تازہ ترین اطلاعات کے مطابق،15 ،جولائی کو امریکہ کے سابق صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کو ریپبلیکن پارٹی نے اپنے کنونشن میں امریکہ کا، صدارت کا امیدوار منتخب کر لیا۔ اور ان کے منتخب نائب صدرکے لیے ، اوہائیو ریاست کے سینیٹر جے ڈی وانس کوپیش کیا۔ وانس کسی زمانے میں ان پر تنقید بھی کرتے رہے تھے لیکن پھر ان کے حامی بن گئے تھے۔ پاکستانیوں کو یہ سن کر حیرت تو ہو گی کہ وانس کی بیوی بھارتی نژرادکٹر ہندو ہے اور وانس اس کے مذہب سے بہت متاثر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انکی بیوی اوشا ان کو اچھے مشورے دیتی ہے جن کی وہ بہت قدر کرتے ہیں۔ان دونوں کی ملاقات تب ہوئی تھی جب دونوں قانون کی ڈگری کے لیے ایک ہی سکول (Yale)میں پڑھ رہے تھے۔ موجودہ صدر کی نائب صدر بھی بھارتی نثراد ہے اور دوسر ی پارٹی کے نامزد صدر کے نائب کی اہلیہ بھی۔یہ سب کچھ بغیر منصوبہ بندی اور برسوں کی ریاضت کے بغیر نہیں ہوا۔ ہاں تو پارٹی کا یہ اجلاس اس واقعہ کے دو دن بعد ہوا جب کہ ٹرمپ کو ایک انتخابی جلسہ میں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ گولی ان کے کان کو زخمی کرتے ہوئے نکل گئی تھی۔ٹرمپ نے اس واقع کے بعد بہت بہادری کا مظاہرہ کیا اور ہوا میں مکہ لہراتے ہوئے جلسہ گاہ سے چلے گئے۔
یہ حملہ بہت سنجیدہ تھا اوراور صدر ٹرمپ بال بال بچ گئے۔حملہ کرنے والا ایک سفید فام بیس سالہ نوجوان تھا جسے موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا۔ اگر اسے ہلاک نہ کیا جاتا تو شاید اس کے حملہ کرنے کی وجہ بھی معلوم ہو جاتی، مگر سابق صدر کے محافظ افسروں نے غالباً اور ہلاکتوں سے بچنے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔
یہ ہفتہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے بہت سی خوشیاں بھی لایا۔ نہ صرف انہیں زندگی کی نئی نوید ملی، ان کو پارٹی نے صدارت کا امید وار بھی چن لیا، جو بالکل متوقع تھا۔ اس کے علاوہ ان پر سرکاری خفیہ کاغذات گھر میں رکھنے کا جو مقدمہ تھا وہ بھی خارج ہو گیا۔لیکن ابھی نیو یارک میں ان پر اور مقدمات باقی ہیں۔ ایک میں انہیں سزا بھی ہوئی اور بھاری جرمانہ بھی لگایا گیا۔ اور ابھی کچھ مقدمات باقی ہیں۔
امریکہ کا سیاسی منظر کچھ واضح نہیں۔ کیونکہ ڈیموکریٹس کے صدر جو بایئڈن سفارتی اور پبلک مواقع پر اتنی بے تکیاں مار رہے ہیں کہ ان کے ساتھی سیاستدان پریشان ہو گئے ہیں۔ اکثر کا خیال ہے کہ82سالہ بائیڈن ، جنہیں غالباً پارکنسنز کا مرض ہے،جس میں دماغی حالت بتدریج خراب ہوتی ہے،کو ایک اور چار سالہ صدارت کا خیال چھوڑ دینا چاہیئے۔ان کے ساتھیوں کو بار بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن بایئڈن بضد ہیں کہ وہ ٹرمپ سے صرف چار سال ہی بڑے ہیں اور انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ چھوٹی موٹی غلطیاں تو سب کرتے ہیں۔ابھی ڈیمو کریٹس کے سر کردہ عہدے دار آپس میںصلاح، مشورہ کر رہے ہیں تا کہ بایئڈن کو جماعت کا فیصلہ سنایا جا سکے۔
ٹرمپ بلا شبہ دائیں بازو کے امریکنوںکو بہت پسند ہے۔ اب اس پر جو ہلاک کرنے کا حملہ ہوا ہے، اور گولی اگر چند سینٹی میٹر بھی سر پر لگتی تو کام تمام ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ریپبلیکنز الیکشنزکی شام یتیم ہو جاتے۔ اور پھر جلدی میں اس کا نعم البدل تلاش کرنا پڑتا۔ لیکن خدا کو معلوم نہیں کیا منظور تھا کہ ایسا نہیں ہوا۔ اور اس واقعہ کے بعد ٹرمپ کو ان لوگوں کا ووٹ ملنے کا امکان بڑھ گیا ہے جو ابھی فیصلہ نہیں کر سکے تھے۔بظاہر قرائین بتاتے ہیں کہ ٹرمپ اور ہمارے کپتان میں اچھے مراسم ہیں۔ ٹرمپ کپتان کو پسند کرتا ے جبکہ نواز شریف اور زرداری نے اس کو متاثر نہیں کیا ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرٹرمپ صدر منتخب ہو گیا تو کپتان کو جیل میں نہیں رہنے دے گا۔امریکہ کے پاکستانی شہری جو بائیڈن سے متنفر ہو چکے ہیں اور اسے پاکستان میں رجیم چینج کا ذمہ وار سمجھتے ہیں، وہ زیادہ امکان ہے کہ اپنا ووٹ ٹرمپ کو ہی ڈالیں گے۔بائیڈن نے نہ صرف پاکستا ن کو نقصان پہنچایا، اس نے فلسطینیوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، ان پر صرف زبانی جمع خرچ کیا لیکن نیتن یاہو کو یہ دہمکی نہیں دی کے اس کو ایک دھیلے کی امداد نہیں ملے گی۔یا امریکہ فلسطینیوں کی امداد کے لیے مسلمان ریاستوں کو اسرائیل پر چڑھائی کرنے سے نہیں روکے گا۔اسی لیے نیتن نے بائیڈن کو انگوٹھا دکھادیا۔لیکن امریکہ میں یہودیوں کی لابی اتنی موثر ہے کہ نیتن یاہو کو کسی چیز کا خوف نہیں۔ امریکہ وہی کرے گا جو نیتن چاہے گا۔بائیڈن ہو یا ٹرمپ۔
اب جب کہ عالمی انصاف کی عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ نیتن یاہو کو گرفتار کر کے عالمی عدالت میں نسل کشی کے الزامات پر اپنا دفاع کے لیے پیش کیا جائے، وہ سیدھا امریکہ کا رخ کرے گا جہاں اسے پورا تحفظ دیا جائے گا۔ اگر غور سے دیکھا جائے، تو بائیڈن کو اپنے الیکشنز میں کامیابی بہت عزیز ہے جس پر وہ لاکھوں فلسطینیوں کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔مسلمان اس بات کو سمجھتے ہیں اور پاکستانیوں کے علاوہ امریکی مسلمان بھی بائیڈن سے متنفر ہو رہے ہیں۔ ان سب باتوں کا فائدہ ٹرمپ کو ہو گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ شروع ہی سے ایک متنازعہ شخصیت رہی ہے۔ جب اس نے اپنی پہلی صدارتی انتخاب کی مہم شروع کی تو اس کا نعرہ تھا، امریکہ کودوبارہ عظیم بنائیں گے ۔ان کے جاں نثاروں میں بہت سے وہ لوگ تھے جو سابق فوجی تھے یا وہ لوگ جو عسکریت پسند تھے، اور ان کا خیال تھا کہ امریکہ جیسی طاقت دنیا میں کیوں سرخرو نہیں ہو رہی۔ ویت نام کی شرمناک ہزیمت اور اسکے بعد لیبیا اور عراق میں لا حاصل جنگیں اور آخر میں افغانستان میں ایک اور طویل اور دردناک ہزیمت نے امریکن فوجیوں کو دل شکستہ کر دیا تھا، جس کو ٹرمپ نے کیش کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اور اس کے چاہنے والوں نے اسے خوب ووٹ دیئے۔لیکن ٹرمپ اخلاقیات اور قانونی اصولوں کے باہر کام کرنے کا عادی تھا اور باقی کاروباری لوگوں کی طرح، بزنس میں بھی ہر مسئلہ کو ڈالروں کے ساتھ حل کرنے پر یقین رکھتا تھا۔ موصوف کو خوبصورت عورتیں بہت پسند تھیں، اسی لیے انہوں نے روس کی لڑکیاں بہت پسند تھیں، جنہیں انہوں عالمی مقابلۂ حسن میں دیکھا تھا۔اس کے علاوہ عورتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی عادت بھی تھی جسے وہ سب مردوں کا پیدائشی حق سمجھتا تھا ۔ جیسے لفٹ میں ساتھ کھڑی سٹاف خاتون کے سکرٹ میں ہاتھ ڈال دینا یا اس کے بدن پر چٹکی لے لینا، وغیرہ۔کچھ عورتوں کو ٹرمپ کی یہ حرکت پسند نہیں آئی ۔ چنانچہ، ٹرمپ کی صدارت ختم ہونے کے بعد اس پر ان خواتین نے مقدمات بنا دیئے۔
حال ہی میں نیو یارک کی عدالت میں جیوری نے ٹرمپ پر بزنس ریکارڈمیں ہیرا پھیری کرنے کے 34الزامات میں قصور وار ٹہرایا، جس پر سزا کا فیصلہ سنایا جانے والا ہے۔اس سے پہلے، گذشتہ برس، ایک اور نیو یارک کی جیوری نے ٹرمپ کو جنسی تشدد کے الزام میںبھاری جرمانے کی سزا سنائی۔جین کیرل کو پچاس لاکھ ڈالرہرجانہ دینے کا حکم جاری کیا گیا۔اس کے بعد کیرل کو بد نام کرنے کے جرم میں تراسی ملین ڈالر کی مزید سزا دی گئی۔ ٹرمپ پر ابھی فلوریڈا، واشنگٹن ڈی سی اور جیورجیا میں مختلف مقدمات درپیش ہیں۔جن میں ایک میںملک کے دارلحکومت میں، کانگریس کی عمارت پر حملہ کروانے کا الزام شامل ہے۔ اور 2020ء کے انتخابات میں نتائج بدلوانے کی کوشش کا الزام بھی ہے۔ موصوف امریکہ کے واحد صدر ہیں جن کو دو دفعہ امپیچ کیا گیا ، لیکن وہ بری ہو گئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا امریکی عوام، ٹرمپ کے جرائم اور گذشتہ تاریخ کو دیکھتے ہوئے کیا پھر بھی اسے ووٹ دے کر دوبارہ صدر منتخب کرنا چاہیں گے؟ٹرمپ بے تحاشا بیباک، شفاف، بے دھڑک، دلیر اور اپنے خامیوں پر نا شرمندہ ہونے والا شخص ہے۔ اس نے ایک فاحشہ خاتون کے ساتھ تعلقات بنائے اور پھر اس کو بھاری رقم دیکر منہ بند رکھنے کا کہا، اور اس واقعہ کو نمونہ بنا کر بائیڈن کی حکومت پر الزام لگائے۔ اور مقدمے کو فنڈ اکٹھے کرنے کاوسیلہ بنایا۔اور اپنے اوپر مقدمات کو عوام کی ہمدردیاں بٹورنے کا ذریعہ بنا لیا۔یہ کہانی امریکی جریدہ ، نیو یارکر، سے ماخوذ ہے۔
اس کہانی کے مطابق، ٹرمپ کے مخالفین، جیسے فلوریڈا کے گو رنر اور نیکی ہیلی، بھی اب اس کا ساتھ دینے کو تیار ہیں تا کہ انہیں کوئی عہدہ مل جائے۔ نکی ہیلی نے کئی مہینے ٹرمپ کی مخالفت میں مہم جوئی کی۔ تو ترنگ میں آ کر یہ کہ دیا کہ ٹرمپ کی ہر بات جھوٹ ہوتی ہے۔اس نے ٹرمپ کو ,,2018 2020، اور 2022ء کے انتخابات میں پارٹی کے امیدواروں کی شکست کا ذمہ وار ٹہرایا۔لیکن بالآخر، نکی نے ہار مان لی اور کہا کہ اس کا ووٹ ٹرمپ کے لیے ہے۔ اور ٹرمپ نے بھی کہا کہ وہ اس کو کسی نہ کسی عہدہ پر دیکھ ریا ہے۔ اسی طرح کچھ اور بھی ناراض ارکان واپس آ رہے ہیں۔
اس کہانی کے مصنف کا خیال ہے کہ ٹرمپ جیسا بھی ہے اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے۔اپنی پہلی حکومت میں ٹرمپ نے بین الاقوامی اتحادی اداروںکے خلاف بیانات دیئے، اور نئی حکومت میں انکے ساتھ رشتہ توڑ بھی سکتا ہے جیسے کہ نیٹو۔اس کا جیتنا پیوتن کے لیے ایک نوید ہو گی۔ اپنی نئی حکومت میں ایسے لوگوں کو لے گا جو اس کے ارادوں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ خواہ وہ کچھ بھی ہوں۔وہ ان سے اپنی انتقامی کاروائیاں بھی کروائے گا۔جیسے کہ اس نے صحافیوں کو برا سمجھا تھا۔ اب وہ ان کے خلاف ٹیکس اور عدلیہ کے محکموں کو لگا سکے گا۔اپنے پہلے دور حکومت میں اس نے کہا تھا کہ جب لٹیرے کام کریں گے تو ان پر گولیاں بھی چلیں گی۔یہی علاج غیر قانونی سرحد پار کرنے والوں کا ہو گا۔ٹرمپ کا رویہ افریقن امریکنوں، لاطینیوں،مسلمانوں، یہودیوں، عورتوں، اپا ہجوں اور پسماندہ ممالک کے باسیوں کی طرف نفرت سے بھر پور تھا۔اس لیے ٹرمپ کیا کرے گا، اس کا فیصلہ نیو یارک کی عدالتوں میں لگے مقدمات سے ہو گا۔
یہ مضمون ڈیوڈ ریمنک نے ٹرمپ کی مذمت میں لکھا اور اس کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی ووٹر سوچے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ کیا اسے ٹرمپ کو ووٹ دینا چاہیے؟یہ مصنف جو اپنے نام سے یہودی معلوم ہوتا ہے ، وہ امریکی یہودیوں کی ترجمانی کر رہا ہے یا ایسا لگتا ہے۔ اگرچہ جب سے غزہ پر اسرئیلی نسل کشی کی جنگ شروع ہوئی ہے، کسی ریپبلیکن لیڈر نے نیتن یاہو کی مذمت نہیں کی، کم از کم میری یاداشت میں۔ ڈیموکریٹس میں یہودی، سب سے سینئیر کانگریس مین چک شیومر نے اسرائیل کی مذمت کی جو ایک انہونی بات تھی۔بائیڈن بھی زبانی کلامی نیتن یاہو کو تنبیہ کرتا رہا ہے لیکن اس نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے اسرائیل کی جنگی وارداتوں اوراہلیت کو نقصان پہنچا ہو۔ٹرمپ البتہ ، روس کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ یوکرائین کی جنگ بند کروانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
پاکستانی بائیڈن سے ناراض ہیں اور وہ اس معاملے میں کسی حد تک حق بجانب ہیں۔ ان کی امید ٹرمپ سے ہے کہ وہ چونکہ عمران خان کو پسند کرتا ہے وہ اس کو جیل سے نکلوائے گا، یہ ممکن تو ہے۔ لیکن کیا ٹرمپ بھارتی اور اسرائیلی ایجنڈے کے خلاف جائے گا، یہ وقت ہی بتائے گا۔آپ کی اطلاع کے لیے، ڈونلڈ ٹرمپ 14جون 1946ء میں نیو یارک میںپیدا ہوا۔اس وقت انکی عمر 78سال ہے۔ پہلی بیوی ایوانہ ٹرمپ تھی۔دوسری مارلہ میپل تھی اور تیسری میلانیہ، جس سے 2005ء میں شادی ہوئی۔ ان کا میلانیہ سے ایک بیٹا ہے جس کا نام بیرن ہے۔ چار بڑے بچے ڈونلڈ جونئیر، ایوانکا، ایرک اور ٹفنی۔ ان کے دس پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہیں۔
اس وقت جب کہ پاکستانی اپنی سیاسی حیثیت کو پاکستان میں سیاسی استحکام ، ظلم و ستم کا خاتمہ، اور جمہوریت کی بحالی ،کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو انکو امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کے سب سے بڑے اور قابل اعتبار قائدین کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں اور ان کا پاکستان کے ساتھ مستقبل میں تعلقات پر واضح حکمت عملی کا اظہار چاہیے۔ اور پھر دونوں جماعتوں سے مشورے کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے کہ ان کی رائے میںبحثیت مجموعی پاکستانیوں کو کیا کرنا چاہیئے؟ بغیر کسی گفت و شنید اور وعدوں وعید کے کسی جماعت کو ووٹ ڈال دینا، ان قیمتی ووٹوں کا ضیاع ہو گا۔بادی النظر میںتو اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیموکریٹس نے اپنی بھارت نواز حکمت عملی کا کھلا ثبوت دے دیا ہے۔ ریپبلیکنز ، تاریخی لحاظ سے، اکثر پاکستان کے حق میں رہے ہیں اور اگر ٹرمپ عمران خان کے حق میں قابل یقین بیانات دے چکا ہے تو یہ فیصلہ مشکل نہیں ہونا چاہیئے۔
لیکن ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ابھی تھوڑے دنوں کی بات ہے کہ دونوں پارٹیوں نے کانگریس میں پاکستان کے حق میں متفقہ قرار داد پاس کی جو بلا شبہ امریکی پاکستانی قیادت کی انتھک محنتوں کا نتیجہ تھا اور اس جد و جہد میں دونوں پارٹیوں کے پاکستانی شامل تھے۔اب جب نومبر میں الیکشن ہوں گے، تو وہ pay back ٹائم ہو گا۔ جن لوگوں نے ریزولیشن کے لیے ڈیموکریٹس کی حمایت لی ان کو تو ڈیمو کریٹس کو ہی ووٹ ڈالنا پڑے گا۔ اگر نہیں ڈالیں گے تو آئیندہ ان کی حمایت سے توقع ہٹانی پڑے گی۔یہ ایک نازک معاملہ ہے، اس پر بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
0