0

یوکرائین سے جنگ کیوں ضروری ہے؟

جب کسی ملک کے حالات بہت خراب ہو جائیں تو اس کی ایک جھلک،این ایپل بام کی کتاب ’سرخ قحط، یوکرائین پر سٹالن کی جنگ‘، میں یوکرائین کے دیہاتوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کی ذرا سی جھلک ملاحظہ ہو: ’’1923کے موسم بہار کے اوائل میں، یوکرائن کے دیہاتی بھوک سے نڈحال ہو رہے تھے۔ وہاں سے مصدقہ خبریں جو آ رہی تھیں، ان سے پتہ چلتا تھا کہ بھوک سے بچوں کے جسم پھول رہے تھے۔لوگ گھاس اور درختوں پر لگے پتے کھانے پر مجبور تھے۔کسان خوراک کی تلاش میں حراسان بھاگ رہے تھے۔مارچ میں ایک میڈیکل کمیشن نے دیکھا کہ کہ گلیوں میں لاشیں پڑی ہیں اور لوگوں میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ انہیں دفنا سکیں۔ ایک اور گاوں میں مقامی حکام ایسی اموات کو چھپانے کی تگ و دو میں تھے۔ وہ آنکھوں کے سامنے کے حالات کو ماننے پر تیار نہیں تھے۔کچھ لوگ حیرت زدہ تھے کہ سویٹ یونین میں ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ ہر روز قحط سے دس سے بیس اموات ہو رہی تھیں۔ بچے بھاگ رہے تھے اور ریلوے سٹیشنز پر ہجوم بڑھ رہے تھے۔نہ کوئی گھوڑے تھے اور نہ ہی کوئی مویشی۔ ‘‘ یہ تو یوکرائن کے حالات تھے جو بعد میں جا کر روس سے علیحدگی کا باعث بنے۔یہ سوچنے کی بات ہے کہ اسی دہائی میں امریکہ بھی کساد بازاری جیسے حالات سے گذر رہا تھا اور غالباً بنگال میں بھی انتہائی سخت قحط آیا تھا۔بظاہر یہ ایک عالمی مصیبت تھی جو ہو سکتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کیوجہ سے آئی ہو؟
در اصل یو کرائین صدیوں سے بیرونی طاقتوں کے حملوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ 1793 میں روس نے اس پر قبضہ کیا۔ اور وہاں یو کرایئنی زبان پر پابندی لگا دی۔یو کرائن کو سب سے بڑا صدمہ بیسویں صدی میں ہوا جب 1917 میں روسی انقلاب آیا۔ اور 1922میں روس نے اسے باقاعدہ اپنی راجدھانی میں شامل کر لیا۔ 1903 کے اوائل میں وہ حالات پیداکیے گئے جنکا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔سٹالن نے مشرقی علاقوں میں بہت سے روسی آبادکاروں کو وہاں بھیجا۔ مشرقی اور مغربی یو کرائین میں روسی اور مقامی تمدن کا فرق نمایاں نظر آتا ہے۔1991میں جب روسی اتحاد ختم ہوا اور سلطنت پارہ پارہ ہوئی تو یو کرائن بھی آزاد ہو گیا۔لیکن نئی آزادی میں مشرق اور مغربی حصوں میں ملاپ آسان نہیں تھا۔ آزادی اورنیا جمہوری سرمایہ دارانہ نظام مشرقی روسیوں کو پسند نہیںآیا ۔انہیں پرانا سوویٹ نظام زیادہ اچھا لگتا تھا۔
سن 2014 میں روس نے کرائمیا پر قبضہ کر لیا۔ اس کے کچھ دیر بعد مشرقی یوکرائن کے کچھ اور علاقے روس کے ساتھ جا ملے۔ اس روسی اقدام سے دونوں ملکوں کے تعلقات اور بگڑے۔ فروری 2022 میں روس نے یوکرائن پر حملہ کر دیا۔ اور اس حملہ نے یوروپین ممالک کوخبردار کر دیا۔ اور یو کرائن نے یورپین یونین اور نیٹو میں شمولیت کی درخواست کر دی۔ سچ تو یہ ہے کہ یوکرائن کی علیحدگی روس کو ذرا نہیں بھائی۔ یو کرائین سوویت ریاستوں میں دوسری سب سے بڑی ریاست تھی، کیونکہ سوویت یونین کی زراعتی پیداوار کا ایک بڑا حصہ، دفاعی صنعتوں ، فوجی قوت، بحر اسود کا بحری بیڑہ اور ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ شامل تھے۔اس لیے جب یو کرائین نے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو روس کو سخت صدمہ ہوا۔فروری 2022 میں روس نے یوکرائن پر باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا۔سوال یہ ہے کہ امریکہ نے کیوں یوکرائن کے قضیہ میں اپنی ٹانگ اڑائی؟ کیا یہ افغانستان کے بعد روس کو نیچا دکھانے کا ایک اور موقع تھا؟ یا کوئی اور وجہ؟ یہ اب ڈیوڈ میک ہوگ کی زبانی سنئے:
3دسمبر 2022 میں ڈیوڈ میک ہوگ (David McHugh)نے امریکہ اور یورپ کی یو کرائین کی امداد پر ایک نہایت اہم بیان دیا جس سے اس جنگ کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا’’ کیا یو کرائن اپنی جنگ کے اخراجات اپنی اقتصادیات کو تباہ کیے بغیر پورے کر سکے گا؟ اس نے کہا کہ روسیوں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ ایسی شرائط پر جنگ بندی کی جائے جو سب کے فائدے میں تھیں، سب سے بڑی بات کہ وہ امریکنوںاور نیٹو کو یو کرائن سے باہر رکھیں۔ جو بڑے بڑے فوجی ٹھیکیدار تھے وہ نیٹو میں اور بھی ملک ڈالنا چاہتے تھے۔کیوں؟ وہ اس لیے کہ وہ ان ممالک کو پابند کرتے تھے کہ وہ ایسی چیزیں خریدیں گے جو امریکن کمپنیاں جیسے نارتھروپ گریمان، ریتھین، جنرل ڈائنامکس،بوئنگ اور لاک ہیڈ، کو ایک بندھی ہوئی مارکیٹ مہیا کرتے ۔مارچ 22کو ہم نے 113بلین ڈالر مختص کیے۔اس کی مثال ایسے ہے کہ ہم اپنے ملک کے ہر بے گھر انسان کے لیے ایک گھر بنا کر دیں۔ہم نے اسطرح جو رقم دینے کا وعدہ کیا، اس میں دو مہینے پہلے چوبیس بلین ڈالر اور بڑھا دیئے۔اور اب جو بائیڈن اس میں ساٹھ بلین کا مزید اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔جنگ ختم ہونے کے بعد اور گرانقدر اخراجات متوقع ہیں، جب ہمیں وہ کچھ دوبارہ سے تعمیر کرنا پڑے گا جو جنگ میں ہم نے تباہ کیا۔مچ میکانر کو پوچھا گیا کہ کیا ہم نے وہ 113 بلین ڈالر جو یو کرائن کے لیے رکھے تھے وہ کیا ضروری تھے؟ اس نے کہا، فکر نہ کرو۔ وہ پیسہ در حقیقت یو کرائین نہیں جاتا۔وہ جاتا ہے امریکن دفاعی کمپنیوں کو جو جنگی سامان بناتی ہیں۔ اس طرح اس نے سمجھایا کہ یہ در اصل ایک منی لانڈرنگ سکیم ہے۔اور کیا خیال ہے کہ ان کمپنیوں کا اصل مالک کو ن ہے؟وہ ہے بلیک راک۔ان میں سے ہر ایک کمپنی۔ جی ہاں۔ بلیک راک۔ چنانچہ ٹم سکاٹ نے ریپبلیکن بحث کے دوران کہا کہ فکر نہ کریں۔یہ رقومات یو کرائین کوتحفہ میں نہیں دی جا رہیں۔ یہ قرضے ہیں۔ وہ لوگ ہاتھ کھڑا کریں جو سمجھتے ہیں کہ یہ قرضے کبھی واپس ادا ہونگے؟جی ہاں۔ کبھی نہیں۔ تو پھر ان کو قرضہ کیوں کہتے ہیں؟ وہ اس لیے کہ اس طرح وہ قرضہ کی واپسی کی شرائط طے کرتے ہیں۔ اوروہ شرائط کیا ہیں جو ان پر لاگو کی جاتی ہیں؟ اول یہ کہ انتہائی کفایت شعاری کا پروگرام اپنائیں تا کہ اگر آپ یو کرئن میں غریب طبقہ سے ہیں، آپ غریب ہی رہیں گے۔دوئم ، بہت ضروری ، یو کرائین کو اپنے تمام قومی اثاثے ، بین الاقوامی کمپنیوں کو برائے فروخت لگانے پڑیں گے۔ان میں سب سے بڑا اثاثہ وہ زراعتی زمین ہے جو ان کا پورے یورپ میںسب سے بڑا اثاثہ ہے۔اس زمین پر قبضہ کے لیے ہزاروں سال سے جنگیں ہوتی رہی ہیں۔یہ یورپ کی زرخیز ترین زمین ہے اور یورپ کے لیے روٹی کا سامان۔ پانچ لاکھ بچے، جو یوکرائینی تھے وہ اس زمین کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ان کے فرشتوں کو ان قرضوں کی شرائط کا پتہ نہیں تھا۔ انہوں نے پہلے ہی تیس فیصد زمین فروخت کر دی ہوئی ہے۔اس کے خریدار ہیں: دیوپانت، کارگل، اور مانسانٹو۔کیا خیال ہے کہ یہ کمپنیاں کس کی ملکیت ہیں؟بلیک راک، اور کون؟دسمبر میں صدر بائیڈن نے یو کرائین کی تعمیر نو کے لیے کچھ ٹھیکے منظور کیے۔ بھلا کس کو ؟ بلیک راک اور کون؟ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ان کو اس کی پرواہ بھی نہیں کہ ہمیں یہ نظر آ رہا ہے۔لیکن وہ جانتے ہیں کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔انہیں کوئی پرواہ نہیں کیونکہ ان کے پاس ایک منصوبہ ہے۔ وہ ایک پرانی چال ہے کہ ہمیں آپس میںاختلافات میںالجھائے رکھیں۔اور ہم آپس میں نفرتیں بوتے رہیں۔ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ دست بہ گریبان رہیں۔سیاہ فام سفید فام کے خلاف، اور یہ تمام تفرقات جو وہ بوتے ہیں۔‘‘
مندرجہ بالا حالات اور واقعات سے کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے؟جنگ خواہ ویت نام کی تھی یا افغانستان کی اور اب یوکرائین کی۔ ان سب جنگوں کے پیچھے مقصد ملک فتح کر کے اپنی راجدھانی بڑھانا نہیں تھا۔در پردہ ان جنگوں کا مقصد ان ممالک میں اپنی پسند کی حکومتیں بنانا،اسکے قدرتی اور انسانی وسائل سے مستفید ہونا ، ان علاقوںمیں اپنا اثر و رسوخ بڑھانااور اس سے زیادہ اپنے ملک کی بڑی بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کو فائدہ پہنچانا تھا کیونکہ کمپنیاں ان دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کو خطیر رقمیں دیتی ہیں، جن سے یہ انتخابات کے اخراجات پورے کرتے ہیں اور جیتتے ہیں۔یہ اپنی پسند کی پارٹی اور اس کے امید واروں کو نقد اور دوسرے بے شمار تحائف سے نوازتی ہیں۔اس بات کی کسی کو پرواہ نہیں کہ ان کی اس حکمت عملی سے کس کا کیا نقصان ہو گا۔ جیسے کہ یو کرائن میں لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں اور اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ شہروں کے شہر تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ روس نے جی بھر کے بمباری کی اور مغربی طاقتیں یو کرائن کو نقد، اسلحہ اور وہ ہتھیار جو وہ تجرباتی مرحلوں ہیں ہیں، استعمال کرواتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں، اپنے مالی ، فوجی اور سیاسی فائدے کے لیے یو کرائین کو قربانی کا بکرا بنانے کی مثال ہے۔
اگرچہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنے ملکوں کے فائدے میں پیش رفت کرنے سے منع نہیں کیا جا سکتا اور نہ کیا جانا چایئے۔البتہ جب ایسی کاروائیوں سے انسانی حقوق کی پائمالی ہو ، بے گناہ بچے اور عورتیں مارے جائیں تو ایسی حکمت عملی کسی طور بھی جائز نہیں قرار دی جا سکتی۔اب تازہ مثال غزہ کی جنگ ہی لے لیں۔اس میں فرق یہ ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں اسرائیل نے غزہ پر جنگ مسلط کی اس کا مقصد فلسطینیوں کی نسل کشی کرنا اور بچے کھچوں کو ملک بدر کرنا اوران کی زمین ہڑپ کرناہے۔اگرچہ کہ عالمی قانون، مفتوحہ علاقوں پر تسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
خواہ عذر کچھ بھی ہو اس کے پس پشت وہ ایک طاقتور بلا ہوتی ہے جسے فوج کہتے ہیں۔ فوج کا پہلا کام ہوتا ہے اپنی طاقت اور نفری کو بڑھانا۔ اس کے لیے ملک کے خلاف حقیقی یا فرضی دشمن چاہیئے ہوتے ہیں۔اگر نہیں ہوتے تو بنا لیے جاتے ہیں۔ اگر ایک دشمن سر ہو جائے تو نیا بنایا جاتا ہے۔ مثلاً امریکہ میں،جب سے سویت یونین کا انتشار ہوا، تو روس سے جھڑپ کا امکان کم ہو گیا۔ اس کے لیئے نئے محاذ کی ضرورت پڑی جو اسامہ بن لادین نے مہیا کر دیا۔ اگر منطق سے دیکھا جائے تو اسامہ نے امریکن فوج کے لیے وہ کام کیا جس کی اسے شدید ضرورت تھی۔اس کی وجہ سے افغانستان میں روس کے خلاف محاذ آرائی ہوئی ۔ جب وہ محاذ گیارہ سال کے بعد ختم ہوا تو نیا محاذ یوکرائین میں بنانا پڑا جس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔
پاکستان میں بھی یہ طاقتور عفریت ایک عرصہ سے اسی گھنائونے مقصد کی طرف رواں دواں تھا۔ کئی دفعہ ہندوستان سے پنگا لیا گیا کہ پاکستان بھارت سے تعلقات استوار نہ کر لے۔فوجی جرنیلوں نے کئی دفعہ سیاستدانوں کو ہٹاکر عنان حکومت سنبھالی۔لیکن بالآخرجمہوریت کا تماشہ رچانا بھی ضروری تھا کیونکہ عالمی ادارے اور قوتیں یہی چاہتی تھیں۔ایک وقت ایسا آیا کہ جرنیلوں کو بتا دیا گیا کہ اب دنیا مارشل لاء کو قبول نہیں کرے گی۔ اس لیے فوج کے دانشوروں نے یہی سوچا کہ بغیر مارشل لاء کے حکومت پر قبضہ کیا جائے۔ اس کے لیے کچھ ضمیر فروش وطن دشمن سیاستدانوں کی ضرورت تھی، وہ ان کے اشارے پر سب کچھ کرنے پر تیار تھے۔اگر نواز فیملی کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو فوج کو چاہیئے تھیں۔ اب گذشتہ دو سال میں جو کچھ پاکستان میں ہوا اس کو سمجھنے کے لیے اور کسی اشارے کی ضرورت نہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں