0

رضامندی سے !

عید ِ قرباں کے بعد قربانیوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے عوامی سطح پر آئی ایم ایف کی رضامندی سے تیار کیا ہوا بجٹ اب نافذالعمل ہونے کو تیار بیٹھا ہے جس پر تحفظات کا ا ظہار کرتے ہوئے اب پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اپنی رضا مندی سے حکومت کو آگاہ کر دیا ہے اس رضامندی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کو آئی ایم ایف سے سود سے بھرے قرضے لینے میں کوئی عار نہیں ہے سوائے جماعت ِ اسلامی کے جو عشر و زکواۃ کے معاشی نظام کو ملک میں رائج کرنے کا خیال لئے ہوئے برسوں سے مسند نشین ہونے کے انتظار میں ہے بد نصیبی کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ اُن لوگوں کا یا پس ِ پردہ طاقتوں کی مدد سے جو لوگ بھی ملکی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں وہ یہودی طاقتوں کے یا یوں کہہ لیں کہ آئی ایم ایف کے تابع رہتے ہیں پیپلز پارٹی امریکہ کے زیر ِ عتاب رہنے کے باوجود بھی امریکی حمایت میں ہراول دستے کے طور ہے آئے روز ہمارے قرضوں میں اضافہ مہنگائی کا گھوڑا کسی بھی لگام سے آزاد خط ِ غربت پہ بیٹھے مسکینوں کو نیچے گرا رہا ہے اور ہمارے معاشی ماہرین مصنوعی مہنگاہی کی کمی کو کارنامہ قرار دے رہے ہیںحیرانی اس بات پر ہے کہ آئی ایم ایف نے کبھی بھی بیورو کریسی ،ارکان ِ اسمبلی اور حکومتی عیاشیاں ختم کرنے پر زور نہیں دیا بلکہ ہمیشہ ان کا سارا زور بجلی گیس ،پٹرول یعنی عوام کی کمر توڑنے پر ہی ہوتا ہے تو لاکھوں کی ماہانہ آمدنی بٹورنے والے ہمارے لاڈلے معاشی ماہرین کب ملک و قوم سے مخلص ہونگے البتہ سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کی رضامندی سے جن منصوبوں کو زیر ِ غور لایا جا رہا ہے صرف یہی اک بات خوش آئند ہے مگر اللہ سے جنگ کرنے والے رستے سے ابھی حکومت نے اجتناب نہیں برتا جس کے تشویشناک ہونے میں کسی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور صرف اسی بناء پر میرے جیسے طفل ِ مکتب کو معیشت کی بہتری کی اُمید جو سودی قرضوں سے دلائی جاتی ہے اُسے یہ دل ایمان کی روشنی قابل ِ قبول نہیں کرتا قوم نے روٹی کپڑا اور مکان کے دلفریب نعروں سے گزرتے ہوئے تبدیلی کے نعرے کا کرپشن کے خاتمے تک کا سامنا کیا لیکن کسی مقام پر بھی نظریہ ٔخوشحالی کا ہلکا سا جھونکا بھی طبیعت کو شادماں نہ کر سکا قائد کی انتھک محنت اور عوامی قربانیوں کے طفیل ایک تعمیری جہدوجہد کی وساطت سے حاصل کی گئی یہ اسلامی مملکت آج اپنے سارے نظریات جلا چکی ہے اسی لئے اس کا بے سمت سفر کسی منزل کی نشاندہی کے بغیر تنزل کی جانب گامزن دکھائی دیتا ہے آپ اپنی معاشی پالیسیوں کا احاطہ کریں تو ازبر ہو گا کہ وطن ِ عزیز میں سگریٹ ضرورت نہیں مگر اسے بنانے والا کروڑ پتی ہے ،شراب ضرورت نہیں مگر اس کا کاروبار کرنے والا کروڑ پتی ہے اور گندم جو ہماری ضرورت ہے اُسے اُگانے والا بے یارو مددگار ہے اللہ کی جانب سے عطا کی گئی اس مملکت اسلامیہ میں پندرہ سو کلو میٹر کا سمندر تھل ،تھر پارکر ،چولستان پر پھیلا ریگستان ،دنیا کی آٹھ خوبصورت ترین چوٹیوں میں سے 6سر زمین پاکستان کی ملکیت اور 40فی صد زائد میدانی علاقوں پر مشتمل یہ ریاست دنیاوی رعنائیاں سمیٹے صرف بارگاہ ِ الہٰی کے فضل و کرم کی منتظر ہے کہ چند ناہنجار انسانوں کی وجہ سے پھیلی روایات جن میں بنکوں کا سودی نظام بھی شامل ہے ان کا خاتمہ ممکن ہو سکے ملک میں لارڈ میکالے کے قانون کی بجائے احکام ِ الہٰی کی پیروی میں قرآن و سنت کی روشنی میں قانون ترتیب دئیے جائیں تو ریاست کا موجودہ کرخت چہرہ اللہ کی رضامندی سے تابناک ہو سکتا ہے الحمدللہ ہمارے حکمران کلمہ گو ہیں تعلیم سے بھی آرستہ ،سیاست کے دائو پیج سے آزمودہ ہیں تو وہ کون سی طاقت ہے جو انھیں ان کے اسلام سے دور اور اللہ سے جنگ کے لئے تیار کر رہی ہے ؟ قوم آیات کریمہ پڑھنے والے آمر ضیاء الحق اور ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر دھرنوں میں ناچ گانے کروانے والوں سے بخوبی آگاہ ہے مگرتجربات سے آگاہی کے باوجود ذہنی ناپختگی کا یہ عالم ہے کہ کبھی بھی اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے قدم نہیں بڑھاتی لیکن 9مئی کے واقعات میں اپنی ہی پاک فوج کی تنصیبات کو نفرت کا نشانہ بنا کر اُن طاقتوں کو تقویت دیتی ہے جو اسلام کے نام پر بننے والی ریاست کے ازل سے دشمن ہیں عوام کی اسی بےشعوری کو دیکھتے ہوئے سنہرا مستقبل خواب نظر آنے لگا ہے خدا کی دی ہوئی اس نعمت کا ایک حصہ گنوانے کے باوجود ہم آج تک اپنے اندر سے صوبائی تعصب ہو یا فرقہ واریت کی بیخ کنی نہ کر سکے بلکہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے شاید یہی سزا ہے ہمارے اعمالوں کی جو ہم ابلیس کی رضامندی سے انجام دے رہے ہیں جرائم کا بڑھنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کاش سیاسی جماعتیں اس گھمبیر مسئلے کی انجام دہی کے لئے سارے تفرقات کو بالائے طاق رکھ دیں ایسی رضامندی سے ریاست کا حسن دوبالا ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں