ہفتہ وار کالمز

پولیس گردی کیوں؟ اور رہنماخواتین کو مشورے!

پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور امریکہ میں کیا۔دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ البتہ آگ آگ کا فرق ہے۔ پاکستان کی آگ اپنوں نے ہی لگائی ہے، ویسے تو امریکہ میں آگ بھی اپنوں ہی نے لگائی ہے۔ در حقیقت پاکستان میںاس آگ کا محرک امریکہ ہی ہے۔ کیونکہ انہیں عمران خان نہیں پسند، اس لیے کہ اگر وہ وزیر اعظم دوبارہ سے بن گیا تو وہ نہ صرف رشوت خوروں کو نہیں چھوڑے گا، اس کے علاوہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا محبوب قائد بھی بن سکتا ہے۔اور غیروں کو یہ بات بالکل نہیں پسند۔ جب کہ اس کے ہاتھ میں پاکستان کے ایٹمی اثاثے بھی ہوں گے اور وہ جہاں چاہے انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت بھی رکھے گا۔اس لیے حکم یہ ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو خان کو وزارت عظمیٰ نہیں ملنی چاہیئے۔ اس کے لیے اس کی پارٹی کو کیسے بھی ہو تتر بتر کرنا ہو گا۔اس کے قریبی اور مخلص رفیقوں کو قید میں رکھنا، خواہ مرد ہوں یا عورتیں، کو جیل میں ، بے قصور بھی ہو تب بھی رکھنا ہو گا۔ وہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر خان سے سودے بازی کی گئی تو ایک شرط یہ ہو گی کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو رہائی دی جائے۔یہ بہت بڑا لالچ ہو گا۔ اب جب تک خان ان کی شرائط نہیں مانے گا، ان بے قصور قیدیوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔پاکستان کی حکومت جو الیکشنز میں دھاندلی کر کے بنی وہ بھی بے غیرتی کے ساتھ جابرانہ حرکتوں میں پوری طرح شامل ہے۔ مجھے تو حیرت اپنے پولیس کے جوانوں کی حرکتوں پر ہے جن میں نہ مروت نظر آتی ہے، نہ اپنے رتبہ کا خیال، اور نہ ہی اس قسم کا جو وہ ڈیوٹی لینے سے پہلے اٹھاتے ہیں ۔ بجائے مائوں بہنوں کی حفاظت کرنے کے ، بزرگوں اور ناداروں کا خیال کرنے کے، وہ ان کی عزت بر سر عام نیلام کرتے نظر آتے ہیں جیسے کے پرانے وقتوں کے فرعونی لشکر بھی نہیں کرتے تھے۔ کیا یہ سب ان کے فرعون خصلت نگہبان اور افسران اعلیٰ کہتے ہیں اور ان کو شہہ دلاتے ہیں، یا یہ خود ہی عوام پر تشدد کرنے کے مشتاق ہوتے ہیں؟اس مسئلہ پر میرے ذہن میں بہت سے سوال ہیں جن کا میں اس کالم میں آپ کے ساتھ ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
پاکستان میں بلا امتیاز رنگ و نسل، صوبہ یا زبان، جو لوگ پولیس میں بھرتی ہوتے ہیں وہ دو طبقوں سے ہوتے ہیں۔ پہلا طبقہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نو جوانوں کا ہوتا ہے جو اکثر خوشحال یا کھاتے پیتے گھرانوں سے آتے ہیں، اور پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں اچھے نمبر لیکر پاس ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی جذبہ کے تحت پولیس کی نوکری کو ترجیح دیتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ پولیس کی نوکری میں رعب ودبدبہ ہوتا ہے، یا اس لیے کہ اوپر کی آمدنی بے شمار ہوتی ہے، یا اس لیے کہ وردی والی کوئی بھی نوکری شان و شوکت کی ہوتی ہے اور اچھے گھرانوں میںشادی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔دوسری قسم اُن کم پڑھے نو جوانوں کی ہوتی ہے جو زیادہ تر دیہات اور قصبوں سے پولیس میں بھرتی ہوتے ہیں۔ ان کے محرکات بھی غالباً وہی ہیں جو پہلی قسم کے جوانوں کے ہوتے ہیں۔ وردی پہننے کے بعد ان کی شان ہی دوسری ہوتی ہے۔ ان کے گائوں کے بڑے بھی ان کو عزت سے ملتے ہیں۔کہ کل کلاں ان کو ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔آج کل جو عوام پر تشدد ہو رہا ہے، مائوں بہنوں کے دوپٹوں پر ہاتھ ڈال جا رہا ہے اور انہیں بالوں سے پکڑ کے سڑکوں پر گھسیٹنا ایک عام سے کھیل بن گیا ہے، وہ یہی کم پڑھے سپاہی کے رتبے کے سرکاری ملازم ہیں۔یہ نہیں سوچا جا سکتا کہ وہ ایسی بد تمیزیاں بغیر افسران بالا کی مرضی کے کر سکیں، اس کے لیے اجازت بہت اوپر سے آتی ہے، یعنی وزیر اعظم کی کرسی سے۔او ر وزیر اعظم کو کہاں سے ہدایات ملتی ہیں، یہ ہمیں نہیں معلوم۔ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم خود اپنی طرف سے ہی یہ زبانی کلامی احکامات جاری کرتے ہوں؟لیکن پولیس کا محکمہ کسی قوائد و ضوابط کے تحت چلتا ہے یا چلنا چاہیے۔لیکن وہ سب کتابوں میں دھرے رہ جاتے ہیں، کیونکہ پولیس والوں کی کبھی ایسی حرکات پر سرزنش ہوتے نہیں سنی گئی۔یہ ایسے ہی کہ ملزموں کوتشددکر کے جرم اگلوایا جائے اور کوئی اس تشدد کے لیے صوابدید نہ ہو۔
یہاں سوال بنتا ہے کہ وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہمارا پولیس کا نظام بجائے عوام کی حفاظت کرنے کے، عوام کی شامت بن گیا ہے؟اس میں ہمارے پیارے سیاستدانوں کا قصور تو لازماً بنتا ہے۔ کیونکہ سیاستدان آنکھیں موندے ایسے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے کہ ملک میں امن ہی امن ہے۔ رہ گئے پولیس کے اپنے کرتا دھرتا، وہ تو ویسے ہی سیاستدانوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ان کی ترقیاں اور تبادلے انہیں کی مرضی سے ہوتے ہیں اس لیے وہ چوُں بھی نہیں کر سکتے۔ ادارے میں احتساب نام کی کوئی چیز نہیں جس میں انہیں ڈر ہو کہ قوائد سے ہٹ کر کام کرنے کا حساب دینا پڑے گا۔پولیس کے جوان جس ماحول سے آتے ہیں، وہ کوئی ایسا ضابطہ کا پابند نہیں۔ سب سے پہلے جس گھر میں ان کی پرورش ہوتی ہے، باپ سارا تربیت کا بوجھ ماں پر ڈال دیتا ہے۔اور ماں بے چاری خود جس ماحول میں بڑی ہوئی ہوتی ہے، اس میں اخلاقیات پراتنا زور نہیں دیا جاتا۔،مائیں اپنے بچوں کو عام سی اخلاقی تربیت بھی نہیں دے پاتیں شاید اس لیے بھی کہ ان کی اپنی ماں نے انہیںکوئی خاص اخلاقی اقدار نہیں سکھائی تھیں۔اکثر مائیں ان پڑھ ہوتی تھیں اور ابھی بھی گائوں اورقصبوں میں عورتوں میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔ ویسے بھی ہمارے تعلیمی نصاب میں ضروری نہیں کہ اخلاق اور شہریت پر کچھ بتایا جائے۔
جہاں تک تشدد کا تعلق ہے، وہ بچے پہلے اپنے گھر میں دیکھتے ہیں جب ان کے باپ انکی ماں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں اور پھر بچوں پر۔ کچھ باپ تو زیادہ ہی ظالم ہوتے ہیں، وہ ماں کے ساتھ بچوں کی بھی دھلائی کرتے ہیں۔البتہ ایسے باپوں کی اکثریت نہیں معلوم ہوتی۔ میرے اپنے گھر میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ گھر سے باہر جب بچے سکول یا مدرسے میں جاتے ہیں تو وہاں کا دستور تھا کہ بچوں کو جسمانی سزا دی جائے۔ سنا گیا ہے کہ کچھ باپ مدرسے جا کر کہتے تھے، بچے کی کھال تمہاری اور ہڈیاں میری۔ یعنی اس کو جتنا مرضی مارو کہ بس اس کی ہڈی پسلی نہ ٹوٹے۔کچھ سال پہلے تک تو یہ سرکاری سکولوں میں بھی ایسا ہی تھا لیکن پھر ماہرین نفسیات کے اصرار پر سرکاری سکولوں میں جسمانی سزا پر پابندی لگائی گئی۔اس پابندی کا مطلب یہ تھا کہ بچوں کو جب نہیں ماریں گے تو انہیں تعلیم سے محبت ہو گی۔ ورنہ وہ مدرسے اور استاد کے ساتھ ساتھ تعلیم سے بھی نفرت کرنے لگیں گے۔ لیکن سنا گیا ہے کہ کچھ استاد اپنی افتاد طبع سے مجبور ابھی بھی جسمانی سزا دینے سے نہیں چونکتے۔
اب جو بچہ ایسے تشدد آمیز ماحول میں بڑا ہو گا، وہ جب تشدد کرے گا تو سمجھے گا کہ وہ آپ پر احسان کر رہا ہے۔ معاشرے کو سدھار رہا ہے۔ لیکن عورتوں پر تشدد کیوں؟ جی وہ ایسے کہ اگر اس بچے نے بچپن میں اپنے باپ کو اپنی ماں یا بہن پر تشدد کرتے دیکھا ہوا ہے تو اب بڑے ہو کر وہ آرام سے لوگوں کی مائوں بہنوں پر تشدد کرنا کوئی بڑی بُری بات نہیں سمجھتا ہو گا؟خصوصاً اگر اسے افسر بالا نے اسکے تشدد کا نوٹس نہیں لیا یا بلکہ اسکو شاباش دی۔ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے تشدد کے واقعات ہوتے ہیں لیکن کم ،جتنے کہ ہو سکتے ہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ پولیس کارکن کو یہ ڈر ہو کہ کوئی اس کی وڈیو بنا لے گا تو اس پر مقدمہ بن سکتا ہے یا میڈیا میں بات آنے سے اس کی نوکری بھی جا سکتی ہے۔
حکومت اس تشدد کو غیر قانونی ہوتے ہوئے کیوں نہیں روکتی؟ اس لیے کہ معاشرے نے حکومت کو باور کروا دیا ہے کہ عوام کی طاقت پی ٹی آئی میں ہے، اور پی ٹی آئی خان کی بات مانتی ہے، اس لیے پی ٹی آئی کے ارکان پر جتنا ظلم کریں گے اتنا ہی حکومت کو فائدہ ہو گا۔اگر کبھی عام انتخابات ہوئے تو لوگ ڈر کے مارے تحریک انصاف کے امیدواروں کو نہیں جیتوائیں گے۔
اگر پولیس والے تشدد کر رہے ہیں، تو وہ اتنا جانتے ہیں کہ یہ غلط ہے لیکن کیا کریں مجبوری ہے۔ اگر افسر کی بات نہیں مانیں گے تو وہ ان کی نوکری بھی ختم کر سکتا ہے یا کسی بُری پوسٹ پر تعیناتی بھی۔اور بھی کئی نقصانات ہو سکتے ہیں۔عوام کا کیا ہے وہ تو ہیں ہی نہتے۔ اور تو اور۔ بے گناہ شریف زادوں کے گھروں پر چھاپے مارنا، ان کی جائداد کو تباہ کرنا اور ان کے بچوں اور عوتوں کو بے عزت کرنا نہ اسلامی ہے اور نہ ہمارے قانون کا حصہ۔ عورتوں سے غیر مناسب سلوک میں پولیس کوکچھ جنسی مزہ بھی ملتا ہو گا۔ ان کو چھونے کے مواقع اور مزہ بڑھا دیتے ہیں۔ یہ تو بڑی سرکار نے انہیں تحفہ دیا ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ خواتین کے رضاکار ادارے اور مذہبی ادارے بھی اس معاملے میںخاموش رہتے ہیں۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ان خواتین نے اپنا سارا زور مغرب سے آنے والی مہمات پر لگا دیا ہے بجائے اس کے اپنی طرح کی خواتین کے مسائل کی طرف توجہ دیں۔ہمارا جسم ہماری مرضی ایک ایسے معاشر ے میں سجتا ہے جہاں انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہو۔ ہمارے ملک میں اس کا کوئی مقام نہیں۔ایسے نعروں کا یا مذاق اڑایا جائے گا یا انہیں بے ہودہ سمجھا جائے گا۔ ہماری عورتوں کے بے شمار مسائل ہیں جن پر توجہ کی ضرورت ہے۔ جیسے کے عورتوں میںتعلیم کی شدید کمی، ان کی تولیدی ضروریات میں ناکافی سہولتیں ، نو زائدہ اور شیر خوار بچوں میں مناسب غذا کا نہ ہونا، عورتوں کا معاشرہ میں کام کرنے سے متعلق بندشیں اور رکاوٹیں جن میں سے زیادہ تر ہماری خود کی پیدا کردہ ہیں۔ لیکن ہماری خیر خواہ، تعلیم یافتہ اور اونچے گھرانے کی بیگمات کا نہ ان مسائل سے واسطہ ہے اور نہ ہی کوئی دلچسپی۔ ان کے سالانہ جلوسوں سے تو یہ ہی پتہ چلتا ہے۔کچھ خواتین ایسی ضرور ہوں گی جو ان معاملات سے با خبر ہیں لیکن ان کی بات سنی ان سنی ہوتی نظر آتی ہے۔اس وقت ضرورت ہے کہ خواتین ملک بھر میں اجتماع کریں اور وطن کی عورتوں کے مسائل پر سیر حاصل مکالمے کریں، اور ایک قومی لائحہ عمل مرتب کریں جس پر حکومت اور فلاحی ادارے سب یک جہتی کے ساتھ منظم تحریک چلائیں۔تو ممکن ہے کہ ایک دن پاکستان کی عورتیں معاشرے کا ایک اقتصادی، اور فعال رکن بن سکیں۔
جس طرح پاکستان کی عورتوں پر پولیس گردی کی جاتی ہے، چاہیے تو یہ کہ نہ صرف موجود عورتیں اپنی جوتیاں اتار کر ایسے پولیس والوں کو رسید کریں بلکہ موقع پر موجود مرد حضرات بھی پولیس کے ہاتھ پکڑیں۔راقم تشدد کا جواب تشدد سے دینے کا قائل نہیں، لیکن کوئی حد بھی ہوتی ہے۔بہتر حل یہی ہے کہ ہر ایسے واقع کی وڈیو بنائی جائے اور اس کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا جائے۔
ہماری بد قسمتی ہے کہ ملک سے بتدریج انتظامیہ کی بد انتظامی بڑھ رہی ہے، وہاں انصاف حاصل کرنے کا آخری دروازہ، یعنی عدالتیں بھی ا نصاف کے ترازو میں ڈنڈی مارتی نظر آتی ہیں ۔ ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی عدالتی انصاف حاصل کر نا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ جس کے پاس موٹی رقمیں نہیں وہ عدالت کا دروازہ کیسے کھٹ کھٹائے گا؟
ہماری درخواست ہے کہ تمام خواتین کے ادارے مہمات چلائیں کہ ہماری عورتیں اپنے بچوں کو اخلاقی تعلیم دیا کریں جو انہیں نہ سکول سے ملتی ہے اور نہ معاشرہ سے۔ مائیں بچے میں بری عادات کی شروعات سے جلدی واقف ہو جاتی ہیں۔ جیسے کوئی بچہ گالی گلوچ سے بات کرے تو اس کو اچھا اخلاقی سبق سکھائیں۔ اس سےکہے کہ اگر اس نے پھرکبھی گالی دی، یا جھوٹ بولا تو اس کی زبان پر جلتا کوئلہ رکھ دے گی۔اس کو عورتوں، خصوصاً بہنوں کی عزت کرنا سکھائے۔ وہ ان کا احترام کرے خواہ وہ گھر کی ہوں یا باہر کی۔یہی اسلامی طریقہ ہے اور ایک مہذب سوسائٹی کا۔سوشل میڈیا کو بھی ایسی اخلاقی تعلیم کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔اگر نیت ہو تو راستے ہزار ہیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button