شوالک تو بے بر گ و بار پہاڑ ہے!

اپنے گھر کے ڈوبنے کا منظر کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ گھر جسکی دیواروں میں اینٹیں اور گارااسکے مکینوں نے اپنے ہاتھوں سے لگایا ہو۔وہ اب اسی گھر کی چھت پر بیٹھ کر اسکے صحن اورکمروں میں سیلاب کے پانی کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کی بے بسی اور محرومی کا اندازہ ان دو چار چیزوں سے لگایا جا سکتا ہے جو انکے ارد گرد پڑی ہیں۔ ٹی وی ‘ پنکھا‘صندوق اور بسترے۔ یہ لوگ یہی دعا مانگ رہے ہوں گے کہ یہ سیلاب انہیں بھی اپنے ساتھ نہ لے جائے۔ جب سب کچھ لٹ جائے تو پھر زندگی کی دعا ہی مانگی جاتی ہے۔ اس دعا کے بارے میں شاعرِ فطرت منیر نیازی نے کہا ہے؎
کیا باب تھے یہاں جو صدا سے نہیں کھلے
کیسی دعائیں تھیںجو یہاں بے اثر گئیں
صر صر کی زد میں آئے ہوئے بام و در تو دیکھ
کیسی ہوائیں کیسا نگر سرد کر گئیں!
جب رستے‘ پگڈنڈیاں‘ کھیت اور کھلیان سب کچھ پانی میں بہہ جائے تو پھر کس کی راہ دیکھی جائے۔گھر کی چھت پر بیٹھے ماں باپ اور بچے۔ سب سہمے ہوئے۔ اوپر گرجتا برستا آسماں اور نیچے تُندو تیز پانی۔ ڈوبتا سورج اور شام کے سائے۔ سرسراتی ہوا اور درختوں کی بھیگی ٹہنیاں۔ یہ سب کچھ ان تصویروں میں تھا جو دنیا بھر میں دیکھی جا رہی تھیں۔ یہ کلپ اور یہ تصویریں ہم ہر دو تین سال بعد مون سون کے موسم میں دیکھتے ہیں۔ اب تو یہ ویران شامیں اور خوفزدہ راتیںبڑی مانوس سی لگتی ہیں۔ بالکل ایسے جیسے منیر نیازی نے انہیں اپنے بچپن میں کئی بار دیکھا تھا اور پھر کوہ شوالک کے دامن میں اپنے گائوں شکار پور سے ہجرت کرنے کے بعد اس نے ان اُداس رتوں کو کئی مرتبہ اپنی دلنشیں نظموں میں بیان بھی کیا تھا۔ ڈھیر ساری ان نظموں میں سے ایک کا عنوان ہے ’’برسات‘‘ لکھتے ہیں۔
آہ ! یہ بارانی رات۔
مینہ‘ ہوا‘ طوفان‘ رقصِ صاعقات ۔۔۔شُش جہت پر تیرگی اُمڈی ہوئی
ایک سناٹے میں گم ہے بزم گاہِ حادثات!
آسماں پر بادلوں کے قافلے بڑھتے ہوئے۔۔۔۔۔اور مری کھڑکی کے نیچے کانپتے پیڑوں کےپات
یہ منیر نیازی کے مجموعہ کلام’’ تیز ہوا اور تنہا پھول ‘‘ کی پہلی نظم ہے۔ درختوں‘ جنگلوں‘ چڑیلوں‘ پہاڑی ندی نالوں اور آبشاروں کے اس دیس کی یاد میں لکھے ہوے گیتوں‘ نظموں اور غزلوں پر مشتمل اس شعری مجموعے کا دیباچہ اشفاق احمد نے دل کو چھو لینے والے الفاظ میں لکھا ہے۔ یہاںیہ ذکر شعرو ادب پر گفتگو کے لئے نہیں بلکہ اس لیے کیاہے کہ اسکا گہرا تعلق اس برگ و باراں سے ہے جو ہردو تین سال بعد ہمارے دیہات بہا لیجاتا ہے اور شہروں کو ڈبو دیتا ہے۔ اشفاق احمد کے اس دیباچے کا عنوان ہے’’ سر کہسار‘‘ اسمیں لکھا ہے ’’ کوہ شوالک سے اگرجنگل اس بیدردی سے نہ کاٹے جاتے تو یہاں بھی گھٹائوں کا وہی رنگ ہوتا جو شمال کی گھٹائوں کا ہوتا ہے۔ جب سُرمئی اور دُھلے بادل آگے بڑھتے‘ برف پوش چوٹیوں اور شجر بار ترائیوں سے ٹکراتے اور وادی میں جل تھل ہو جاتا۔لیکن شوالک تو بے برگ و بار پہاڑ ہے ۔ اسکی چوٹیوں پر ٹھنڈک کہاں یہاں تو خود تبخیر کا عمل جاری ہے۔ ‘‘ منیر نیازی کی بیشتر شاعری شکار پور کے اجڑنے کا نوحہ ہے۔ یہ درد بھری داستاں انھوں نے لگ بھگ نصف صدی پہلے لکھی تھی۔ یہ آج بھی اتنی ہی سچ ہے جتنی کہ اسوقت تھی۔ ہم نے بھی درخت کاٹ کاٹ کر اپنی دھرتی کو ایک بے برگ و بار پہاڑ بنا دیا ہے۔ کوہ شوالک کی طرح ۔
آج ہمیں یاد دلایا جا رہا ہے کہ چین‘ جاپان‘ یورپ اور امریکہ کب کے ان منہ زور سیلابوںکے آگے بند باندھ چکے۔ ان لوگوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ڈیم اور آبی ذخائر بنا کر اپنی سرزمین کو ہمیشہ کے لیے قدرتی آفات سے محفوظ کر لیا۔ سیلاب اب بھی وہاں دستک دیتے ہیں مگر انسان کی بنائی ہوئیں دیواروں سے سر ٹکرا کر لوٹ جاتے ہیں۔ بادل وہاں بھی پھٹتے ہیں اور گلیشئر وہاں بھی ٹوٹ کر بہتے ہیں لیکن انکے راستوں میں انسانی آبادیاں نہیں ہوتیں‘ کھلے راستے ہوتے ہیں۔ وہی راستے جن سے وہ ہر سال گذرتے ہیںاور انہیں روکا نہیں جاتا۔ ذہین لوگوں نے بہت پہلے یہ راز پا لیا تھا کہ یہ دنیا صرف انسان کی ملکیت نہیں ‘ یہاں چرند پرند‘ جانور اور کیڑے مکوڑے بھی رہتے ہیں۔ یہاں سیلاب‘ طوفان اور دیگر قدرتی آفات کا گذر بھی ہوتا ہے۔ ان میں سے جسے تسخیر کیا جا سکتا ہے اسے کر لیا جائے اور طاقتوروں کے ساتھ نباہ کیا جائے۔ ہم نے فاتح عالم بن کر ہر ہمسائے سے نبرد آزمائی کی۔ اسکاانجام ہمارے سامنے ہے۔ ہر دو سال بعد ہم سنتے ہیں کہ اتنا شدید سیلاب پہلے کبھی نہیں آیا۔ اس سال کا شدید سیلاب بھی بو نیر‘ شانگلہ’ سوات‘ مانسہرہ اور پشاور سے لیکر پنجاب کے دیہاتوں اور شہروں میں تباہی مچانے کے بعد اب سندھ میں غیض و غضب ڈھا رہا ہے۔ صوبائی حکومتیں بڑے زور و شور سے ایک مر تبہ پھر ڈیم اور آبی ذخائر بنانے کے وعدے وعید کر رہی ہیں۔ وفاقی حکومت نے بھی اگلے سال بہتر منصوبہ بندی کا یقین دلا یا ہے۔ ایک بات ہمیں برسوں پہلے حبیب جالب نے بھی کہی تھی۔ اسے یاد کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
وہ جس کی روشنی کچے گھروں میں بھی اترتی ہو ۔۔۔۔۔ نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں۔