ہفتہ وار کالمز

نیا قانون اقوام متحدہ کی ہدایات کے منافی ہے

حکومت پاکستان کو ان صحافیوں سے بڑی کوفت ہوتی ہے جو سوشل میڈیا پر سارا سچ اگل دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے ساری دنیا کی آمرانہ حکومتیں پریشان ہیں۔ پہلے زمانے میں تو میڈیا یا پرنٹ میں تھا یا الیکٹرونک اور دونوں صورتوں میں حکومتوں کے کنٹرول میں ہوتا تھا۔سوشل میڈیا نے حکومتوں کی یہ اجارہ داری ختم کر دی۔ سوشل میڈیا کی رسائی ہر عام و خاص کو ہو گئی۔ جس سے صحیح آزادیٔ رائے کے اظہار کے مواقع ہر خاص و عام کو مل گئے۔دوسرے لفظوں میں ہر انسان کو اس کا بنیادی حق استعمال کرنے کا آسان اور موثر طریقہ مل گیا جس کو وہ اپنی مرضی سے جب چاہے استعمال کر سکتا تھا۔ اس ذریعہ کو استعمال کرنے میں ایک بہت بڑا کردارٹیلیفون کی ٹیکنالوجی کا ہے جو نہ صرف آپ کو وڈیو بنانے کی سہولت دیتا ہے بلکہ اس کو فوراً ترسیل کرنے کی بھی۔ یعنی کوئی بھی مرد یا عورت یا بچہ صحافی کا کردار ادا کر سکتا ہے۔یہ اس صدی کا سب سے بڑا تحفہ ہے جو کہ عصر حاضر نے عوام کو دیا۔جب حکومتیں میڈیا کو کنٹرول کرتی تھیں تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی تھی کہ حاکموں نے کیا گل کھلائے ہیں۔ میڈیا کو حکومتی ادارے خبر دار کر دیتے تھے کہ فلاں خبر کو دبانا ہے اور فلاں کو اچھالنا ہے۔مثلاً ہماری پولیس ہمیشہ سے عوام پر ظلم و تشدد کرتی آ رہی ہے۔ لیکن اب اگر بر سر عام ایسا کرے تو یار لوگ اس کی وڈیو بنا لیتے ہیں۔ اور سارے جگ میں پولیس پر تھو تھو کی جاتی ہے۔ لیکن پولیس کی بھی شاباش۔ انکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔انہیں تو ٹرین ہی ایسے کیا گیا ہے کہ حکم کیسا بھی ہو صحیح یا غلط، بے سوچے سمجھے اسے بجا لانا ہے۔
ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اکیسویں صدی میں ہوش سنبھالا۔ اورسائنس اور ٹیکنالوجی کی ایک سے بڑھ کر ایک ایجاد دیکھنے کو ملی۔ جب پیدا ہوئے تو بجلی کی روشنی، بجلی کے پنکھے، ریڈیو، دیکھے اور عش عش کیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہوائی سفر، اور ٹیلیویژن دیکھنے کو ملا۔ اور اس کے بعد کمپیوٹر اور موبائیل فون اور اس میں ایک دوسرے کی تصویر دیکھنے کاموقعہ ملا بلکہ ایک دوسر کے ساتھ وڈیو میں بات چیت بھی کر سکتے تھے۔ یہ ایک بہت پرانا خواب تھا جسے غالباً ایپل کمپیوٹر کے خالق سٹیو جاب نے پورا کیا۔ان میںسب سے بڑا انقلاب یہ تھا کہ آپ دنیا میں کہیں سے بھی بالکل مفت کسی سے بھی بات کر سکتے ہیں اگر اس کے پاس سمارٹ فون اور ضروری سوفٹ ویر ہو۔پہلے وقتوں میں مجھے یاد ہے کہ اگر پاکستان یا انڈیا سے لندن یا نیو یارک بات کرنی ہوتی تھی تو تار گھر جا کر کال بُک کروانی پڑتی تھی جو عموماً تین منٹ کی ہوتی تھی۔ پھر وہاں بیٹھ کر انتظار کرتے تھے۔پھر اعلان ہوتا تھا کہ جاوید صاحب دو نمبر بوتھ پر اپنی کال لے لیں۔ اور ٹھیک تین منٹ کے بعد رابطہ منقطع ہو جاتا تھا۔ اور خاصی بڑی رقم بھی دینی پڑتی تھی۔ پھر ٹیلیفونک انقلاب آیا۔ مفت میں گھنٹوں باتیں کمپیوٹر کے ذریعے ہونے لگیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم اس دور میں زندہ ہیں جس میں دن دگنی اور رات سائینسی اور ٹیکنالوجی میں تگنی ترقی ہو رہی ہے۔البتہ حکمرانوں کے طور طریقے اس نئی دنیا کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار نہیں۔وہ وہی پرانے جبر و تشدد کی روش پر چلنا چاہتے ہیں۔اس لیے ان کو سوشل میڈیا کی پہنچ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے پاس اچھی نہیں لگتی۔ کیونکہ جس کے من میں جو آتا ہے وہ بک دیتا ہے۔سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل ہو سکتی ہے۔ جس کا مطلب ہے اگر وہ کسی کو پسند آئے تو وہ اسے آگے دوستوں میں چلا دیتا ہے۔ پھر چل سو چل۔ دنوں میں لاکھوں لوگ اس کو دیکھ سکتے ہیں۔اب حکمران جو پرانے میڈیا کے عادی تھے، جو جانتے تھے کہ کل لاکھ دو لاکھ لوگ اخبار پڑھیں گے اور ان میں سے آدھے تو صرف تصویریں اور اشتہار دیکھیں گے۔ باقی بھی پوری خبر نہیں پڑھیں گے۔ سب سے بڑی بات کہ اخبار والے حکومتی پالیسی کے مطابق خبریں اور تجزیئے شائع کرتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ریڈیو اور ٹی وی کا سلسلہ ہے۔ لیکن سوشل میڈیا نے تو کایا ہی پلٹ دی ہے۔اس لیے اب حکومتوں کو پریشانی ہو گئی ہے کہ کیسے سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے مواد کو کنٹرول کیا جائے۔
کئی اور ملکوں کی طرح، جہاں آمرانہ حکومتیں ہیں، ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جن کے تحت سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے مواد پر پکڑ ہو سکتی ہے۔اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ سوشل میڈیاپر بغاوت شروع کروا دی جائے۔اس لیے پاکستان نے بھی قانون بنایا جس کے تحت، سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد شائع کرنے پر ناشر کو پکڑنے اور سزا دینے کی حدود مقرر کی گئیں۔اس قانون کا نام پیکا تھا یعنی (Prevention of Electronic Crimes Act 2016) ۔ اب اس قانون میں اور بھی ترمیم کر دی گئی ہے، جس کے تحت معمولی خطائوں پر سنگین سزائیں سنائی جائیں گی۔یہ قانون ان لوگوں پر لاگو کیا جائے گا جو سوشل میڈیا پر جعلی(غیر مصدقہ) خبریں پھیلائیں گے۔یا ایسی جھوٹی خبروں کو ہوا دیں گے جن سے خوف، ڈر، اور معاشرہ میں بے چینی پھیلنے کا سبب ہو۔ مجرم کو تین سال تک کی سزا اور ۲۰لاکھ روپے کا جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔حسب قائدہ ، یہ بل سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد صاحب صدر نے منظور کر دیا ہے۔ صحافیوں نے بھر پور احتجاج کیا ہے ان کا کہنا ہے یہ قانون در اصل آزادیٔ رائے کے آئینی حق پر حملہ ہے۔ پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ یہ پی پی پی کا دوغلہ پن ہے اور ان کی کارستانی ہے جسکی وہ بھر پور مذمت کرتے ہیں۔تھوڑے دنوں سے پورے ملک میں صحافیوں کے احتجاج ہو رہے ہیں۔صدر زرداری نے باوجود احتجاجوں کے قانون کو منظور کر دیا۔ پی ٹی آئی کے قائد شبلی سرفراز کا کہنا ہے کہ یہ قانون پی ٹی آئی کو نقصان پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
ایک مبصر کا کہنا ہے کہ اس قسم کے حد بندی کے کالے قوانین بظاہر پبلک کے فائدے کے لیے بنائے جاتے ہیں لیکن وہ فسطائیت کو فروغ دیتے ہیں۔اصل مقصد ہوتا ہے کہ اپنی طاقت کو اور مضبوط کیا جائے اور بیانیئے پر اپنا قبضہ رکھا جائے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تنبیہ کی ہے کہ اس قانون سے حکومت کا ڈیجیٹل ذرائع پر قبضہ اور بھی زیادہ مضبوط ہو گا۔پہلے ہی پیکا کا کالا قانون موجود ہے۔اور بھی بین الاقوامی اداروں نے اس قانون کی مذمت کی ہے۔جن میں پاکستان کے انسانی حقوق کا ادارہ شامل ہے۔ پاکستان پہلے ہی پریس کی آزادی رائے کی دنیا کی فہرست میں ۸۰ا ملکوں میں ۱۵۲ واں ملک ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمران طبقہ سوشل میڈیا میں اپنے خلاف بتائے جانے والی خبروں سے نالاں ہے جو سچ ہوتی ہیں لیکن انہیں وہ چھپانا چاہتے ہیں۔اب اگر ایسی خبریں پی ٹی آئی کے حمائیتی تجزیہ کار سوشل میڈیا پر بتائیں تو حکومت ایسی خبروں کو جھوٹ قرار دیتی ہے جو نا قابل معافی جرم بنا دیا گیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی معتبر صحافی جھوٹی خبر نہیں چلاتا کیونکہ اس سے اس کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے اور لوگوں میں اس کا اعتبار مٹ سکتا ہے۔اکثر اچھے اور شہرت یافتہ صحافی کسی بھی انوکھی خبر کو بتانے سے پہلے اس کی تصدیق کر لیتے ہیں۔وہ صرف معتبر ذرائع سے خبریں لیتے ہیں لیکن تجزیہ اپنا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی حکومت خود فیک نیوز پھیلاتی ہے ، اپنے مذموم مقاصد کے لیے۔اگر وہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو جائے تو پھر اسے پریشانی ہوتی ہے۔۔اور سوشل میڈیا پر سارا الزام ڈال دیتی ہے۔لیکن یہ سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ سوشل میڈیا اگرچہ کوئی سنسر نہیں رکھتا اور نہ ہی اسے خبروں کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے سب چلتا ہے۔ اور دیکھنے والے بھی یہ جانتے ہیں۔اس لیے سوشل میڈیا کو اس سے زیادہ اہمیت دینا حماقت ہے۔جہاں تک گپ بازی کا تعلق ہے ، اسے سب محظوظ ہونے کے لیے دیکھتے ہیں۔ البتہ اگر تجزیہ کار اپنا اعتبار قائم کر چکا ہو اور لوگ اسے قابل بھروسہ سمجھیں تو اس کی خبراہم ہوتی ہے جسے فیک کہنا اپنا ہی اعتبار کھونے کے مترادف ہو گا۔
البتہ حکمران خود پراپیگنڈا کرنا چاہیں اور سوشل میڈیا اسکو نظر انداز کر دے، تو ان کو کوفت ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ سوشل میڈیا کے تجزیہ کاروں کو پکڑنا چاہتے ہیں اور سزا دینا چاہتے ہیں۔ یا وہ اپنے خلاف ایک بات نہیں سننا چاہتے۔اگر ان کے کسی کارنامے پر سوشل میڈیا نشان دہی کر دے تو ان کا بھن بھنانا قابل دید ہوتا ہے۔ اسی لیے سخت سے سخت قوانین بنائے جاتے ہیں، ان لوگوں کے لیے جو حکمرانوں کو آئینہ دکھائیں۔
صحافیوں کے پُر زور احتجاج کے جواب میں حکومتی وضاحتیں آنا شروع ہو گئیں۔ مثلاً وفاقی وزیر اطلاعات نے پیکا ایکٹ کی حمایت میں فرمایا کہ سوشل میڈیا میں خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔یہ ایکٹ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے منظور کیا گیا۔اس ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی بنائی جائے گی جس میں سب کو نمائندگی ملے گی۔ اس اتھارٹی سے اپیل کی جا سکے گی۔جس پر فیصلہ 24گھنٹے میں سنا دیا جائے گا۔اس آرڈر کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ابھی رولز بننے ہیں۔
حکومت کو لازماً یہ ڈر ہے کہ اگر میڈیا ان کے خلاف ہو گیا تو وہ کیسے حکومت کریں گے؟ابتک یہ بکائو میڈیا ہی تو ان کی دو کانداری کو چمکائے ہوا تھا۔اگر میڈیا کھول کھول کر سچ بتانا شروع کر دے تو یہ حرامخور حکومت کب تک چلے گی؟۔ اگر میڈیا نے ان کی پریس کانفرنس میں شرکت نہ کی تو یہ اپنی کہانی اور جھوٹا پراپیگینڈا کسے پہنچائیں گے؟اب ویسے ہی تقریباً تمام چینل الیکٹرونک میڈیا پر آتی ہیں، تو کیا حکومت اپنے چہیتوں کی فیک نیوز کو بھی پکڑے گی؟ کبھی نہیں۔یہ اندھے قانون، صرف حزب مخالف کو تنگ کرنے اور ان کے صحافیوں کو سزا دینے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔اور جھوٹ کو سچ بنا کر دکھانے کے لیے۔
اقوام متحدہ نے آزادی رائے کے معاملہ میں بڑے سخت ریزولیشن پاس کیے ہیں۔ 30 سال پہلے یو این کی جنرل اسمبلی نے3 مئی کو ورلڈ پریس فریڈم ڈے کا اعلان کیا۔ اس میں کہا گیا کہ جرنلسٹ اور میڈیا کارکن انسانی حقوق کی پاسداری اور تحفظ میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔1946میں اپنے پہلے سیشن میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ ریزولیوشن پاس کیا جو معلومات فراہم کرنے کو اولین انسانی حق قرار دیتا ہے۔ اور باقی تمام حقوق کی بنیاد سمجھتا ہے۔ اس بارے میں ہم یونیسکو کے ہراول دستے کی طرح کردار کو سراہتے ہیں۔جو 1991 میں ونڈھوک میں آزاد، مفت اور ہر طرح کے انسانوں کی نمائندگی کرنے والا پریس، اور اس کے ساتھ یونیسکو کی دنیا بھر میں آزادی صحافت کا دن منانے کی مسلسل کاوشیںقابل ذکر ہیں۔
حال ہی میں جنرل اسمبلی نے آزادی رائے اور اظہار رائے کی مکمل آزادی کو بطور انسانی حق کے تسلیم کیا ہے۔ کیونکہ یہ حقوق انسانی کی ضمانت دیتا ہے اور مانتا ہے کہ میڈیا کا آزادانہ اظہار خیال، ہر طرح کے اعتقادات اور اظہار رائے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ اس دن ہم تمام ممبر ریاستوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ آزادانہ اظہار رائے کوپوری حفاظت دے اور آگے بڑھائے۔ تمام انسانی حقوق آفاقی ہیں اور نا قابل تقسیم ہیں۔یہ وہ وقت ہے جب ہم قانوناًاور عملاًایسے حالات پیداکریں اور ان کو برقرار رکھیں، جن میں صحافی امن وامان میںآزادانہ اپنا فرض انجام دے سکیں اور ان پر کوئی نا جائز دبائو نہ ہو۔
کیا پاکستان ایسے جابرانہ اور بہیمانہ قوانین بنا کر عالمی برادری میں اپنا منہ کالا کر رہا ہے یا روشن؟یہ فیصلہ آپ کریں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button