0

اعتراف!

نیو ورلڈ آرڈر پر بہت بات ہو چکی ہے سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے اور نکلنے کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں خود مغرب اور امریکہ نے GLOBALIZATON پر بہت جشن منایا گیا تالیاں بجائی تھیں مگر اب مغرب اور امریکہ کے اندر سے اس نظریہ پر تنقید ہو رہی ہے، نو آبادیاتی نظام جب ٹوٹ رہا تھا تو مغرب کو خوف تھا کہ آزاد ہونے والی ریاستوں کے جذبۂ انتقام کا سامنا کرنا بہت مشکل ہو جائیگا، مگر اطمینان یہ تھا کہ ان آزاد ہونے والوں ملکوں میں قیادت کا فقدان ہے اور PHILISOPHICALLY قیادت کوئی ایسی چیز نہیں جو فی الفور پیدا کی جا سکے ، لہٰذا مغرب کے دانشوروں اور سیاست دانوں کو پتہ تھا آزاد ہونے والے ملکوں کو سنبھلنے میں وقت لگے گا، کچھ اسباب ایسے تھے کہ نو آبادیاتی نظام کے ٹوٹنے کے بعد نو آزاد ممالک کے ان لیڈروں نے اپنے لوگوں کو ایسے خواب دکھائے جن کو فوری طور پر پورا کرنا عمومی طور پر ممکن ہی نہیں تھا پاکستان بننے کے وقت بھی مسلمانوں کے ذہن میں تھا کہ پاکستان مسلمانوں کے لئے ایک جنت ہوگا، یہ خواب پورا نہ ہو سکا، ایسا ہی حال افریقہ اور مشرق وسطی کا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ایسے تمام ممالک جو مغرب کے استبداد سے آزاد ہوئے ان میں ایک بھی ماہر معاشیات نہ تھا، غیر منقسم ہندوستان میں لیاقت علی خان وزیر خزانہ رہے ان کے بارے میں غیر تربیت یافتہ کالم نگاروں نے لکھا کہ لیاقت علی خاں نے نمک پر ٹیکس لگا کر بڑا کارنامہ انجام دیا، یہ مسلمان کالم نگاروں کا مسلم لیگ کے لئے ایک فرمائشی پروگرام تھا لیاقت علی خان کو پروجیکٹ کرنے کی ایک مہم جس سے مسلمانوں کی انا کی بھی تسکین ہو گئی ، نو آبادیاتی نظام میں جکڑے جو ملک تھے ان میں تعلیم کی کمی تھی، ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی منصوبے نہ تھے ، انہوں نے اپنے ملک کی تقویم پر بھی غور نہیں کیا، مولانا ابوالکلام آزاد نے توجہ دلائی تھی کہ پاکستان میں پنجابی، سندھی، بنگالی، بلوچی ، اور پٹھانوں کی تاریخ ثقافت، معاشرتی اقدار اور سماجی روایات میں بعد المشرقین ہے اور ان کو اسلام متحد نہ رکھ سکے گا، بات بہت ہی توجہ طلب تھی مگر ہمارے نام نہاد دانشوروں نے مولانا آزاد کو کانگریسی مولوی کہہ کر مذاق بنایا مگر ہوا یہ کہ خود مذاق بن گئے، ہماری پسند نا پسند اصولوں اور علم کی بنیاد پر نہیں ہوتی ہے عقیدت کی بنیاد پر ہوتی ہے، میں نے ایک ویڈیو دیکھی کسی نوجوان نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ غوث الاعظم نے ایک بار مردہ شخص کو زندہ کر دیا ان میں سے کسی ایک نے کہا یہ ممکن نہیں یہ کہنا تھا اور اس کے ساتھیوں نے اسے مار مار کر ادھ موا کر دیا ، وہ جو عقیدہ ختم نبوت ہے اس کا سہارا لے کر ہزاروں مار دیئے گئے، ہماری قائد اعظم سے بھی عقیدت ہے، امریکہ میں جارج واشنگٹن پر تنقید ہوتی ہے جارج بش بھی امریکہ کے صدر تھے ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ جارج واشنگٹن اچھے صدر نہ تھے ان کا اپنا خیال تھا جس لوگوں نے اختلاف بھی کیا مگر پاکستان میں قانوناً ہم پاکستان، قائد اعظم اور اقبال پر تنقید نہیں کر سکتے ، ان تینوں پر ریسرچ بھی نہیں ہو سکتی، اور محفل میں بھی اگر قائد پر کوئی تنقید ہو تو جبیں پر شکنیں ابھر آتی ہیں، جب سے سوشل میڈیا کا ظہور ہوا ہے کھل کر تنقید ہوتی ہے یہ بات درست ہے کہ قائد کوئی سیاستدان نہیں تھے یہ بات بھی ایک انگریز تبصرہ نگار نے ہی کہی کہ جناح اچھے سیاستدان نہ تھے مگر ایک بے مثل وکیل ضرور تھے ، اُردو کے حوالے سے مبصرین قائد کے موقف سے اختلاف کرتے ہیں، بھٹو سے بھی لوگوں نے بہت محبت کی مگر اس سے کس کو انکار کہ جو عمران کو UNPRECEDENTED غیر مشروط فالونگ ملی جو محبت سے گزر کر عقیدت میں تبدیل ہو گئی اس عقیدت میں ان کے چاہنے والے محبت اور نفرت کی ہر حد پار کر گئے کہیں کہیں وہ اقدار کا پاس بھی نہ رکھ سکے ، عمران کے ان چاہنے والوں کو سیاسی شعور بالکل نہ تھا، ہمارا اندازہ ہے کہ عمران عالمی DEEP STATE کی سازش کا شکار ہوئے اندازہ یہ ہے کہ پاکستان کے دو چھوٹے مذہبی گروہ خاموشی سے عمران کی حمایت کرتے رہے ان کی خواہش تھی کہ بڑے مذہبی طبقے عمران کی طاقت بنے رہیں ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں عمران سیاسی طور پر مضبوط ہو جائیں تو وہ اپنا کردار ادا کریں چونکہ عمران سیاست کو نہیں سمجھتے تھے لہٰذا ان کو برا وقت دیکھنا پڑا، وہ پاکستان کی زمینی حقیقتوں سے واقف ہی نہ ہو پائے انہوں نے اردگان بننے کی ناکام کوشش کی،کچھ دن پہلے تک عمران کا موقف بہت سخت تھا اور ان کا خیال تھا کہ سوشل میڈیا کی کوششوں سے جو عالمی دباؤ بڑھا ہے وہ ان کو بچالے گا، معیشت کو بچانے کے لئے سعودیہ ، امارات کی بے رخی نے بھی کچھ حوصلہ دیا مگر حکومت آخر کار آئی ایم ایف سے سخت شرائط ہر معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ادھر امریکہ کی سینیٹ کے سامنے ڈونلڈ لو نے پاکستان کے لئے 1.1 ارب ڈالرز کی امداد نے عمران کو بہت مایوس کر دیا ادھر میتھیو ملر کے کچھ ریمارکس بھی جو نو مئی کے حوالے تھے عمران کے لئے حوصلہ افزا نہ تھے ، ان حالات میں عمران کا اپنے سخت موقف پر ڈٹے رہنا مشکل تھا اور اڈیالہ جیل میں بابر اعوان کے منع کرنے کے باوجود عمران کا یہ اعتراف سامنے آیا کہ میں نے ہی کہا تھا کہ نو مئی کو جی ایچ کیو کے سامنے پر امن احتجاج کیا جائے سو پاکستان بھر میں یہ احتجاج ہوا، فوج نے بلوائیوں پر گولی نہ چلا کر بہت عقل مندی کا ثبوت دیا ورنہ عالمی اخبارات میں خبریں لگتیں کہ فوج نے نہتی عوام پر گولی چلائی، پی ٹی آئی ورکرز کی سیاسی تربیت نہ تھی پی ٹی آئی ون مین شو تھا کسی میں ہمت نہ تھی کہ وہ عمران سے اختلاف کرے سو سنجیدگی کا مظاہرہ نہ ہوا پی ٹی آئی کا ور کر اس قدر چار جڑ تھا کہ وہ کہتا تھا کہ اگر عمران اگر خود کہے کہ مجھ غلطیاں ہوئی ہیں تب بھی ہم نہیں مانیں گے یہ حماقت کی انتہا تھی دراصل یہ کرشمہ سوشل میڈیا چلانے والے ہنر مندوں کا ہے جنہوں نے مہارت سے ایک منفی منظم مہم چلائی، نوجوانوں کا برین واش کر دیا، یہی منظم مہم اگر مثبت ہوتی تو اس کے مختلف نتائج ہوتے ہم نے لکھا تھا کہ عمران کا دشمن عمران ہی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ عمران خود بھی اس منظم منفی مہم کا شکار ہو گیا تبصرہ نگار یہی کہہ رہے ہیں کہ اتنی منظم مہم اس سوشل میڈیا گروپ نے چلائی جس کی باگ ڈور ریٹائرڈ فوجی افسران کے ہاتھوں میں تھی، سنا ہے کہ امریکہ میں ریٹائرد افتخار نقوی سوشل میڈیا کے انچارج تھے اور لندن میں میجر عادل راجہ اور حیدر مہدی بظاہر لگتا ہے یہ سب ایک ہی مذہبی گروپ کے لوگ تھے جب نو مئی کے مقدمے فوجی عدالتوں کے حوالے ہوئے تو عمران کی ایک درخواست بھی عدالت میں لگی تھی جس میں استدعا کی گئی کہ ان کو فوج کے حوالے نہ کیا جائے مگر عدالت نے یہ درخواست خارج کر دی، یہ سچ ہے کہ پاکستان کا سیاسی نظام گل سڑ چکا ہے اس میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے اس نظام کا کینسر سیاست میں ملائیت کی شمولیت تھی مولوی کی سیاست حلال حرام سے آگے نہیں بڑھتی اس کو سیاست کی کوئی سمجھ نہیں، عمران کی بڑی غلطیوں میں سب سے بڑی غلطی فوج کے کاندھوں پر بیٹھ کر آنا تھا پھر مذہبی جنونیوں کو سیاست میں استعمال کرنا، عمران کو پاکستان کے مسائل سے واقفیت ہوتی تو اس کا رجحان معیشت کی طرف ہوتا عمران کو معیشت کی کوئی سمجھ نہ تھی اور اس کی ناکامی کی وجہ بھی معیشت ہی تھی، ریاست مدینہ ایک نعرہ تھا جو عوام کو متوجہ کرنے کے لئے تھا جس سے سیاسی طور پر عمران کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ، DEEP STATE پر میں بات کر چکا ہوں اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ عمران کے باہر کسی بھی نادیدہ قوت سے رابطے نہ ہوں اس قوت نے بہت دیر تک عمران کو سنبھالا، عمران اگر سیاسی آدمی ہوتا تو پاکستان کے لئے ایک نعمت ہوتا، عوام پاکستان کے روایتی سیاست سے تنگ آچکے تھے اسی لئے عمران کو موقع ملا مگر کاغذ کی ناؤ کو بہر حال ڈوبنا ہی تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں