قرارداد ِ پاکستان کے مقاصد کے عزائم لئے ہوئے ہمیں 84 برس بیت چکے ان برسوں میں مقبوضہ کشمیر کا حصول تو نہ ہوا لیکن اپنا ایک بازو کٹوا بیٹھے آزادی کا ملنا ایک نعمت تھی مگر اسی معنوی لحاظ سے قدر جو کرنا تھی اُس میں پے در پہ کوتاہیاں ہمیں ہماری منزل سے بھٹکا گئیں جمہوری نظام کی پامالیاں ہمیں تختہ دار تک لے گئیں اس کے باوجود بھی ہم جمہوریت کو وہ مقام نہ دے سکے جس میں ریاستی خوشحالی کے راز پنہاں تھے کسی کو ملک بدر تو کسی کو نااہل کرنے کی سازشیں ہماری رسمیں بن چکی ہیں جو تواتر سے آج بھی جاری ہیں آج بھی ادارتی کشمکش میں پھنسے ہم انا کے گرداب میں ہیں اسی رسہ کشی سے ملک میں فرقہ واریت،لسانی تعصب نے قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کر دیا ہے قائد نے تو ہمیں ایک تسبیح میں پرویا تھا رواداری ،برداشت کی تلقین کی تھی غلامانہ زندگی سے نکال کر آزادی کی نعمت سے ہمیں نوازا تھا تاریخ کے آئینے میں اگر پوری قوم اپنے آپ کو دیکھے اور اپنا احتساب خود کرنا شروع کر دے تو سارے حقائق ساری سچائیاں سامنے کھڑی ہو جائیں گی ماضی کے ان اوراق میں پنہاں ہماری خطائیں اس لئے نہیں ہیں کہ ہم اپنی غلطیوں کا دوش کسی اور کے سر رکھیں ہمیں ان کوتاہیوں سے جو ہماری محرومیوں کا سبب بنی ہوئی ہیں ان سے سبق سیکھنا ہے ہماری معاشی حالت ہر مرتبہ دگرگوں اور مہنگائی بے لگام گھوڑے کی مانند ریاست میں غربت کے بڑھنے کی وجہ ہے اس کے حل کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کا ایک صٖفحے پر آکر ملک کی معاشی پالیسی کے لئے دورس اقدامات پر متفق ہونا انتہائی ناگزیر ہے مخصوص نشستوں کا آئینی حق اپنی جگہ مگر پہلے معاشی حالات کو بہتر کرتے ہوئے غیر ملکی قرضوں سے بچنا لازمی امر ہے اس پر یہ سارے عوامی نمائندے اکٹھ کیوں نہیں کرتے اقتدار کے لئے ازلی ابدلی دشمن کو بھی بھائی بنالیتے ہیں تو ریاست کے معاشی ،دفاعی استحکام کے لئے یہ کیوں نہیں اپنی کاوشیں بروئے کار لاتے ؟کیا ملک میں جمہوری نظام صرف بہتان تراشی یا دوسرے کو نیچے دکھانے کا نام ہے ؟سیاست کے ایسے طرز ِ عمل میں راوی پھر آمریت کی دخل اندازی کو بالکل درست قراردیتا ہے کیونکہ بزرگوں سے سنا ہے کہ بچوں کے ہاتھوں میں گھر کی دیکھ بھال دینا دانشمندی نہیں جب سیاست اپنے لڑکپن میں 9مئی جیسے شرمناک واقعات کرے دنیا میں جمہوری دہشت کی روایت قائم کرے تو ایسے نوخیز سیاست دانوں کو حیا کی چادر میں باندھنے کے لئے پاک فوج کی مداخلت انتہائی ناگزیر ہے پاک فوج میری ارض ِ پاک کا باوقار ادارہ ہے جو پوری کا نگہبان ہے اُس کی ایسی تضحیک تو دشمن بھی نہیں کر سکتے تو اپنے سیاست دان کس کی ایماء کس دشمن کے اشارے پر فوج میں بغاوت کو فروغ دینے پر تُلے بیٹھے ہیں اس حساب کتاب کا فائنل ہونا بہت ضروری ہے عدالتی تاخیر سے دشمن اپنی نئی تراکیب لا کر ہمارے ملک میں بحران پیدا کرنے کی سازشیں کر رہا ہے عدالتی خط اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس سے اداروں میں ٹکرائو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ماضی قریب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آگاہی ملتی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سب سے زیادہ ریلیف بانی پی ٹی آئی کو دئیے ہوئے ہیںکئی مقدمات میں تو عمران خان کی ضمانتیں قانونی ماہرین کی نظر میں باعث ِ حیرت ہیں وہ شخص جو اپنے مخالفین کو جیل میں ائیر کنڈیشنڈ استعمال کرنے کے حق میں نہیں تھا اُسے وہ تمام سہولتیں پُرتعیش کھانوں کے ساتھ میسر ہیںتو کوئی اس بات پر بات کرنے کو تیار ہی نہیں کہ تحریک انصاف کے بانی کو جن فوری عدالتی سہولتوں سے نوازا گیا اس کے پیچھے کون سی طاقتیں کارفرما تھیں ؟بہرحال اب وقت کا تقاضا ایک دوسرے کے گریبان تار تار کرنے کا نہیں ہے ادارے اپنے اپنے آئینی حدود میں رہتے ہوئے ملکی استحکام اور بہتر معاشی نظام کے لئے عملی کاوشیں بروئے کار لائیں تو ہماری منزل دوری پر نہیں رہے گی ۔معاشی بہتری میں مجھ طفل ِ مکتب کو سود سے پاک نظام ِ معیشت میں بہتری و برکت نظر آتی ہے اسلامی رہ گزر پر نظام ریاست کو استوار کرنا ہی ہماری منزل ہونی چاہیے ۔
0