0

اگست کے جزیرے سے واپسی !

ایک پاکستانی کے طور پر میرے لیے اگست کا مہینہ اپنی اہمیت ( 14 اگست 1947ء)اور ایک دیگر انداز کی معنویت (17 اگست 1988ء )کے حوالے نمایاں رہا ہے۔ 1947 ء کو گیبرئیل گارسیا مارکیز بیس سال کا نوجوان تھا، معلوم نہیں کہ انہیں برطانیہ اور امریکہ کے ایما پر برصغیر میں رونما ہونے والے اس سیاسی واقعے کا علم ہوا تھا یا نہیں؟، اسی طرح 1988ء میں اکسٹھ سالہ ناول نگار اپنی مقبولیت اور تخلیقی صلاحیت کے زمانۂ عروج میں بھی ،قیاس چاہتا ہے کہ؛ ایک ایشیائی ملک پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات و حوادث کی طرف متوجہ نہیں رہا ہو گا۔لہٰذا اس ذہنی بات کو سامنے رکھتے ہوئے جو پاکستان اور لاطینی امریکہ کے عالمگیر شہرت یافتہ ناول نگار کے مابین ہو سکتا ہے ، ہمارے یہاں اس کے تراجم کی مقبولیت اور پسندیدگی ایک اہم واقعہ ہے۔ مختلف پس منظر اور دیگر ثقافتی و اخلاقی فضا میں رہنے والے پاکستانیوں کے لیے دیگر ہمہ جہت ثقافتوں کے احوال و مآل میں دلچسپی ان کی ذہنی کشادگی اور آزاد روی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک ناول نگار اور افسانہ نگار کے طور پر بیسویں صدی کے بڑے زیرک اور ہوشمند گواہ اور اکیسویں صدی کے باریک بین مشاہد گیبرئیل گارسیا مارکیز کے بعد از مرگ شائع ہونے والے مختصر ناول Until August کے اُردو ترجمے کے اختصار میں چھپی طوالت کی بھول بھلیوں میں سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔میں گیبرئیل گارسیا مارکیز کی ہسپانوی زبان سے مکمل طور پر نابلد ہوں، لہٰذا میں ایک ذہین اور ذومعنی نثر لکھنے والے مصنف کی تحریر سے براہ راست لطف اندوز نہیں ہو سکتا ۔تراجم پر اعتبار اور انحصار کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں ،مستثنیات کو چھوڑ کر ، عموماً انگریزی تراجم کو مآخد بنایا جاتا ہے۔ایسے میں مجھے قطعاً علم نہیں کہ ہسپانوی زبان کا کلچر، باریکی اور حساسیت انگریزی کے راستے سے ہوتی ہوئی اُردو تک آتے آتے کتنی یا کس قدر باقی رہ جاتی ہے۔یہ ناول گیبرئیل گارسیا مارکیز کی عمر کے آخری سالوں کی ادھوری تخلیق شمار کیا جا سکتا ہے۔اس عمر میں وہ نسیان کا شکار بھی رہے ، لیکن ان کو اس ناول کو بارہا پڑھ کر ، سنوار کر اور اپنے اطمینان کے مطابق مکمل کرنے کی فرصت نہ ملی یا ایسا کرنے پر طبیعت بوجوہ مائل نہ ہو سکی ۔وہ نسیان کے ہاتھوں پریشان تھے ، انہوں نے اس ناول کے مسودے کو بھی طاق نسیان میں رکھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ گیبرئیل گارسیا مارکیز کے آخری ناول Until August کی متنی طوالت کچھ زیادہ نہیں، بس 80 صفحات ۔کم از کم گیبرئیل گارسیا مارکیز کے لوازمات و محرکات تخلیق کو سامنے رکھیں ، یا ان کے دیگر ناولوں کے حجم کو ،تو Until August کچھ طویل ناول نہیں ہے ، لیکن یہ ناول اپنے اختصار کے باوجود معنوی اعتبار سے کافی طویل ، پیچیدہ اور رنگدار ناول ہے۔رنگ دار سے میرا اشارہ انسانی دماغ کی انواع و اقسام کی کیفیات کی نمائندگی کرنے والے مختلف و متضاد ، ہلکے اور گہرے رنگوں کی لفظی تجسیم کی طرف ہے ،اور جن کا بیان ناول نگار کا خاص ہنر ہے۔ انسان ہونے اور دوسروں کو انسان سمجھنے پر پختہ یقین اس ناول کو پڑھنے کی شرط اول ہے۔ناول پڑھنے والے میں ذاتی تعصبات ، عقائد ، اور مختلف خطوں میں مروج اخلاقی معیارات سے تھوڑا اوپر اٹھ کر مطالعے کر سکنے کی صلاحیت کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ناول ایک پختہ فکر ، صحت مند اور طلبگار جسم کی حامل چھیالیس سالہ عورت کےذہن اور بدن کی جلی اور خفی کہانی ہے۔مردوں کے مزاج کا تلون دیکھنا سمجھنا اور عورتوں کی طرف سے بڑھ چڑھ کر بیان کرنا ایک عام سی بات ہے ۔مرد ایک کے سوا دیگر عورتوں میں اپنی دلچسپی چھپاتا نہیں ، ہاں وہ اپنے رویے ، اپنے برتاو اور اپنی تخلیق کردہ گرم جوشی سے اپنی بیوی کو بھی خوش رکھتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔بیوی کو خوش رکھنا مردوں کی ایک عالمگیر خوش گمانی ہے ۔اپنے مرد پر کلی انحصار کرنے کی دعویدار بیوی کو اپنی محبت اور رغبت کا یقین دلانے میں حد سے زیادہ جوش کا مظاہرہ کرنے والے نادان نہیں جانتے کہ ؛ اگر ایک مرد کے دماغ میں بیک وقت بیوی کے علاوہ دو یا تین عورتیں زیر تجویز رہتی ہیں ،تو وہیں ایک عورت کے دل میں چلتے پھرتے مردوں کے ہجوم کو شمار کرنا دائرۂ امکان سے باہر کی بات ہے۔لیکن عفت امکان عورتیں اپنے مزاج کی سنجیدگی سے اپنی نفسانی بے چینی اور خواہش کو چھپانے کا ہنر اوائل شباب ہی سے سیکھ چکی ہوتی ہیں۔ناول کا مرکزی کردار اینا مگدا لینا باخ ہر سال اگست کے مہینے میں ایک جزیرے پر اپنی ماں کے مدفن پر اس کے پسندیدہ پھول رکھنے اور دل ہی دل میں سال بھر کی باتیں کرنے جاتی ہے۔اگست میں اس جزیرے کا دورہ اور مصروفیت اسے ایک جذباتی جواز کی موجودگی میں جزیرے پر مختصر قیام کا موقع فراہم کرتی ہے۔اور یہیں جزیرے کا اگست اسے رات کی بند مٹھی میں چھپے اجنبی جگنو کی روشنی سے اپنے جسم اور اپنی روح کے چہرے کو منور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ گیبرئیل گارسیا مارکیز بین السطور یہ بھی اشارہ کر دیتے ہیں کہ ؛ شوہر کی جیب میں دوسری عورتوں کے ساتھ تعلقات کے شک کا چمکتا سکہ ڈالتے رہنے والی عورتیں نہایت عقلمندی ( مکاری زیادہ موزوں ہے )سے اپنے لیے گنجائش کا گوشہ تشکیل دے رہی ہوتی ہیں۔ ازدواجی زندگی کے تسلسل کو کامیابی سے برقرار رکھنے والی عملی عورتیں اپنا ایک علحدہ جزیرہ اور اپنا ایک “اگست “ضرور بنائے رکھتی ہیں۔صرف 80 صفحات پر مشتمل یہ ناول اگر ایک ہزار صفحات کا بھی ہوتا ،تب بھی اس ناول کی مکمل روح کو گیبرئیل گارسیا مارکیز نے ناول کے پہلے حصے کے چھ صفحات میں بند کر دیا ہے۔ ہاں مگر اپنی مرضی و منشا اور اپنے وقتی انتخاب کے ساتھ محو ہونے کے حق اور اس کام کے لیے درکار نفسیاتی جرات ، پیش قدمی اور ہنگامہ خیز مگر قدرے پرتشدد مواصلت کی عادت کے باوجود جب اینا مگدا لینا باخ کے تفوق کے دبیز قالین کو کتاب میں رکھا بیس ڈالر کا ایک نوٹ ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے ، تو اگرچہ وہ اپناراستہ اور چلن تبدیل نہیں کرتی،لیکن اس نوٹ کی دھیمی آنچ اسے ہمیشہ سلگائے رکھتی ہے۔ عورت کی نفسیاتی اور حیاتیاتی کیفیات کو جس تحمل اور جس مہارت سے ناول نگار نے بیان کیا ہے ،اور جس طرح سے عورت کی ان دیکھی مسرت نوچ لینے کی خواہش اور عادت کو بیان کیا ہے ،وہ سب کمال کا ہے ۔ ناول ایک نشست میں پڑھا جا سکتا ہے ،دیگر تفصیلات خود پڑھیئے ۔بس گیبرئیل گارسیا مارکیز نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ؛ متصل و مصروف ہونے کا عمل مرد ذہن سے اور عورت جسم سے مکمل کرتی ہے۔اور یہ بھی کہ ؛عورت شدید بھوک میں مینیو کا انتخاب نہیں کرتی، بس بھوک مٹانے کی طرف متوجہ رہتی ہے۔ہاں مگر جب وہ قائل ہو جائے کہ اب کافی ہو چکا، تو خود حیرت انگیز اطمینان اور سلیقے سے خواہش کا دستر خوان سمیٹ بھی لیتی ہے۔ یہ ناول ایک کامیاب، بامراد اور تجربہ کار مرد نے لکھا ہے اور اس میں عورت کو ان سوالوں کے جواب دینے کی فنکارانہ کوشش کی ہے، جو وہ ازل سے مرد کی طرف اچھالتی رہتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ عورت اپنی خواہش کا اقرار کم ہی کرتی ہے ،جبکہ اس کے برعکس مرد اپنی خواہش کو مبالغے کی ٹرے میں سجا کر فخریہ طور پر لیے پھرتا ہے۔ اس ناول کے ایک سے زیادہ اُردو تراجم دستیاب ہیں ۔میرے مطالعے میں قربان چنا کا ترجمہ رہا ۔ہمارے ہاں ترجمہ عموماً ترجمانی جیسا ہوتا ہے۔ لیکن قربان چنا نے اچھا ترجمہ کیا ہے ۔ہاں مگر میں اس کا تقابل دوسرے تراجم کے ساتھ نہیں کر سکتا۔عمومی طور پر ہمارے ہاں اچھے ، موثر اور متن و منشائے مصنف کے قریب تر تراجم کم کم نظر آتے ہیں۔قربان چنا والا ترجمہ ایسا ضرور ہے کہ اس میں ہم گیبرئیل گارسیا مارکیز کو دیکھ اور سن سکتے ہیں۔اگرچہ کہیں کہیں زیادہ بہتر اور موثر جملے لکھے جاسکتے تھے، پھر بھی قربان چنا کے ترجمے نے ہمیں گیبرئیل گارسیا مارکیز کی دنیا میں جھانکنے کا موقع بھلے طریقے سے فراہم کر دیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں