انصاف
باتوں میں قیل و قال کی حاجت نہیں کوئی
حاکم کی جو بھی رائے ہو اب صاف چاہیے
کیسے ہو کس طرح سے ہو حکام سوچ لیں
اہل وطن کو آج بس انصاف چاہیے
اس عالم ہست و بود میں ازل سے امارت اور غربت کا معرکہ جاری ہے۔ صاحب ثروت عموماً اپنے سے کم تر لوگوں کو اور اپنے ملازمین کو انسان ہی نہیں سمجھتے اور اکثر بیشتر خبریں آتی رہتی ہیں کہ برصغیر کے فلاں شہر اور فلاح گائوں میں ملازمین پر تشدد ہوا ہے۔ کبھی کبھی یہ تشدد جان لیوا بھی ہو جاتا ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ گزشتہ دنوں اس طرح کے ایک تشدد میں ایک ملازمہ کی جان بھی چلی گئی۔ ہر چند کہ ظلم کرنے والوں پر قانون کا اطلاق کیا گیا لیکن بات عدالت میں چند پیشیوں کے بعدختم ہو جائے گی۔ دراصل امیری اور غریبی کے درمیان یہ کشمکش ابدی ہے۔ ہم برصغیر کی بات کرتے ہیں جہاں بڑے بڑے سرمایہ دار، صنعت کار اور تاجر اپنے ملازموں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ بھارت کے معروف شاعر زبیر رضوی مرحوم نے اس موضوع پر ایک گیت لکھا تھا جو بھارت کے بڑے سرمایہ داروں سے متعلق تھا اور عوام میں بہت مقبول ہوا تھا۔ گیت کا ایک مکھڑا ہمیں یاد ہے جس میں زیبر مرحوم نے بھارت کئی سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کا ذکر کیا ہے۔ یہ مکھڑا اس طرح ہے۔
ہم مزدور کسان سنو مرے بھائی ہم مزدور کسان
بنے ہمیں سے ٹاٹا، برلا، ڈالمیا، دھنواں
ٹاٹا، برلا اور ڈالمیا بھارت کے امیر ترین سرمایہ دار کہلاتے تھے لیکن آج کل کے بھارتی سرمایہ داروں میں اور صنعت کاروں میں ایک نام سرفہرست ہے اور وہ ہے۔ ’’ ہندوجا‘‘ فیملی کے افراد دنیا کے مختلف ممالک میں بڑے عیش و آرام سے زندگی گزار رہے ہیں اور دنیا کے کئی ممالک میں ان کے محلات موجود ہیں جہاں درجنوں ملازم کام کرتے ہیں۔ ہندوستان کی ’’سیاست‘‘ میں بھی اس خاندان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان کے جو اہل خانہ سوئٹزرلینڈ میں بھی مقیم ہیں جہاں کی عدالت میں یہ مقدمہ قائم ہوا ہے کہ ہندو جا خاندان اپنے ملازموں سے غیر انسانی سلوک کررہا ہے انہیں روزانہ 18 گھنٹے کام پر رہنا ہوتا ہے اور ان کا معاوضہ صرف 7 ڈالر ہے۔ جنیوا کی ایک عدالت میں پرکاش کمل ہندوجا ان کے بیٹے اجے اور ان کی اہلی نمرتا پر گھریلو ملازمین کے پاسپورٹ ضبط کرنے اور گھر سے باہر نکلنے کی بہت کم آزاری دینے پر سوئٹزرلینڈ کی ایک عدالت میں مقدمہ جاری ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ جاری ہونے والی ’’سنڈے ٹائمز‘‘ کی رپورٹ میں ہندوجا فیملی کو برطانیہ کے امیر ترین افراد میں شمار کیا گیا ہے جس کا سرمایہ تیسرے سال بھی 37 ارب پائونڈ تک پہنچ چکا ہے۔ ہندوجا فیملی پر یہ مقدمہ بھارت سے گھریلو ملازمین کو درآمد کر کے بہت قلیل معاوضے پر ان سے کام لینے پر قائم کیا گیا ہے گزشتہ برس ملازمین کو کم اجرت دینے کا مقدمہ تو تقریباً ختم ہو گیا ہے لیکن اس خاندان کے خلاف انسانی سمگلنگ کا مقدمہ تاحال جاری ہے ۔ رواں ہفتے ہونے والی سماعت میں جنیوا کے مشہور پبلک پراسیکیوٹر ’’یوویزبر ٹوسا‘‘ نے عدالت کو بتایا کہ ہندوجا خاندان کی جانب سے اپنے ملازمین کو اجرت کے مد میں دی جانے والی رقم اپنے کتے پر خرچ کی جانے والی رقم سے بھی بہت کم ہے۔ ’’یوویز برٹوسا‘‘ مقدمے میں قید اور لاکھوں ڈالر کے معاوضے کے ساتھ قانونی فیس کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔ یورپ میں کئی جگہ ملازمین سے غیر انسانی سلوک پر معاشرتی تنظیمیں احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ ہر چند کہ پوری دنیا بچوں سے مشقت لینے کے خلاف ہے۔ اس ذیل میں قوانین بھی بن چکے ہیں لیکن تاحال ہمارے خطے کے ممالک میں بچوں سے کام لیا جارہا ہے اور کوئی تنظیم، کوئی ادارہ اس پر احتجاج نہیں کرتا۔ جب والدین سے معلوم کیا جاتا ہے کہ وہ بچوں کو اس طرح کی محنت مزدوری کرنے کیوں بھیجتے ہیں تو وہ اپنی مالی مجبوریاں بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اگر یہ بچہ کام نہ کرے تو گھر کا چولہا نہیں جل پائے گا۔ بہت سے ادارے اور بہت سی تنظیمیں ہمارے ملکوں میں اس مسئلے سے نپٹنے کے لئے کوشاں ہیں لیکن اسے بچوں کی مزدوری یا CHILD LABOURکا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ یہ ظلم بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر بچہ کسی بہت ہی نجی ادارے میں پڑھنے جاتا ہے تو وہاں بھی اسے اساتذہ کسی نہ کسی کام پر لگا دیتے ہیں۔ اسلام نے صدیوں پہلے معاشرے میں یہ تبدیلی لانے کی کوشش کی تھی۔ غلامی کو اور غلاموں کی تجارت کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ ملازمین کے حقوق متعین کئے گئے اور ملازمین کو ہر طرح کی انسانی سہولیات مہیا کرنے کی تلقین کی گئی۔ اب دنیا بھر کے سرمایہ داروں، صنعت کاروں، جاگیرداروں، چودھریوں، ملکوں، خانوں، سائیوں اور سرمایہ داروں کو سوچنا چاہیے کہ دنیا بدل گئی ہے۔ زمانے کے اطوار تبدیل ہو چکے ہیں اس طرح انسانوں کو غلام بنانا اور ان کے حقوق سلب کرنا آسان نہیں ہے۔ نہ اب نجی جیلیں قائم کی جاسکتی ہیں نہ مزدوروں کے پائوں میں بیڑیاں پہنائی جا سکتی ہیں۔ اگر اب تیسری دنیا کی حکومتیں پوری طرح اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتیں تو لوگ خود کھڑے ہو جائیں گے اور محبت اور سرمائے کے مسئلے کو خود حل کرنے کی کوشش کریں گے جس کے نتیجے میں جو ’’انارکی‘‘ پیدا ہو گی خدا اس سے ہر ملک کو محفوظ رکھے۔