداری کا اسلوب سیاست اپریل 2022ء )
….اس ہمہ وقت متبسم سیاستدان پر ریاست و سیاست نے ہر وہ ستم کر دیکھا جو ایک شخص کے اعصاب کو توڑنے کے لیے ممکن تھا۔اسے قید و بند میں رکھا گیا، الزامات کی برسات تو شروع دن سے جاری ہے ۔اس بے بنیاد بارش نے الزامات و اتہامات کا کیچڑ ہر طرف پھیلا دیا۔لیکن اس آہنی اعصاب کے مالک جواں مرد کی مسکراہٹ میں کمی نہ آ ئی۔شائد آصف علی زرداری کا یہی اطمینان اور یہی مسکراہٹ اس کے خلاف مکر و فریب کے جالے بننے والے ناکام آرزو لوگوں کو خوفزدہ کر دیتی ہے۔ پاکستان میں شخصی کردار کشی کی سب سے بڑی مہم اسی جواں ہمت کے خلاف چلائی گئی۔بڑی محنت اور توجہ سے آصف علی زرداری کی کردار کشی کو ایک علحدہ اور منفرد و مستقل سائنس بنا دیا گیا ہے۔۔۔۔پہلے کوشش کی گئی کہ زرداری فیملی یہ شادی نہ کرے،پر حاکم علی زرداری سے بات منوانا کون سا آسان کام تھا۔اپنے سیاسی رجحانات کو عزیز رکھتے ہوئے سیاست کرنے کے لیے دلیری شرط اول ہے اور اس دولت سے حاکم علی زرداری مالا مال تھے ۔انہوں نے ایسے تمام پیغامات ان سنے کر دئیے۔ پھر آصف علی زرداری کو پیغامات پہنچائے گئے کہ وہ بی بی کا مخبر بن جائے ، اور جس طرح کہا جائے اسی طرح سے کرے۔آصف علی زرداری اور ان کے والد اپنی وضع کے خاص لوگ تھے ۔مجھے بیگم صاحبہ ( بیگم نصرت بھٹو) کے ایک قریبی ساتھی اور محترمہ بی بی شہید کے وفاقی وزیر نے آصف علی زرداری کے انتخاب کے حوالے سے ایک واقعہ سنایا تھا ۔جس میں بیگم صاحبہ نے چند انتہائی بااعتماد ساتھیوں کی ایک میٹنگ بلاکر آصف علی زرداری سے بی بی کی شادی کا مشورہ کیا تھا۔اس میٹنگ میں سب نے اپنی اپنی رائے دی۔میرے راوی نے بتایا تھا کہ انہوں نے بیگم صاحبہ کو کہا تھا کہ آصف کبھی بھی بی بی کو دھوکہ نہیں دے گا ۔بی بی کا شوہر بہت اہم اداروں کی ہٹ لسٹ پر رہے گا ۔شوہر کے ذریعے کسی خاتون کو تنگ کرنا یا اس کی جاسوسی کرنا یا اس کی ذہن سازی کرنا ایک سہل کام ہو سکتا ہے ۔لیکن آصف علی زرداری میں دباؤ برداشت کرنے اور دھونس دھمکی کو خاطر میں نہ لانے کی بے پناہ صلاحیت ہے ۔ میں آصف علی زرداری کی استقامت کو دیکھتا ہوں، جب وہ کسی ڈھب اور دھمکاوے میں نہیں آیا تو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا ۔گیارہ سال کاغذ پر لکھنے بہت آسان ہیں، جیل میں ایک ایک دن اور ایک ایک ساعت گزارنا بہت مشکل اور اذیت ناک امر ہے ۔ویسے بھی ایک پاکستانی کی اوسط عمر میں سے گیارہ سال منہا کردیں تو کیا باقی کیا بچتا ہے؟۔جیل میں بھی آصف علی زرداری کے ساتھ کھیل تماشا جاری رکھا گیا تھا، کبھی مار ، کبھی پیار ۔لیکن اس مرد درویش کی مسکراہٹ نے ہر اذیت اور دھمکی دینے والے ہر بد رخ کو مٹا کر رکھ دیا۔۔۔۔پاکستانی تاریخ میں جتنی کردار کشی آصف علی زرداری کی کی گئی اتنی کسی اور کی نہیں ۔لیکن یہ ستون وفا اپنی جگہ پر موجود و مستحکم کھڑا ہے ۔مجھے انیس سو نناوے میں آصف علی زرداری سے ایک محض اتفاقیہ ملاقات یاد ہے۔میں اپنے یونیورسٹی کولیگز کے ہجوم کے ساتھ لاہور ہائیکورٹ،راولپنڈی بنچ کی راہ داریوں میں پھر رہا تھا میں ان دنوں اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کا صدر تھا، اساتذہ اور افسران نے مل کر یونیورسٹی میں بدعنوانیوں کے خلاف ہڑتال کر رکھی تھی ۔وائس چانسلر نے نمایاں لوگوں کا یونیورسٹی میں داخلہ بند کر دیا تھا۔جسے ہم نے فوری طور پر ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا،اور پہلی پیشی پر عدالت نے یونیورسٹی داخلے پر پابندی کا آفس آرڈر معطل کر دیا تھا۔تو مجھے یاد ہے ہم نے فی کس دس دس ہزار روپے جمع کرکے ایک تگڑا وکیل کیا تھا،جو بعد میں اسی ہائیکورٹ کا جج بھی رہا۔۔ہمارا کیس لگا ہوا تھا انہی دنوں آصف علی زرداری کے کیسز بھی زیر سماعت تھے ۔ہائیکورٹ سخت پہرے میں رہتا ۔آمد ورفت پر کڑی نگاہ ہوتی پولیس کی۔تو خیر میں اپنی عدالت میں جا رہا تھا سامنے سے ایک بے فکر اور متبسم جوان ، شلوار قمیض میں ملبوس ، گلے کا اوپر والا بٹن کھلا،چلا آرہا تھا۔بالکل سامنے آ کر رک گئے ، وجہ یہ رہی کہ دونوں نے چلتے ہوئے اپنی لائن تبدیل نہیں کی تھی۔میں پہچان گیا یہ تو آصف علی زرداری ہیں۔اس سے پہلے صرف اخبار یا ٹی وی پر دیکھا تھا۔۔۔بالکل سامنے آکر دونوں رک گئے۔ حضرت نے پہل کی ۔بڑے ہی بے تکلف انداز میں پوچھنے لگے ۔او یار۔۔۔اے نواز عباسی دی عدالت کتھے وے؟
ہم اس برآمدے میں نواز عباسی کی عدالت کے تقریبا سامنے ہی کھڑے تھے ۔میں نے تحیئر آمیز جوش پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا ۔۔او جناب ایہہ ویکھو۔۔سامنے ای اے۔۔
او۔۔اچھا اچھا۔۔۔انہوں نے مسکرا کر کہا ۔ان دنوں مونچھیں غالب تھیں ، وہ عدالت کی طرف مڑے تو میں نے بے تکلفی کی جرات کی ۔۔جناب تسی ٹھیک او۔
چلتے چلتے انہوں نے کہا جیا جیا۔۔۔۔
(کالم :ستون وفا:آصف علی زرداری جون 2022ء)