ہفتہ وار کالمز

تماشا مرے آگے!

پاک و ہند کی مختصر جنگ کو بھی دو ماہ سے زائد ہو گئے، ابھی اس کی دھول اڑ ہی رہی تھی کہ ایران اسرائیل جنگ شروع ہو گئی، پاک و ہند جنگ تیزی سے شروع ہوئی اور بہت تیزی سے بند بھی ہو گئی ، اس بار لاہوریوں کو ڈانگیں پکڑ کر واہگہ بارڈر تک جانے کا موقع ہی نہ ملا، جیسے ہی رافیل گرا ایک فون آیا اور دو آزاد اور خود مختار ممالک نے ہتھیار رکھ دئے، اتنی تابعداری کبھی دیکھی نہیں گئی، بھارت کہتا رہا کہ کسی کے حکم پر جنگ بند نہیں کی مگر آج ٹرمپ نے نائو کے فورم سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے سولہویں بار اس بات کا اعادہ کیا کہ پاک و ہند جنگ ہم نے بند کرائی، بہر حال یہ موضوع ابھی گرم ہے اور بات یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس کار ہائے نمایاں پر ٹرمپ کو امن کے نوبل پرائز سے نوازا جائے، ادھر ایران اسرائیل جنگ شروع ہو گئی اسرائیل نے بلا اشتعال ایران پر حملہ کر دیا اور الزام یہ لگایا کہ ایران جوہری بم بنانے کے قریب ہے کبھی کہا گیا کہ دو ہفتوں کی دوری پر ہے کبھی کہا گیا چند دنوں کی دوری پر ہے، نیتن یاہو یہ بات 1992 سے کر رہے ہیں اب امریکی ٹی وی پر ان کا مذاق بھی اڑایا جا رہا ہے، جو حقائق ہیں وہ یہ ہیں کہ ایران نے کبھی نہیں کہا کہ وہ ایٹم یم بنائے گا ایران نے عالمی جوہری معاہدات پر دستخط بھی کر رہے ہیں، عالمی جوہری ادارے کے اہل کاروں کے معائنے کے لئے ایران کی جوہری تنصیبات کے دروازے کھلے ہیں اس کے علاوہ روحانی لیڈر خامنہ ای کا ایک فتوی بھی موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایٹم بم بنانا مستحب نہیں ہے، مجھے یہ فتوی ترکی کے اس عالم دین کے فتوے سے مماثل لگا جس نے چھاپہ خانے کو حرام قرار دیا تھا، مولوی کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کا چھوٹا پن نہیں جاتا، ساری زندگی کوہِ حرا، صفا و مروی کی بات کرنے والا مٹی کے ایک تو دے کے پیچھے نہیں دیکھ سکتا، اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو خبروں کا ایک طوفان امڈ آیا، کان کھڑے ہو گئے کہ اب ایران کا جواب کیا ہوگا، ایران نے اسرائیل پر الفتح میزائیلوں سے حملے کا موثر جواب دیا اور دنیا کو حیران کر دیا، پھر خبر آئی کہ ایران نے سپر سانک میزائیل بھی استعمال کیے اور خیبر میزائیل بھی ، ایران نے حیرت انگیز طور پر اسرائیل کو دفاعی نظام بری طرح تتر بتر کر دیا، ہمارا خیال تھا کہ عالمی طاقتوں کو امید شائد یہی تھی کہ اسرائیل ایران کو غزہ بنا دے گا مگر ادھر اسرائیل کے اپنے لینے کے دینے پڑ گئے، عالمی طاقتیں اسرائیل کی مدد کو نکل آئیں ، ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت نہیں ہو رہی تھی مگر یہ ضرور کہا جا رہا تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، اقوام متحدہ ایک مجہول ادارہ بن کر رہ گیا ہے جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے مگر سکریٹری جنرل گوتیریس مسلسل جنگ بندی کی بات کرتےرہے مگر ان کی آواز کسی نے سننی تھی نہ سنی، سلامتی کونسل کے اجلاس بھی ناکام سلامتی کو نسل ایک DEBATING CLUB بن کر رہ گیا ہے جس کی قرار دادوں کی وقعت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں اور سلامتی کونسل میں جو تقاریر ہوتی ہیں ان کی اہمیت اتنی ہی ہے کہ وہ MEDIA CONSUMPTION کے لئے ہوتی ہیں اور رات سات بجے کے بعد الیکٹرانک چینل کے نابالغ دیسی دانشور بال کی کھال نکالتے ہیں اور ان کی زبانی کو ششوں سے بحرہ مردار میں روز بہت سے جزیرے نمودار ہوتے ہیں اور صبح تک پھر ڈوب جاتے ہیں، ایران کی فضائیہ نہ ہونے کےبرابر ہے اس لئے فضائی حدود میں اسرائیل کو سبقت حاصل تھی اور اس نے جہاں چاہا بمباری کر کے اپنے اہداف کو تحس نحس کر دیا، اسرائیل نے اپنی سرزمین پر اتنی بر بادی پہلی بار دیکھی تھی اسرائیلیوں کو یقین تھا کہ ان کا دفاعی نظام UNBREAKABLE ہے مگر جب یہ بھرم ٹوٹا تو عام شہری پر اس کے اثرات مرتب ہوئے اسرائیلی اتنے برے لوگ نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں ان لوگوں نے نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے کئے ، جنگ کی مخالفت کی ، ایران جنگ کی مخالفت بھی کی جو بڑا مظاہرہ نیو یارک میں ہوا وہاں بھی ORTHODOX JEWS نے بھرپور شرکت کی اور امن کے لئے آواز اٹھائی، بہر حال اسرائیل میں جو تباہی ہوئی اس کو دیکھ کر عام اسرائیلی کے نکتہ نظر میں تبدیلی ضرور آئی ہے جس کا اظہار کسی طور آنے والے دنوں میں ہو جائیگا دنیا کا تمام میڈیا اس دوران ٹرمپ کے بیانات سے سجا رہا، ٹرمپ نے اپنے آپ کو UNPRICTIBLE ثابت کیا، جو بیان صبح دیا وہ شام کو بدل دیا، پچھلی ایک صدی میں اتنا متلون مزاج سیاست دان نہیں دیکھا گیا ہمارا تجزیہ یہی ہے کہ حالات جس تیزی سے بدل رہے تھے ٹرمپ ان حالات میں اپنے آپ کو ADJUST کرنے کے لئے وقت لے رہے تھے اور مناسب سنجیدہ فکر سے بہت دور تھے انہوں نے بہت چاہا کہ دھمکیوں سے کام چل جائے مگر ان کو بلآخر بڑا فیصلہ کر نا پڑا، مگر اس فیصلے سے اس قدر گرد اُٹھی کہ منظر دھندلا گئے ایسا لگ رہا تھا کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ ہو نہیں رہا، اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہو نہیں رہا، کبھی کبھی یہ خیال بھی جاں گزیں ہوا کہ یہ نظروں کا دھوکہ ہے ٹرمپ نے جس حملے کا ذکر کیا وہ بظاہر تو بہت HORRIBLE معلوم ہوتا ہے پہلے ٹا ماہاک میزائیل سے پتھریلی زمین کو سافٹ کرنا اور پھر B52 بمبار سے چھ ہزار پاؤنڈ کا بم کا اپنے ہدف کو چھونا، یہ تمام کاروائی ایک بڑے شہر کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لئے کافی تھی لطف یہ کہ خبر ٹرمپ نے ایک TWEET کر کے دی، حملے کے شواہد موجود نہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سفارت کاری کے ذریعے اس حملے کی اطلاع ایران کو دے دی گئی تھی، متحارب قوتوں کے درمیان ایسی سفارت کاری کی مثال کبھی نہیں دیکھی امریکہ کہتا ہے کہ فردو ایٹمی تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئیں اور ایران کا کہنا کہ ساٹھ فی صد تک افزودہ یورینیم ایک محفوظ نا معلوم مقام پر منتقل کر دی گئی تھی ایک خبر جو ٹی وی اسکرین کی زینت بنی کہ حملے سے قبل روسی ایٹمی ماہرین ایران پہنچ چکے تھے ہمارا خیال ہے کہ ایک اہم روسی اہل کار کا یہ بیان بہت اہم تھا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار منتقل کئے جا سکتے ہیں ایک TURNING POINT تھا اور بہت ممکن ہے کہ اسرائیل کی حفاظت کے لئے ایک پلان تیار کر لیا گیا ہو، ایران نے قطر پر جو حملہ کیا اس کے بارے میں بھی کہا جا رہا تھا کہ ایران نے اس حملے کی خبر امریکہ کو دے دی تھی، ایسا کبھی نہ دیکھا نہ سنا مگر ٹرمپ آج ناٹو کے اجلاس کے بعد اس حملے کو ہیروشیما اور ناگاساکی حملوں سے مشابہ بتا رہے تھے۔امریکی میڈیا کے بہت معتبر ٹی وی چینلز نے ٹرمپ کے ان دعوؤں سے اختلاف کیا ہے ان میں CNN کے علاوہ کئی اور چینل نے بتایا ہے کہ فرد و ایٹمی تنصیبات تباہ نہیں ہوئی اور حکومت کے پاس ان کے ثبوت موجود نہیں جس پر ٹرمپ نے برہمی کا اظہار کیا ہے اور ان اداروں کو صحافت کا گند قرار دیا ہے ان میں نیو یارک ٹائمنر بھی شامل ہے، یہ تو سچ ہے کہ ٹرمپ ایک OUTSIDER ہیں وہ با قاعدہ سیاست دان نہیں ہیں ان کا طرزِ سیاست بہت منفرد ہے تاریخ میں شاید ان کا ثانی نہ ہو یہ سیاست اشتباہات سے بھری ہوئی ہے اس میں تندی اور تیزی ہے تجزیہ کار یہی کہہ رہے ہیں کہ اس قسم کی سیاست سے امریکہ کو نقصان ہوگا ٹرمپ ایک مثال قائم کر جائینگے اور آنے والے سیاست دان ان کے نقش قدم پر چل کر اقتدار تک پہنچنا چاہیں گے اور سیاست کی DEPTH ختم ہو جائیگی، ٹرمپ نے اپنے بیانات سے بہت سی شخصیات کو مشکوک بنادیا ہے ایک کارٹون دیکھا جس میں ٹرمپ اور خامنہ ای کو ہاتھ ملاتے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتے دکھایا گیا ہے کبھی رجیم چینج کی بات کی جا رہی تھی اور اب کہا جا رہا ہے کہ رجیم چینج سے افرا تفری پیدا ہوتی ہے، اعتبار نے بے اعتباری کا لباس پہن لیا ہے، شاید وہ ہوا ہی نہیں جس کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اور وہ سب کچھ ہو چکا ہے تو نظر کیوں نہیں آیا، جنگ میں سب سے پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے، سچ کا قتل ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ امریکہ، اسرائیل، ایران، قطر، روس کوئی ایسا کھیل کھیل رہے ہیں جس میں میدان میں کھلاڑی تو ہیں گیند غائب ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button