ہفتہ وار کالمز

ایران اسرائیل جنگ بندی کا اعلان

تاریخ عالم میں ایسے ممالک مشکل سے ملیں گے جنہوںنصف صدی تک خم ٹھونک کر ایک بڑی عالمی طاقت کا مقابلہ کیا ہو۔ ایرانی عوام نے1979 میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب برپا کرتے وقت مرگ بر امریکہ کا نعرہ لگایا تھا۔ آج چھیالیس برس بعد بھی ایران اسی دشمن سے نبرد آزما ہے اور اسی نعرے پر قائم ہے۔ مگر دنیا ناقابل یقین حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ کی اکلوتی نیوکلیئر پاور بن کر پورے خطے میں خوف وہراس پھیلا رہا ہے۔ گذشتہ بیس ماہ میں اس نے غزہ میں پچپن ہزار نہتے شہری ہلاک کرکے وحشت اور سفاکی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ لبنان اور شام پر بلا جواز سینکڑوں حملے کرنے کے بعد گزشتہ بارہ روز سے اس نے ایران کے شہروں اور جوہری تنصیبات پر فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ایران نے اسرائیل پر مقدور بھرجوابی حملے کئے مگر امریکہ کے جدید ترین میزائل ڈیفنس سسٹم کے ہوتے ہوے وہ دشمن کو خاطر خواہ نقصان نہ پہنچا سکا۔ ابھی یہ جنگ جاری تھی کہ امریکہ نے اتوار کے روز ایران کی تین نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کر کے انہیں مکمل طور پر تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ اصفہان اور نتانز کی جوہری لیبارٹریاں زمین کے نیچے زیادہ گہرائی میں نہ ہونے کی وجہ سے آسان اہداف تھے مگر فوردو کی جوہری تنصیب جو کہ ایک پہاڑ کے نیچے اَسی سے نوے میٹرزکی گہرائی پر واقع ہے کو تباہ کرنا آسان نہ تھا۔ امریکی میڈیا کے مطابق ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب امریکہ کے چھ B–2 سٹیلتھ بمبار طیاروں نے اس جوہری تنصیب پر ایک درجن بنکر بسٹر بم گرائے۔ ان میں سے ہر ایک کا وزن 30,000 پائونڈ تھا۔ اس حملے کے لیے امریکی طیارے ریاست مزوری کی Whiteman Airforce Baseسے اٹھارہ گھنٹے کا سفر طے کر کے آئے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اس مشن کے مکمل ہوتے ہی اعلان کیا کہ فوردو کی نیوکلیئر تنصیب کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیاہے۔ اسکے چند گھنٹے بعد نائب صدر جے ڈی وینس نےNBC ٹیلیویژن کے Meet The Pressٹاک شومیں کہا کہ ہم نے ایران کا نیوکلیئر پروگرام تباہ کر دیا ہے مگر ایک سوال کے جواب میںانہوںنے یہ بھی کہا کہ یہ پروگرام اب خاصی تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ابتدائی تجزئے کے مطابق فوردو کی نیوکلیئر عمارت کو امریکی حملے میں شدید نقصان پہنچا ہے مگر یہ مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئی۔
امریکہ میں سٹیلائٹ کے ذریعے تصویر کشی کرنے والی کمپنی Maxar Technologies نے کہا ہے کہ اس حملے کے بعد فوردو عمارت کے ارد گرد تباہی کے آثار دیکھے گئے ہیں مگر لگتا ہے کہ زیر زمین عمارت کے بڑے حصے کو نقصان نہیں پہنچا۔ فوردو تباہ ہوا یا نہیں ‘ یہ قضیہ ابھی طے نہیں ہوا تھا کہ ایران نے قطر میں امریکی فوجی اڈے پر حملہ کر کے اسے شدید نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا۔ اسکے فوراًبعد قطری وزارت دفاع نے کہا کہ العدید ایئر بیس پر ایران کے میزائل حملے کو انکے فضائی دفاعی نظام نے ناکام بنا دیا ہے۔ یہ حملہ کامیاب تھا یا ناکام یہ بحث ابھی جاری تھی کہ پیر کے روز صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ اسرائیل اور ایران میں جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب دنیا بھر میں امریکہ اور ایران کے درمیان ایک طویل اور خطرناک جنگ کی تباہ کاریوں پر خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ مغربی ماہرین کہہ رہے تھے کہ ایران نے اگر آبنائے ہرمز کو بند کر دیا تو تیل کے بیرل کی قیمت ستر ڈالر سے بڑھ کر ایک سو دس ڈالر ہو جائیگی۔صدر ٹرمپ کے اس اعلان کے چند گھنٹے بعد ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہاکہ اسرائیل نے جارحیت روک دی تو ایران کوئی جوابی کاروائی نہیں کرے گا۔ ایکس(ٹویٹر) پر جاری کئے ہوے اس بیان میں عباس عراقچی نے کہا کہ ابھی تک جنگ بندی یا فوجی کاروائیوں کے خاتمے پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ امریکی میڈیا کے مطابق قطر کی حکومت نے اس جنگ بندی میںایک ثالث کے طور پر اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ اسرائیل نے اس بارہ روزہ جنگ میں اصفہان اور نتانز کی جوہری تنصیبات پر مسلسل فضائی حملے کر کے انہیں شدید نقصان پہنچایا ہے۔فوردو کی زیر زمین عمارت اگر مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئی تو اسکے کئی حصے تباہ کر دئے گئے ہیں۔ اسکے مقابلے میں ایران اسرائیل کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکا۔ ایسے میں سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا جنگ بندی کو قبول کرنا انکی حکومت پر کیا اثرات مرتب کرے گا۔ ایران کی حکمران اشرافیہ اور خاص طور پر پاسداران انقلاب میں ایسے انتہا پسندوں کی کمی نہیں جو اسرائیلی حملوں میں چوٹی کی عسکری قیادت اور اہم نیوکلیئر سائنسدانوں کی ہلاکت پر بر افروختہ ہے۔ مگر امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ایرانی عوام خامنہ ای کے اس فیصلے کی مخالفت کرنے کی بجائے سکھ کا سانس لے گی۔ ایران کی حکومت اگر امریکہ کیساتھ متوقع مذاکرات میں قابل ذکر سہولتیں لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ ایران کے لیے نیک شگون ہو گا۔ جولائی 1988 میں رہبر انقلاب آئت اللہ روح اللہ خمینی نے عراق سے جنگ بندی کے معاہدے کوبا دل ناخواستہ قبول کرتے ہوے کہا تھا کہ یہ زہر کا پیالہ پینے والی بات ہے مگر اپنے ملک کی بقا کے لیے اسے پینا پڑے گا۔ اس فکر انگیز اور حکیمانہ بیان کے 37 برس بعد آئت اللہ خامنہ ای بھی اسی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ انہوں نے ایک سپر پاور اور ایک علاقائی طاقت سے بیک وقت نبرد آزمائی سے گریز کر کے اپنے ملک کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔ اس جنگ بندی پر اگر عملدرآمد ہوتا ہے اور اسرائیل اپنی جارحانہ کاروائیوں کو لگام دیتا ہے تو اسکے پورے خطے پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ اس اعتبار سے آئت اللہ خامنہ ای نے مشرق وسطیٰ کو امریکہ کی ایک نئی نا تمام جنگ کا ایندھن بنانے سے بچا لیا ہے۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button