ہاتھوں کے طوطے اڑنے والا محاورہ سنتے آئے تھے ، اور سمجھ بیٹھے تھے کہ جب بھی اڑتے ہیں ، ہاتھوں کے طوطے ہی اڑتے ہیں ۔پر شہباز شریف کے چانکیائی طرز سیاست کے گھریلو اطلاق نے اکیسویں صدی میں اپنے برادر بزرگ تر نواز شریف کے ہاتھوں کے کبوتر اڑ کر ایک ہی خانوادے کے اندر گھومتی سیاست کا پہیہ اور بازو ، دونوں بیک وقت مروڑ کر رکھ دیئے ہیں۔ یاد رہے خود اختیار کردہ مفروریت سے واپس آکر لاہور میں برپا کیے گئے شو یعنی مینار پاکستان کے سامنے والے جلسے میں ، نہایت ڈرامائی انداز میں تقریر کرتے نواز شریف کی طرف سدھائے ہوئے کبوتر اچھال کر اڑائے جاتے رہے تھے ،یہ عمل اندرون لاہور کے ماہر کبوتر باز کر رہے تھے ۔وہ کبوتر اچھالتے رہے ،تاانکہ ایک کبوتر باؤ جی کے ہاتھ پر بیٹھ گیا ، نواز شریف سرخ متورم چہرے سے، ہاتھ پر بیٹھے کبوتر میں مستقبل کے شگون تلاش کرتے رہے ۔چونکہ یہ ساری کارروائی خانہ ساز ڈرامہ تھی، اس لیے اس میں سے کوئی بھلا شگون تلاش کرنا بے سود رہا ۔ بس کبوتر نے اڑنا تھا ،سو اڑ گیا ۔ایک بات جس کی طرف نواز شریف توجہ نہیں دے سکے ،یا جس کا صحیح طور اندازہ نہیں کر پائے،وہ اپنی سیاست کو لاحق اندرونی خطرات سے لاعلمی اور عدم توجہی ہے۔دراصل نواز شریف کو اپنی سیاست میں تین لوگوں سے ہمیشہ شدید خطرہ لاحق رہا ہے ، ان میں سے ایک کردار نواز شریف کے نکالے جانے کے بعد سے لے کر اب تک کے عرصے میں دوسری بار وزیراعظم بن چکا ہے ، دوسری ، جس نے فوجی افسر کی چلائی ہوئی گاڑی کو دھواں چھوڑنے والے ٹرک میں تبدیل کر کے ، اور جی ٹی روڈ پر خراب گلے سے نکلتی لرزاں آواز میں “مجھے کیوں نکالا ” کے نعرے تلے دبا کر ، لندن بھاگنے پر مجبور کردیا تھا ،اور جسے صلاحیت نہ ہونے کے باوجود شہید بی بی بینظیر بھٹو کی نقل کرنے کا بیحد و حساب شوق تھا ، بقول ستم ظریف نواز شریف کی خوش بختی ہے کہ وہ حیات ہیں ،ورنہ شہید لیڈر کی بیٹی بننے کے شوق میں وہ کچھ بھی کر گزرتی ۔بہرحال اب وہ وزیراعظم تو نہیں بن سکی، البتہ پنجاب کی وزیر اعلی بن چکی ہے۔ تیسرا کردار حمزہ شہباز مناسب موقعے کی تلاش میں سیاسی منظر نامے پر نگاہیں جمائے سب کچھ دیکھ رہا ہے۔قیافہ شناش کہتے ہیں کہ وہ اپنے باپ کا بھی باپ ثابت ہو سکتا ہے ۔ادھر باؤ جی کو 2018ء میں نکالنے والی اسٹیبلشمنٹ نے اگر ایک طرف “مجھے کیوں نکالا” کا تاریخی جواب اور حساب کتاب دے دیا ہے تو دوسری طرف “ووٹ کو عزت دو” کے پھولے ہوئے غبارے کی ساری ہوا نکال کر فالتو ربڑ کے بے ترتیب ٹکڑوں کو مطالعہ پاکستان کے ڈسٹ بن میں پھینک دیا گیا ہے ۔ شہباز شریف نے اپنے پہلے دور وزارت اعظمی کے دوران اپنی مثالی کارکردگی اور بےثمر محنت سے ن لیگ کو ملک کی سب سے غیر مقبول سیاسی جماعت بنا کر رکھ دیا تھا۔ستم ظریف کے خیال میں شہباز شریف کی یہی نالائقی اور سرعام اقوام عالم سے شرمائے بغیر بھیک مانگنے کی ادا اور اہلیت اسٹیبلشمنٹ کے دل میں تیر ہو گئی ہے۔ نوازشریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کا جھانسہ دے کر اور یہ باور کروا کر کہ پوری قوم دیدہ و دل فرش راہ کئے اپنے مفرور قائد کی منتظر ہے ۔اسٹیبلشمنٹ نے انتخابات میں فیصلہ کن کامیابی کا عندیہ بھی دے رکھا تھا۔پھر نواز شریف سے جلسے بھی کروائے گئے ۔اگر نواز شریف کو کچھ نہیں بتایا گیا تو وہ یہ بات تھی کہ ان کے ساتھ صرف ہاتھ نہیں ، پاوں بھی ہو چکا ہے۔پھر چشم فلک نے دیکھا کہ الیکشن کی رات دو تہائی اکثریت کی بجائے عبرت ناک شکست نے سبھوں کے منہ لٹکا کر رکھ دیئے۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اسٹیبلشمنٹ کے ماہر جادوگر اپنا منتر ترتیب دیتے اور منہ میں ہوا بھر کر پھونک دیتے ہیں۔2018 ء میں “سلیکٹڈ” کو وزیراعظم بنانے کا الزام سہنے والوں نے شرمائے اور گھبرائے بغیر اب کی بار ” ریجیکٹڈ” کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا ۔جادونگری کے جادوگروں نے ہارے ہوئے جواریوں کو جتوا تو دیا ،لیکن اس طرح کہ جیتنے والوں کے چہروں سے شرمندگی اور خجالت کی سیاہی نہ اتر سکی۔اب نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بنتا بھی تو کس منہ سے بنتا۔پھر اسی ٹوٹے ہوئے دل کے بقول شہباز شریف”معمار پاکستان ” یعنی نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیر اعظم کے لیے نامزد کیا، قومی اسمبلی میں سب سے پہلا ووٹ بھی دیا ، اور کمال مہارت سے گریہ ضبط کیا۔ وزیراعظم بن چکے شہباز شریف نے برادر بزرگ کے گھٹنے چھونے کی اداکاری کرتے ہوئے علامتی طور پر جتا اور بتا بھی دیا کہ اب بھائی جان کے آرام کی عمر شروع ہو چکی ہے ۔ ن لیگ کے اب صرف قائد ، نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بننے کی آرزو دل میں چھپائے شہباز شریف کے وزیراعظم بن جانے کے بعد پارلیمنٹ سے سیدھے مری پہنچ گئے۔مری واقعتاً آرام کی جگہ ہے ۔یہاں کھڑکی کے باہر پہاڑیاں ، درخت ، پرندے اور تیرتے بادل نظر آتے ہیں ۔یہاں فضا کی رطوبت آنکھوں کی نمی کو نمایاں نہیں ہونے دیتی۔ اب غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق باؤجی ملکہ پکھراج کی آپ بیتی بہ عنوان ” بےزبانی زباں نہ ہو جائے ” کے صفحات کو پڑھنے کے انداز میں کھول کر کھڑکی سے باہر آسمان کو دیکھتے رہتے ہیں۔ یا پھر یو ٹیوب پر آج کل کا اپنا پسندیدہ گیت ” بابو جی دھیرے چلنا، پیار میں ذرا سنبھلنا ، بڑے دھوکے ہیں اس پیار میں ۔۔۔۔” سنتے رہتے ہیں ۔ستم ظریف کے ایک مخبر نے بابوجی کی آنکھوں میں تیرتی نمی کی اطلاع بھی دی ہے۔کہتا ہے آج بھی باؤ جی أنکھوں کی نمی کو رومال کی بجائے قمیض کے کف سے خشک کرتے ہیں ۔
0