0

ترقی کی بنیاد تعلیم!

ستمِ قاتل
مسائل حل کراچی کے ہوں کیسے
ریاست بھی نہیں ہے اس کی قائل
مہاجر اور سندھی میں یہ نفرت
کراچی کے لئے ستمِ قاتل!

دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں تعلیم کو جو اہمیت حاصل ہے اس کا ادراک ہر ذی شعور اور علم سے محبت کرنے والے کو ہے۔ مغرب میں کئی صدیوں سے عام تعلیم کو مذہب کا حصہ بنایا گیا جس کی ایک مثال تثلیت پرستوں کی عبادت گاہوں کے ساتھ ہی مونکس MONKSبچوں کو تعلیم بھی فراہم کرتے ہیں۔ مشرق میں بھی چودہ سو سال پہلے سرکار دو عالمؐ پر وحی کا پہلا لفظ ’’اقراء‘‘ نازل ہوا یعنی پڑھنا۔ تعلیم حاصل کرنا اور عروج اسلام کے زمانے میں اس لفظ کو بنیاد بنا کر مسلمانوں نے بڑی بڑی درس گاہیں قائم کیں اور تعلیم کی ترویج کے لئے مختلف ذرائع استعمال کئے۔ سرکار دو عالمؐ نے عبادت اور تعلیم کو اس طرح یکجا کیا تھا کہ مسجد نبوی کی بنیاد کے ساتھ ہی ایک چبوترے کی بنیاد بھی رکھی جسے ’’صفہ‘‘ کا نام دیا گیا اور اس چبوترے پر بیٹھ کر تحصیل علم کرنے والے اور تروایح علم کرنے والے ’’اصحاب صفہ‘‘ کہلائے اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلمانوں نے تعلیم کو حرز جاں بنا لیا اور جامعہ ازہر جیسی جامعات ظہور میں آئیں۔ مسلمانوں نے اپنے عہد حکومت میں جگہ جگہ مدارس اور جامعات کا جال بچھا دیا۔ یہاں تک کہ مغرب بھی آج تک ان جامعات کے ذیل میں ترتیب دی ہوئی تصانیف کو اپنے بہت سے نصابات کا حصہ بنا چکا ہے۔ مثال کے طور پر ہم ابنِ سینا کی طب کے بارے میں تصنیف اب برطانیہ کے ایم بی بی ایس کے نصاب میں شامل ہے۔ تعلیم کی اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے یورپ نے اپنی پوری توجہ اور ذرائع حصول تعلیم کے وقف کر دئیے۔ انگلستان میں تعلیم کو اس درجہ فوقیت دی گئی کہ اگر کسی معقول وجہ کے کسی درس گاہ یا سکول میں کوئی طالب علم حاضر نہ ہو تو اس کے والدین پر جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی بچے کے سکول سے غیر حاضر رہنے کی وجہ بیان کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی مناسب وجہ کے بغیر کوئی طالب علم سکول نہیں آتا تو والدین سے بازپرس کی جا سکتی ہے۔ اب حکومت نے بغیر اجازت بچوں کو سکول سے چھٹی کرانے والے والدین پر جرمانہ 80پائونڈز سے شروع ہو کر 100پونڈز تک پہنچ جائے گا۔ انگلستان کے محکمۂ تعلیم نے وضاحت کی ہے کہ اگر کوئی طالب علم سکول سے مسلسل پانچ روز غیر حاضر رہے تو سکول کو جرمانہ عائد کرنے پر غور کرنا چاہیے کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ اسکولوں میں حاضری سطح اس درجے پر آئے جس پر ’’کورونا‘‘ سے پہلے تھی۔ فی الحال جرمانے کی رقم 60پونڈز ہے جو 21روز میں ادا نہ کرنے کی صورت میں بڑھ کر 120پونڈز ہو جاتی ہے۔ یہ جرمانہ ستمبر کے مہینے سے 80پونڈز سے بڑھ کر 180پونڈز تک پہنچ جائے گا۔ ۲۳۔۲۰۲۲؁ میں بغیر اجازت بچوں سے سکول کی چھٹی کرانے پر 4لاکھ جرمانے کے نوٹس جاری کئے گئے جو کہ کورونا وباء کی نسبت سے قبل بہت زیادہ ہیں ہر دس میں سے نو جرمانے سکول ٹرم کےدوران بچوں کو تعطل پر لئے جانے کے سبب ہوئے کیوں کہ اس زمانے میں چھٹیوں کے اخراجات بہ نسبت کم ہو جاتے ہیں۔ نئے اقدامات کے تحت اس معاملے کا رجسٹر محکمۂ تعلیم اور تعلیمی کونسل کے ساتھ متصل کرنا ہو گا۔ جرمانوں کے نظام کو مربوط بنانے کے لئے قومی فریم ورک تیار کیا جائے گا۔ ایسوسی ایشن آف سکول اور کالجز کے جنرل سیکرٹری جیف بارٹن کے مطابق بچے کے سکول نہ آنے پر والدین پر جرمانہ عائد کرنا قابل قبول نہیں ہے لیکن اس اقدام کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ٹرم ٹائم میں بچے کے سکول نہ آنے سے نہ صرف اس کا تعلیمی نقصان ہو گا بلکہ استاد کو بھی یہ کمی پوری کرنے کے لئے زیادہ وقت صرف کرنا ہو گا۔ اگر بچوں کی کثرت اسی طرح سکولوں سے بغیر اجازت غیر حاضر رہی تو اس سے بڑی افراتفری پھیل جائے گی جرمانے کے اس عمل کو دیکھ کر ہمیں برصغیر کا خیال آگیا۔ جہاں انگریزی حکومت سے پہلے دینی درس گاہیں تعلیم کی ترویج کے لئے اپنی پوری صلاحیتیں صرف کئے ہوئے تھیں اور درس گاہوں کے علاوہ مساجد میں بھی مذہبی تعلیم عام تھی۔ اہل ہنود بھی بڑے پیمانے پر درس گاہیں قائم کر چکے تھے۔ مسلمانوں کی دو عظیم درس گاہیں دیوبند اور بریلی میں اپنا کردار ادا کررہی تھیں۔ انگریزی حکومت کے قیام کے بعد انگریزی چرچ کے زیر اہتمام متعدد سکول قائم ہوئے اور تعلیم کے معاملے میں لوگوں میں بیداری پیدا ہونا شروع ہوئی۔ مولانا حالی نے آواز لگائی۔
گیا وہ دور کہ علم و ہنر انسان کا تھا زیور
ہوئی ہے زندگی خود منحصر اب علم و دانش پر
سرسید احمد خان نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا ڈول ڈالا۔ ہر چند کہ انہیں اس ذیل میں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن مسلمانوں کے فائدے کے لئے انہوں نے ہر طرح کی صعوبت برداشت کی اور اس جامعہ نے پاکستان کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا بابائے اُردو مولوی عبدالحق کے بقول ’’قصرِ پاکستان کی تعمیر میں پہلی اینٹ اسی پیرِ مرد سرسید احمد خان نے رکھی تھی‘‘۔ کاش پاکستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ بچے بھی سکول جانا شروع کر دیں۔ ہر چند کہ کئی جامعات اور فلاحی ادارے خصوصاً غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ اس ذیل میں بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں پھر بھی یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت وقت کی اس اہم ضرورت پر خصوصی توجہ دے اس لئے کہ تعلیم ہی ترقی کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر کوئی قوم اور ملک ترقی نہیں کر سکتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں