پاکستانی بہت مشکل میں ہیں۔ ان پر ریاست کی تینوںطاقتیں مسلط ہیں جو کرپٹ ہیں اور حکومت پر قبضہ بھی چھوڑنا نہیں چاہتیں۔یہ طاقتیں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہیں۔اب پاکستانی عوام کس سے مدد مانگیں اور کس سے انصاف ؟یہ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ کوئی ایسا شخص حکومت بنائے جو ان کی حرام کی آمدنی اور اثاثوں کو ان سے چھین لے یا آئندہ حاصل کرنے سے روک سکے۔اگر سیدھی بات کریں تو یہ کرپشن کے خلاف جنگ ہے جسے فی الحال کرپٹ جیت رہے ہیں۔کرپشن کے خلاف مجاہد اول عمران خان زیر عتاب ہے، پابند سلاسل ہے اور اس پر پاکستان کے محافظ افسر براجمان ہیں کہ وہ سانس بھی نہ لینے پائے۔اور عوام جو بقول کسے طاقت کا سر چشمہ ہیں، بٹھا دیئے گئے ہیں۔ اور محافظ سرحدوں کی حفاظت کم اور اپنی حفاظت زیادہ کرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستانیوں کے دشمن صرف ملک میں ہی نہیں، باہر بھی ہیں۔کچھ تو ادارے ہیں جیسے کہ عالمی مالی ادارہ آئی ایم ایف، اور کچھ طاقتور ملک جودنیا کی اکلوتی اسلامی ایٹمی طاقت کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔پہلے آئی ایم ایف کی بات کریں۔
آئی ایم ایف ایک عالمی اداہ ہے جو کئی دہائیوں سے بڑی طاقتوں کے لیے اقتصادی شکاری کا کام کرتا ہے ۔ بنایا تو یہ ایک نیک مقصد سے گیاتھا کہ مشکل گھڑی میں یہ غریب ممالک کی مالی مدد کرے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ غریب ممالک کے حاکم اکثر و بیشتر کرپٹ ہوتے ہیں اور قوم کا پیسہ خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے چیلے چانٹوں کو بھی کھانے دیتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں قوم پہلے قرضوں کا شکار ہوتی ہے پھر اسے ان قرضوں کی واپسی کے لیے مالی مدد چاہیے ہوتی ہے۔ تب وہ آئی ایم ایف کے پاس آکرگھٹنے ٹیکتے ہیں کہ ہمیں کم سود کی شرح پر کچھ قرضہ مل جائے؟ اگر تو کسی بڑی طاقت سے اشارہ مل جائے تو آئی ایم ایف قرضہ دے دیتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ شرائط بھی لگا دیتا ہے جو اکثر اس ملک کے غریب عوام پر مہنگائی کے گولے برساتی ہیں۔ آئی ایم ایف بنیادی طور پر ایک بینک ہے جسے یہ یقین دہانی کروانی ہوتی ہے کہ اس کو اپنے قرضے واپس بھی ملیں گے۔ جب مہنگائی ہوتی ہے تو حکومت سیدھا سیدھا الزام آئی ایم ایف پر ڈال دیتی ہے جو سراسر جھوٹ اور بہتان ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہی کیوں ہیں؟ اس لیے کہ وہ حکام ملک کی دولت لوٹ چکے ہوتے ہیں اور مزید لوٹنے میں لگے ہوتے ہیں۔ اور انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب قرض ملتا ہے تو اس میں سے بھی کھاتے ہیں۔ یہ حکام ان جنگلی بھیڑیوں سے بھی بد تر ہیں جو اپنا پیٹ بھرنے کے بعد شکار چھوڑ دیتے ہیں۔
معاملات ایسے ہیں کہ آئی ایم ایف اپنی وکالت نہیں کر سکتا۔ بس چپ رہ کر اپنے اوپر کے الزامات سنتا رہتا ہے۔مقروض ملک کو جب آئی ایم ایف سے قرض ملتا ہے تو دوسرے مخیئر ممالک بھی قرض دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ آئی ایم ایف کی چھان بین پر بھروسہ کرتے ہیں۔لیکن آئی ایم ایف ایسی شرائط نہیں لگاتا جن سے اشرافیہ کی عیاشیاں اور فضول خرچیاں بند ہوں بلکہ ان کی عیاشیاں برقرار رہیں۔آپ سوچتے ہونگے کہ آئی ایم ایف کیوں نہیں ملک کے ٹیکس کے نظام کو ٹھیک کرنے پر زور دیتا؟ اس دفعہ اس نے یہی کیا اور فائلر اور نان فائلر کا پروگرام شروع کروایا جو انتہائی بودا نظام ہے۔ کیونکہ ہمارے ٹیکسیشن کا بنیادی مسئلہ محکمہ مالیات کے افسروں میں پھیلی ہوئی بے پناہ کرپشن ہے، جس سے بڑے بڑے بزنس فائدہ اٹھاتے ہیں اور ٹیکسوں کی کثیر رقومات ان افسروں کی جیبوں میں جاتی ہیں۔ مثلاً اگر ایک سگریٹ یا گھی بنانے والی کمپنی پر سال کا ٹیکس دس ارب بنتا ہے تو یہ افسر اسے گھٹا کر پانچ یا اس سے بھی کم کر دیتے ہیں اور جتنی کمی کی اس کا ایک نصف خود لیا اور دوسرا ٹیکس کی چھوٹ میں دے دیا۔ اس طرح قومی خزانے کا پانچ ارب روپے کا چونا صرف ایک کمپنی سے لگایا۔اس طرح کی ہزاروں کمپنیاں اور کاروباری ادارے ارب ہا ارب روپوں کا ٹیکس قومی خزانے سے لوٹ لیتے ہیں ۔آئی ایم ایف کو بھی ان باتوں کا پتہ ہے لیکن وہ ایسے راستے ڈھونڈنے پر مجبور ہے جن میںحکومت کا براہ راست کنٹرول ہو۔ اور مالیہ اکٹھا کرنے پر معمولی خرچ آئے۔اس لیے فائلر اور غیر فائلر کی سکیم میں چھوٹے چھوٹے عوام تو پھنس سکتے ہیں اور زیادہ تر وہ جو پہلے ہی سے ٹیکس دے رہے ہیں۔ کچھ تھوڑے سے اور شریف لوگ اس طرح مجبوراً اس جال میں پھنسیں لیکن وہ کسی طور بھی اتنا مالیہ اکٹھا نہیں کروا سکیں گے جو محکمہ مال کے افسر ایک دن میں کھا جاتے ہیں۔
کچھ زیادہ دیر کی بات نہیں جب عمران خان کے مشیر، غالباً زیدی صاحب نے جب اس محکمہ کا قلمدان سنبھالا تو انہوں نے تھوڑے ہی دنوں میں سارا چکر سمجھ لیا اور وزیر اعظم سے کہا کہ ہمیں محکمہ مال میںپانچ ہزار افسروں کی ضرورت نہیں۔ اگر ان میں سے بیشتر کی چھٹی کر دی جائے، اور اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو ان کو گھر بیٹھے تنخواہ دے دی جائے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ بد قسمتی سے اس حکم پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ نہ صرف صنعت اور کاروباری شعبہ مخالف تھا (قدرتی طور پر) پورا محکمہ، بلکہ وزارت، بھی نہیں چاہتے تھے کہ آمدنی کا سر چشمہ بند ہو جائے۔
اب ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف نے صرف وہ راستے ٹیکس بڑھانے کے اختیار کیے جن سے کم سے کم افسری مداخلت ممکن ہو۔ مثلاً بجلی، گیس، ٹیلیفون، ایکسائز ٹیکس وغیرہ۔ بد قسمتی سے اس قسم کے ٹیکسوں سے عا م آدمی پر براہ راست اثر پڑتا ہے ۔ مہنگائی علیحدہ بڑھتی ہے بد قماش راشی سرکا ری اہل کار سیاستدانو ں کو بھی اپنی لوٹ میں شامل کر لیتے ہیں اور مل بانٹ کر موج اڑاتے ہیں۔
اگر ملک میں کوئی ایسی حکومت ہو جو واقعی عوام کا بھلا چاہتی ہو تو وہ ایسے سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین کو کڑی اور عبرتناک سزائیں دے تا کہ وہ افسران آئیندہ اس طرح پیسہ کمانے کو سوچ بھی نہ سکیں۔ لیکن ایسا مانگے تانگے کی ، مخلوط حکومتیں بنانے والی حکومت کبھی نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے ایک ہر دلعزیز سیاستدان اور رہبر قائد چاہیے جیسا کہ اللہ نے پاکستان کو دیا ہے اور وہ ان حرام خوروں کے قبضہ میں ہے۔ اس لیے اگر عوام چاہتے ہیں کہ ان کی مشکلات ختم ہوں، اور ملک ترقی کی راہ پر چل نکلے تو انہیں جاں بکف باہر نکلنا ہو گا۔ یہ ظالم اور طاقتور لوگ آسانی سے اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔ ان کو عوامی طاقت سے ہی نکالا جا سکتا ہے۔
ان کی مزید بد قسمتی یہ ہے کہ ان راشیوں نے اپنی نا جائز آمدنی استعمال کر کے صحافیوں اور میڈیا مالکان کو بھی ساتھ ملا لیا ہے۔ اس سے راشیوں کے خلاف بات کرنا تقریباً نا ممکن ہوگیا ہے۔ اس وقت جو ملک میں ہو رہا ہے وہ سکھا شاہی میں بھی نہیں ہوتا تھا۔ پولیس عوام کے حقوق کی حفاظت کرنے کے بجائے ان کی جان و مال اورعزت اچھالنے میں مصروف ہے۔ سرحدوں کے محافظ نت نئی شراتیں سوچتے اور ان پر حکومت کو عمل پیرا ہونے پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس بجائے انصاف کے کھلم کھلا عمران خان سے ذاتی انتقام لے رہے ہیں اور سیاسی چالیں چل رہے ہیں۔صرف اپنے ذاتی انتقام کی خاطر ملک کا بیڑہ غرق کرنے والے صاحب ہماری بد قسمتی سے ملک دشمنوں اور راشی ٹولے کی ہر ذلیل خواہش کو ہوا دے رہے ہیں۔یہ ایک اور بڑی وجہ ہے کہ عوام کو اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر سر پر کفن باندھ کر نکلنا ہو گا کیونکہ یہ وقت ایسی ہی قربانی مانگتا ہے۔ پاکستان کی ہر طاغوتی طاقت آپ اور آپ کے مستقبل کے خلاف سینہ سپر ہے۔ وقت کو اور اس کی آواز کو پہچانیے اور فیصلہ میں دیر نہ کیجئیے۔
لیکن ہمارے حکمران، وہ راشیوں کے سردار، اور مفاد پرست ٹولے اس وقت اپنی دولت اور پرُ تعیش زندگی کو بحال رکھنے کے لیے پوری طاقت کو استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا جوعوام کو اظہار رائے دینے کا ایک موثر ذریعہ ہے، اس پر بھی یہ طاقتور ٹولے مکمل قبضہ چاہتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کب تک یہ ظلم و ستم چلے گا؟ اگر اب عمران خان کو اس سین سے ہٹا دیں تو کل کوئی اور عمران خان نہیں آئے گا؟ یہ آپ کی سوچ ہو سکتی ہے لیکن جس ملک میں ۲۵ کروڑ لوگ بستے ہوں انہیں زیادہ دیر تک سچائی اور اپنے حقوق کی پہچان سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس لیے بہتر تو یہی ہو گا کہ یہ طاقتور حلقے نوشتہ دیوار کو پڑھ لیں اور اپنی مذموم حرکتوں سے باز آ جائیں۔ کیا ان لوگوں نے اتنی دولت نہیں کما لی جو وہ ساری زندگی بھی استعمال کریں تو خرچ نہیں ہو گی۔ بلکہ ان کی اولادیں بھی نہیں خرچ کر سکیں گی، تو بھلا اب بس کردیں اور پاکستان کی جان چھوڑ دیں؟ورنہ یاد رکھیں۔ ایسی بیماریاں لگ جاتی ہیں جو ساری دنیا کی دولت بھی نہیں بچا سکتی۔ اوروں کو چھوڑیں۔ لوگوں کے اور آپ کے چہیتے جنرل پرویز مشرف کا حال ہی یاد کریں کہ موصوف کس حال میں خالق حقیقی کو جا ملے۔ وہاں جا کر اپنی کرتوتوں کی کیسے تشریح کی ہو گی؟
حالیہ واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جس طرح جمہوریت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے اور سب سے بڑی سیاسی پارٹی کی تذلیل کی جا رہی ہے، اور باوجود امریکی کانگریس کے اعلانیہ کے بعد اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے جو پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اس پرواز اٹھائی ہے۔ بظاہر حکومت کے کانوں پرجوں بھی نہیں رینگ رہی ہے ۔ اور تمام دہشت گردی اور پولیس گردی کے واقعات ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ ابھی عدالتی اجازت کے باوجود نہایت بو دی اور نا قابل فہم وجوہات کی بنا پر تحریک کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت دیکر واپس لے لی گئی۔ حکومت انتہائی خوفزدہ ہے۔ یا اسے کہیں اور سے احکامات مل رہے ہیں؟
کیا پاکستانی واقعی اپنے حقوق اور اپنی اولادوں کے مستقبل کے لیے اٹھ کھڑے ہونگے؟ لگتا تو نہیں پر شاید؟ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ احتجاج کرنا انکا حق ہے۔ اگر وہ اپنے اس حق کو استعمال نہیں کریں گے تو ظلم بڑھتے جائیں گے۔اٹھیں۔ اپنی آواز اٹھائیں۔ اس سے بہتوں کا بھلا ہو گا۔ پُر امن احتجاج غیر قانونی نہیں ہے۔ یاد رکھیں۔آپ کا آئین اس کی اجازت دیتا ہے اور اس سے بڑا کوئی اور قانون نہیں۔ آئی ایم ایف کس مفروضہ پر کام کر رہا ہے یہ بتانا مشکل ہے۔ شاید کوئی بھی مفروضہ نہیں۔ لیکن اس کے نتائج یہ نکل سکتے ہیں کہ جب اس کی حکمت عملی کی وجہ سے غریب آدمی کا جینا محال ہو جائے تو وہ سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کا تختہ الٹ دے اور اس کے بعد کوئی بہتر حکومت بن جائے۔ البتہ زیادہ امکان یہ ہے کہ اگر عام آدمی سڑکوں پر نکل آیا تو فوجی حکومت بن جائے گی جو آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کی مثال ہو گی۔اسی لیے کپتان خون خرابہ نہیںچاہتا۔
0