0

اگر ایسا ہو جائے تو؟

پاکستان کی سپریم کورٹ کے مایہ ناز منصف اعلیٰ نے حسب توقع اپنی پسند کا بینچ بنا کر اپنے ہی ایک فیصلے کے مخالف فیصلہ کروا لیا چونکہ اس فیصلے سے حکومت وہ بد نام زمانہ آئینی تبدیلی منظور کروا سکے گی جس سے ان کی مزید تین، پانچ اور اس سے بھی زیادہ سالوں کے لیے مدت ملازمت بڑھ سکے گی؟تو یہ بات تو پاکستان کے بھولے بھالے عوام کو بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ کازی صاحب اپنے کرپشن سے حاصل کردہ اثاثے، اپنی مدت ملازمت بڑھوانے اور عمران خان کو زک پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اب تازہ ترین قانونی فیصلہ سے ، اس راقم کو سمجھ آئی ہے کہ جو رکن اسمبلی اپنی پارٹی کی حکمت عملی اور ہدایت کے خلاف ووٹ دے گا تو اس کا ووٹ گنا جائے گا خواہ اس کے نتیجے میں اس کی رکنیت ختم ہو جائے۔ یعنی، اگر اس کو بیس کروڑ روپے یا اس سے بھی زیادہ کی چمک دکھائی جائے تو وہ لالچ میں آکر اپنے ضمیر کا سودا کر لے گا، خواہ اس کے علاقے کے لوگ بعد میں ا س پر کتنی بھی تھو تھو کریں گے؟ اب اگر ایسا ہو جائے کہ تحریک انصاف اسی قانون کو استعمال کرے اور حزب مخالف کے ارکان کو بجائے بڑی رقموں کے دوسری قیمتی آفرز کر کے انکے ووٹ لے لے تو اسمبلی کی ہیئت بدل سکتی ہے، اور پاکستان کی قسمت بھی۔اگر ہم مان لیں کے حزب مخالف میں بہت سے با ضمیر ارکان ہیں جو پاکستان کی بھلائی ، بقا اور تحریک انصاف کے ٹکٹ کو ترجیح دیں گے ، یا اسی قسم کے دوسرے رتبوں کو، تو پانسا پلٹ سکتا ہے اور اس نئے قانون کا فائدہ تحریک کو ہو سکتا ہے اور کازی کو ایک اور ڈونٹ پڑ سکتا ہے؟ صرف یہی نہیں، تحریک کو ہر اس قانونی تبدیلی کا فائدہ اٹھانا چاہیے جو حریفوں نے اس کے خلاف بنائی ہیں۔ کیونکہ مخالفین جس قانون اور قاعدہ کو تحریک انصاف کے خلاف کو بناتے ہیں وہ ایک دن ان کے اپنے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ فوج ان کو ہمیشہ سنبھالے رکھے گی۔اور فوج کو بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے دن بھی پھر سکتے ہیں، اور امریکہ بہادرکی حمایت بدل بھی سکتی ہے، پھرکیا ہو گا؟ اگر امریکہ میں نئی حکومت کے خیالات اور حکمت عملی بدل گئے تو کیا ہو گا؟
کچھ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کب سے ڈیفالٹ ہو چکا ہے، صرف اس کا بر ملا اظہار نہیں کیا گیا۔اس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف سے مزید قرضوں کا لالچ ہے۔ ڈیفالٹ کا مطلب عام فہم زبان میں دیوالیہ ہونا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص یا ملک اپنے قرضے یا ان کی قسط، خواہ سود، خواہ اصل، حسب وعدہ ادا کرنے سے قاصر ہو جائے۔جب کوئی عام شہری ، بذریعہ عدالت ، دیوالیہ ہونے کا اعلان کرتا ہے تو اس کی جائداد ،کاروبار(کچھ بنیادی چیزوں کوچھوڑ کر) اور اثاثے بحق سرکار ضبط کرلیے جاتے ہیں۔ ان کی بولی لگا کر جو رقم وصول کی جاتی ہے وہ بہ مناسبت قرض خواہوں کو بانٹ دی جاتی ہے۔ یہ ایک عمومی سا تاثر ہے۔ لیکن کچھ کارووباری ادارے ، جب بے تحاشہ قرض اٹھا لیتے ہیں اور واپس ادا نہیں کر سکتے تو، سیدھا عدالت کا رخ کرتے ہیں اور دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ اس کے کچھ فائدے ہیں اور بہت سے نقصانات۔ مثلاً ایسے اشخاص کو مارکیٹ دھتکارنا شروع کر دیتی ہے اور دوبارہ قرض نہ دینے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔بغیر قرض کے کاروبار چلانا ایک بہت مشکل کام ہے۔ کیونکہ دیوالیہ شخص کو ہر چیز نقد دے کر خریدنا پڑتی ہے، جو کاروبار کو ٹھپ کر دیتا ہے۔ دیوالیہ شخص کے پاس ویسے ہی نقد نہیں ہوتا تو وہ عرش سے فرش تک لمحوں میں پہنچ جاتا ہے۔اگر اس میں ذرہ بھر بھی ہمت اور سرمایہ ہو تو وہ اپنے آپ کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کر لیتا ہے ورنہ زلت اور سوائی کی زندگی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔لیکن شاطر کاروباری حضرات جو دیوالیہ کو اپنے لیے ایک راہ نجات سمجھتے ہیں، بڑی منصوبہ بندی سے اختیار کرتے ہیں۔ اعلان سے پہلے چوری چھپے اپنے اثاثے اور نقد اپنے بھروسے کے لوگوں کو پہنچا دیتے ہیں۔ اور قرض خواہوں بے چاروں کو روپے کے بدلے چند پیسے ہی ملتے ہیں۔اور یہ شاطر لوگ کسی اور نام سے بزنس شروع کر دیتے ہیں اور قرض خواہ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔
قوموں کی کہانی بھی زیادہ مختلف نہیں۔جب کوئی قوم اپنے قرضے یا ان کی قسطیں ادا نہیں کر سکتی تو قرض خواہ بینک، ادارے اور اشخاص ، ایسی قوموں کو عا لمی عدالتوں میں گھسیٹ سکتے ہیں، اور ان کے اثاثوں کو نیلام کر کے اپنی رقم وصول کر سکتے ہیں۔ چونکہ قوموں کے قرضے بڑے بڑے ہوتے ہیں، یہ معاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو دیوالیہ ملک اپنی عالمی ساکھ کھو دیتا ہے ۔ اسے کوئی ملک کوئی سودا نہیں بیچتا تا آنکہ اسکو پیشگی قیمت نہ ادا کر دی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان سوائے ان درآمدات کے جن کے لیے اس کے پاس نقد زر مبادلہ ہو گا، اور کچھ درآمد نہیں کر سکے گا۔ پاکستا ن کو بھی جلد یا بدیر ڈیفالٹ کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ پاکستان دنیا کے بہت سے ملکوں، عالمی بینکوں اور نجی اداروں کو بھاری رقمیں دینے کا ذمہ وار ہے۔ جب پاکستان ڈیفالٹ کا اعلان کرے گا (جو آئی ایم ایف اسے کرنے سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گا) تو اس کے بعد دنیا میں بہت سے غریب ممالک ہیں جو اسی طرح قرضوں کے بوجھ میں پِس رہے ہیں۔وہ بھی یکے بعد دیگرے ڈیفالٹ کی راہ پکڑیں گے ۔ اس سے ان سب کے قرضے تو صفر ہو جائیں گے لیکن وہ بھاری رقمیں جو ان امیر ملکوں اور دولتمندوں نے ان قرضوں میں لگائی تھیں، وہ ڈوب جائیں گی اور دنیا کی معیشت کچھ عرصے کے لیے تاریکی میں چلی جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ عظیم بحران یا کساد بازاری پیدا ہو جائے کہ ہر ملک ہی اس سے متاثر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی طریقہ سے آئی ایم ایف پاکستان کو ڈیفالٹ میں جانے سے روکتا ہے۔اور پاکستانی بھی سوچے سمجھے بغیر اس کی ہر شرط مان لیتے ہیں خواہ وہ عوام پر کتنا ظلم ہی ڈھا دے۔کیونکہ حاکموں کا کام تو چلتا رہتا ہے اور اللے تللے جاری و ساری رہتے ہیں۔ اب ذرا سوچیئے۔ پاکستان بجائے اور قرضہ لینے کے ڈیفالٹ کی راہ پکڑے۔اگر ایسا ہو گیا تو اس کے اثرات پاکستانیوں کے لیے اچھے تو نہیں ہونگے، خصوصاًان لوگوں کے لیے جن کا سامان تعیش کہیں اور سے آتا ہے۔جو غریب ہیں ان پر بھی اثر پڑے گا جیسے کہ پٹرول صرف نقد پر ہی درآمد کیا جا سکے گا لیکن اس پر آئی ایم ایف کے لگائے ہوئے ٹیکسز نہیں ہو نگے۔ بہت سی ایسی چیزیں جن کی پیداوار میں درآمد شدہ اجزا ءلگتے ہیں وہ اور مہنگی ہو جائیں گی جیسے دوائیاں، اور ڈالر کی قیمت بڑھ جائے گی کیونکہ ہر درآمدی چیز کے لیے ڈالر درکارہونگے اور آمدنی ڈالروں میں کم ہو گی۔ہمارے زیادہ عوام دیہاتوں میں رہتے ہیں، ان کی زندگی میں زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ سب سے زیادہ فرق خواص، سرکاری ملازموں اور فوجی اداروں پر ہو گا جن کے استعما ل کی اشیاء ثابت یا اجزاء کی شکل میں درآمد ہوتی ہیں۔لیکن ان حالات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ حکومت کو زبردستی کفایت شعاری کرنی پڑے گی۔حکام جو ذرا ذرا سی بات پر بیرون ملک کے دوروں پر بھاگے جاتے تھے ان کو وہ عیاشی چھوڑنی پڑے گی۔گاڑیوں کی درآمد بند ہو گی۔اور کتوں بلیوں کی غذا کی درآمد بند۔بے چاروں کو دیسی کھانوں پر ہی گذارا کرنا پڑے گا۔ پھر کچھ سالوں میں گھریلو صنعتوں میں انقلاب آئے گا اور درآمدی اشیا ءکے پاکستانی متبادل بنیں گے، جس سے ملک میں ترقی کا ایک ایسا دور شروع ہو گا جو پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہو گا۔ ڈیفالٹ، پاکستان کے لیے وہ لات ثابت ہو سکتا ہے جس نے کبڑے کی کمر سیدھی کر دی تھی ،ضرب المثل کے مطابق۔ڈیفالٹ سے پاکستانیوں کو ایک دفعہ تو ہوش آ جائے گی اور حرام خوردہ حکمران جب دیکھیں گے کہ حالات اتنے کشیدہ ہو گئے ہیں، ان کا حکومتی نشہ ہی ٹوٹ جائے گا، اور ایماندار اور محب الوطن سیاستدان ان کی جگہ لے لیں گے۔ یہ سب کچھ ممکن ہے۔
ڈیفالٹ میں جانے سے، اسٹیبلشمنٹ کی موجیں بھی ختم ہو نگی۔ ان کو اپنے ملکی وسائل کے مطابق پیر پھیلانے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ یہی قوم اور وطن کے لیے راہ نجات ہو سکتی ہے۔تو کیا کہتے ہیں قارئین؟ اگر ایسا ہو جائے تو؟
اب ایک اور صورت حال پر غور کریں۔ اگر ہماری پیاری فوج کے جرنیل ایک دن راشیوں، لٹیروں اور خبیثوں کی سر پرستی چھوڑ دیں؟اپنی جو عظیم الشان غیر قانونی اور غیر اخلاقی سلطنت، جائدادیں، زمینیں، اور کارخانوں ، بینکوں، ہوائی کمپنیوں وغیرہ کی بنا رکھی ہے اسے نجی ملکیت میں منتقل کر دیں؟ تو کیا ہو گا؟ ایسا ہو سکتا ہے؟ کیوں نہیں اگر فوجی افسروں کے ضمیر جاگ جائیں؟پاکستان کی بقا اور ترقی کا مستقبل نظرآ جائے؟ تو؟کیا فوج اور دوسرے ادارے جو اپنی طاقت اور اثر کو صرف ملک کی حفاظت کے لیے وقف کر دیں، تو ٹھیک ہے ان کے کچھ اثاثے تو چلے جا ئینگے ہیں لیکن وہ حلال کا رزق تو حاصل کر لیں گے جس میں برکت ہوتی ہے۔اگر وہ اپنے نا جائز اثاثوں اور وسائل سے جدا نہیں ہونا چاہتے تو انہیں کون مجبور کر سکتا ہے؟ یہ تو رب العزت کی ذات ہی ہے جو ان کے دلوں میں یہ نیکی ڈال دے؟ لیکن اگر ایسا ہو گیا تو یہ ایک معجزہ عظیم ہو گا، جس سے نہ صرف پاکستانیوں کی قسمت بدل جائے گی ، بلکہ ان نو جوانوں کی بھی جو اس ملک کے محافظ ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پاکستانی کب تک بیرونی قرضے لیکر اس فوج کی پرورش کرتے رہیں گے؟ اب تو خیر اس حد سے بھی گذر گئے ہیں اور بیرونی قرضے بھی نہیں مل رہے۔ اب تو بھیک مانگ کر بھی کچھ نہیں مل رہا۔ اب وہ اثاثے بھی ختم ہو گئے ہیں جنہیں بیچ کر کچھ رقم ہاتھ آ جاتی تھی۔یا وہ اثاثے رہ گئے ہیں جن پر اتنا زیادہ قرضہ ہے کہ کوئی خریدار ہاتھ لگانے کو تیار نہیں جیسے کہ سٹیل مل، پی آئی اے اور ریلوے وغیرہ۔اس سال تو انگلینڈ کے بینک نے مہنگے داموں کچھ قرضہ دے دیا، اگلے سال تو اس کی بھی امید نہیں کی جا سکتی۔حکومت چاہے یا نہ چاہے اس کو اپنے کرتوتوں کی سزاتو ضرور ملے گی خواہ وہ کتنا بھی اس کے لیے عمران خان کو مورد الزام ٹھہرائیں ۔
دوستوں۔ ہماری بھلائی اور ہمارے بچوں کی بھلائی، بائیس کروڑ عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اپنے ضمیر کی آواز سنیں اور ان غریب عوام کی دولت کو نہ لوٹیں۔بلکہ جو لوٹا ہے وہ بھی واپس کر دیں۔ کیونکہ اگر پاکستان بچ گیا اور اور فلاح کی راہ پر چل پڑا تو سب کی چاندی۔ وگرنہ یہ ایک ایسی ریاست بن سکتا ہے جسے ناکام ریاست کہتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے۔ایک روشن مستقبل والا پاکستان اور ترقی یافتہ پاکستان سب کا خواب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے وہ وسائل دیئے ہیں کہ جو اس کو ایک اعلیٰ ترین ریاست بنا سکتے ہیں۔ اور اس خواب کو حقیقت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ کیا ہمارے جوان بھی یہی چاہتے ہیں؟
جو راہ ترقی کی راہ ہے اور خوشحالی کی راہ ہے اس پر چلنے کے لیے راشی اور لٹیرے سیاستدانوں سے نجات پانی ہو گی۔ اور کسی ایماندارراہنما کو قیادت دینی ہو گی۔ جب تک ایسا نہیں کریں گے، ہم تباہی کے ہولناک گڑھے کی طرف بڑھتے رہیں گے۔جو بد کار اور کرپٹ ہیںوہ تو ملک سے بھاگ جائیں گے ، لیکن عوام بلکتے تڑپتے رہ جائیں گے۔ اس لیے یہ وقت ہے کہ عوام اپنی طاقت کا استعمال کریں اور حالات کو مزید بگڑنے سے بچا لیں۔کیا خیال ہے؟ اگر ایسا ہو جائے تو؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں