محرومیوں کے بیکراں سمندر میں خواہشات کے کنارے نہ لگنے والی سانسوں پہ چلنے والی یہ مشین ِ قدرت جس کی حرکات و سکنات زندگی کہلاتی ہے یہ عذاب ِ الہی سے نہیں بلکہ مخصوص اشرافیہ کے طرز ِ عمل سے اجیرن ہوتی جارہی ہے اور یہ تسلسل روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے سے ہوتا ہوا تبدیلی کے ناچنے تک اور اب ڈیفالٹ سے بچانے والوں کا ڈرامہ عوام کو تگنی کا ناچ نچوا رہا ہے بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان ریٹنگ Caa2کی ہے یعنی ہماری معاشی پالیسیاں ایک درجہ بہتری کا زینہ عبور کرتے ہوئے دیگر عوامل سے نبرد آزما ہے سمجھ سے بالا ہے یہ بات کہ دیکھتے اور سنتے ہیں کہ سٹاک ایکس چینج پہلی بار اتنے ہزار پوائنٹ اوپر چلا گیا ہے تو اس سے اک عام آدمی کی گزر بسر پر مجھے مشکلات کم ہوتی کبھی نظر نہیں آئیں اور نہ ہی حکام ِ بالا یا معاشی ماہرین کے اس ڈائیلاگ میں کو ئی سچائی دیکھنے کو ملی کہ ملکی معیشت بہتری کی جانب رواں ہے اگر ملکی معیشت بہتری کی جانب رواں ہے تو اس کے اثرات عام آدمی یا چھوٹے طبقات کی اجیرن زندگی کو سہل کرنے میں ناکام کیوں ہیں ؟ 82اداروں کو یکسر ختم کرتے ہوئے اُسے 40کی گنتی تک لانا احسن اقدام سہی اور کفایت شعاری کی جانب مثبت قدم ہے مگر اس سے معیشت کی کمر توڑنے والا بوجھ کم نہیں ہو تا اور نہ ہی خط ِ غربت سے نیچے گرنے والوں کی تعداد میں کمی نظر آتی ہے بلکہ معیشت کی تنزلی کا سفر بغیر کسی بہتر اقدام کے جاری ہے حکومت کو چائیے کہ وہ افسران ِ بالا سے لیکر متوسط افسران تک جو غیر ضروری سہولیات مراعات کے نام پر اس مخصوص طبقے پر نچھاور کی جارہی ہیں اسے فورا ًبند کرے لاکھوں روپے ماہانہ کی تنخواہ پانے والوں کو کیوں مفت بجلی ، پٹرول ،باورچی ،ڈرائیور گاڑیاں،فیملی کے استعمال کے لئے علیحدہ کاریں اس کے بعد پنشن کے ماہانہ لاکھوں روپے کیوں دئیے جاتے ہیں اور ان ہی دفتروں میں نچلا طبقہ اشیائے ضروریہ سے محروم ،بچوں کی تعلیم مکمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں ایک عام آدمی تو سوچنے میں حق بجانب ہو گا کہ غیر ملکی سودی قرضے صرف ایک طبقے کی افزائش نسل پر اگر خرچ ہوتے ہیں تو پھر ایک متوسط ،غریب آدمی حکومت کو ٹیکس کیوں دے ؟آئی ایم ایف ہمارا بجٹ بنائے ہماری بجلی کی قیمتیں ،پٹرول و گیس کی قیمتوں کا تعین کرے ہم پر ٹیکسسز کا نفاذ کرے تو پھر ہماری آزادی کہاں ہے ہم تو غلام ہیں قرضے حکومتیں لیتی آئی ہیں جنھیں تواتر سے عوام ادا کر رہی ہے مگر ان قرضوں سے عوامی سہولیات میسر ہونے کی بجائے ناپید ہیں معاشی بہتری ہونے کی بجائے ابتری بڑھ رہی ہے مگر سدباب کرنے والا کوئی نہیں جو معاشی گرداب میں پھنسی ملکی معیشت کو کنارے پر لا سکے جتنے وزیر خزانہ آئے سب نے دستیاب وسائل کو فروغ دینے کی بجائے سودی قرضوں سے ملکی معیشت کو چلایا سیاسی حکومتوں نے اپنی جے جے کار کے لئے تنخواہوں میں اضافہ کیا تو دوسری جانب مہنگائی اور ٹیکسسز اتنے بڑھائے کہ سابقہ دور اچھا لگنے لگا سوچ اور فکر کے اس فقدان سے عوامی زندگی اجیرن ہو گئی ہے جن میں غیر ملکی قرضوں کا بڑھنا اندیشہء زوال کی نوید ہے معاشرے میں اگر شعور ہو تو وہ اس موقع پر زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے تالیاں بجانے کی بجائے ماتم کرے اس بحث میں نہیں پڑتے کہ موجودہ ملک گیر ہڑتال کیوں ہوئی ،کامیاب ہوئی ،ناکام ہوئی ہم ایک جائزہ لیتے ہیں کہ وطن ِ عزیز کا ہر شہری ٹیکس دیتا ہے انکم ٹیکس سے لیکر بجلی و گیس کے بلوں پر ٹیکس ،اشیائے خودونوش پر ٹیکس ،خرید و فروخت پر ٹیکس گویا چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لیکر ہر ایک چیز پر ایک عام شہری بغیر چون و چرا کئے ٹیکس دیتا ہے مگر ریاست شہریوں کی اس فرمانبرداری پر کسی بھی سہولت کو ممکن نہیں بناتی تحفظ ہو روزگار ہو ،صحت و تعلیم کی آسا ن د ستیابی ہو ،فوری انصاف کی فراہمی ہو،ریاست ٹیکس وصول کرنے کے باوجود ان مذکورہ سہولیات سے مستفید نہیں کرتی اور نہ ہی ان اداروں سے وابستہ لوگ ٹیکس ادا کرنے والے ان محب الوطن لوگوں کو عزت سے نوازتے ہیں معاشرے میں غربت کے ساتھ اخلاقی قدروں کی پامالی رواج بن جائے تو وہ مہذب معاشرے کی صف سے نکل کر جاہلانہ ادوار کی عکاسی کرتا ہے اور یہ مناظر ہمارے ملک میں دیکھے سنے جا رہے ہیں مگر ادراک کی قدرت کسی حکمران کے پاس نہیں جس سے زندگی اجیرن ہو گئی ہے موجودہ حالات کے پیش ِ نظر مجھے حالات میں بہتری کی اُمید نہیں نظر آتی البتہ کوئی عصائے سخن کا رکھوالا بہتری لا سکتا ہے ۔
0