ہفتہ وار کالمز

افراتفری کا موسم

شدید گرمی کی صعوبتوں کو نسل در نسل جھیلنے کہ بعد میں اور میرے رفقائے زندگی بڑھاپے کی نوعمری میں قدم رکھ چکے ہیں اور جدید میسر سہولتوں سے آراستہ ہونے کا باوجود بھی ناشکرے سے بنے شکایتوں کا پسینہ دوسروں کو دکھانے سے باز نہیں آتے اس کی وجہ گرمی کی شدت نہیں بلکہ گرمی میں بجلی کا استعمال بڑھ جانے سے جس انداز کے بل واپڈا کی جانب سے عوام الناس کو بھیجے جاتے ہیں اُن سے بدن کا درجہ حرارت اور بڑھ جاتا ہے اور معیشت کی اس گرمی سے زیادہ تر لوگ واپڈا والوں کو ہی کوستے ہیں حالانکہ یہ جانتے ہیں کہ بجلی کے نرخ ہر سال مالیاتی بجٹ میں طے کرنا حکومت کا کام ہوتا ہے ادارے تو اُن پر عمل پیرا ہو کر اپنی فرماں برداری کی تنخواہ کو حلال کرتے ہیں گو کہ معاشی بدحالی سے تنخواہیں بھی اخراجات کا وزن اُٹھانے سے قاصر ہوتیںہیں تو زمانے کے یہ شرفاء کسی مانگنے کی بجائے بالائی آمدن پر ہی اکتفا کر لیتے جو اُن کی نسلوں کو بھی سنوار دیتی ہے یاد رہے کہ بالائی آمدن کے مواقع چھوٹے اہلکار سے لے کر بڑے منصب والے کے بھی موجود ہوتے ہیںجن میں وزراء کرام کا بھی حصہ موجود ہوتا ہے بات بجلی کی کرتے ہوئے لفظی آوارہ گردی میں اوپر کی آمدن پر چلا گیا معافی چاہتا ہوں بات بجلی کی کر رہا تھا کہ گرمی کی شدت وغیرہ کے عادی لوگ ہیں ہم گرمی برداشت کر لیتے ہیں مگر اس گرمی میں واپڈا کی جانب سے جو بل عوامی سطح پر موصول ہوتے ہیں اُن میں درج مضحکہ خیز ،غیر ضروری ٹیکسسز بندے کے ہوش اُڑا دیتا ہی ہے میں نے کبھی ذاتی طور پر بجلی کے بل کو غور سے نہیں دیکھا بس بل کی قیمت دیکھی اور جمع کرادی لیکن بھلا ہو میرے عزیز دوست جناب جاوید صاحب کا جس نے بجلی کے بل میں درج تمام ٹیکسوں کی تفصیل مجھے ارسال کی تو پتہ چلا کہ حکومت جن شرفاء سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہتی تو اُس کا بوجھ بجلی ،گیس پٹرول پہ ڈال کر عوام سے بڑی آسانی سے وصول کر لیتی ہے جن میں حکومتی قرضے بھی شامل ہیں جو عوامی بھلائی کے نام پر لیتے تو ہیں مگر اُن سے کبھی بہتری کی کرن پھوٹتے نہیں دیکھی یو ںسمجھ لیں کہ جو قرض حکومت لیتی ہے اُسے عوام نے ہر صورت ادا کرنا ہے بل میں لگے ٹیکسوں کی تفصیل دیکھ کر اپنے معاشی ماہرین کی اہلیت کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ طبقہ ملک کو دستیاب وسائل سے تو بہتر نہیں کر سکتا مگر انھیں بیرونی قرضوں سے اور بے جا ٹیکسوں کی بھرمار سے خوشی ہوتی ہے کہ بیشعور عوام جنھیں اپنا قائد چننا نہیں آتاجو سابقہ دھوکے کھا کے بھی نئے دھوکے کے بے چینی سے منتظر ہوتے ہیں وہ ان ٹیکسوں کو ادا تو کریں گے مگر انھیں جاننے کی باز پُرس نہیں کریں گے یوں کہہ لیں کہ ہم دوائی کا بندوبست تو کرتے ہیں مگر بیماری کی روک تھام کے لئے کوئی قدم نہیں اُٹھاتے ایسا لگتا ہے کہ ہم آنکھوں سے اندھے، سماعت سے محروم اور شعور سے تہی دست قوم ہیں کیونکہ واپڈا والے 200یونٹ بجلی استعمال کرنے کے 3083روپے وصول کرتے ہیں اگر اسی بجلی کا استعمال ایک یونٹ بھی بڑھ جائے تو اسے واپڈا کے ڈریکولاز حکومتی ایماء پر اس کی قیمت 8154روپے کر دیتے ہیںاس ایک زیادتی پر اکتفا حکومت نہیں کرتی وہ اس ایک یونٹ کا ہرجانہ چھ ماہ تک بجلی کے بلوں میں ادا کرنے کا پابند ہو گا میرے خیال میں ایسی سزا تو کسی نشئی بندے کو بھی نہیں دی جاتی جو بجلی کے صارفین کو بھگتنا پڑتی ہے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اس ناانصافی پر احتجاج کرنے والا تو دور کی بات کوئی لفظ کیوں کی ادائیگی کرنے والا ڈھونڈے سے نہیں ملتا بجلی کے بلوں کا ماتم ہر قدم پہ سننے کو ملتا ہے لیکن کسی کو فرصت ہی نہیں کہ وہ کسی منظم پُر امن احتجاج کے لئے باہر نکلے مقصد میرا کسی کو اُکسانا نہیں مگر زیادتی پر آواز نہ اُٹھانا بھی ظلم ہے، بجلی کے میٹر کی قیمت لوگ ادا کر چکے ہوتے ہیں میٹر عوام کی ملکیت ہوتا ہے تو اس کا کرایہ بجلی کے بل میں کیوں ادا کرتے ہیں اور حکومت کس اتھارٹی سے یہ جگا ٹیکس غریب عوام سے لیتی ہے بڑے مقامات سے تو یہ خبر بھی زبان ِ زد ِ عام ہے، اکثر مسجد کے بجلی بلوں میں ٹیلی ویژن کی فیس درج ہوتی ہے اس اندھا دھند لوٹ مار کا سدباب کرنے والے تو حکومت میں ملنے سے رہا ہماری حکومتیں اب اپنے پارلیمان سے بجٹ نہیں بناتیں اُن سے اختیار چھین کر آئی ایم ایف کے حوالے ہے جو اپنے قرضوں کی بر وقت وصولی کے لئے انصاف کو نظر انداز کرتے ہوئے سارے ٹیکسوں کا بوجھ غریب ناتواں عوام کی کمر پر ڈال دیتی ہے آپ ذرا بجلی کے بل میں درج ٹیکسوں پر غور کریں تو حیرت سے ہوش پرواز کرنے لگیں گے، مثال کے طور اگر آپ بجلی کا بل ادا کر دیتے ہیں تو اس پر ٹیکس ،فیول پر ایڈجسٹمنٹ ٹیکس،الیکٹرک سٹی پہ ڈیوٹی ،فیول پرائس پر ایڈجسٹمنٹ ،بجلی کے ادا شدہ یونٹس پر ڈیوٹی ،ٹی وی استعمال نہ کرنے کے باوجود اس کی فیس کیوں اور ماہانہ بل جب ادا کر دیا جائے تو اس کی کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ کس قانون تحت وصول کی جاتی ہے ان زیادتیوں پر خاموشی سے بل ادا کرنے کے باوجود شدید گرم موسم میں بجلی کا گھنٹوں گھنٹوں غائب ہونا کربلا کے پیاسوں پہ کیا گیا یزید جیسا عذاب ہے جو حکومت کی نظراندازی سے طوالت کا شکار ہو کر زندگی کو اجیرن کر رہا ہے اس عذاب ِ مسلسل سے نجات عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے وزیر اعظم پاکستان کو چائیے کہ وہ ان حکومتی زیادتیوں کا نوٹس لیتے ہوئے عوام الناس کو اعتماد میں لیں اور ان مذکورہ ٹیکسوںکا خاتمہ یقینی بناکر انھیں سستی بجلی مہیا کریں ضروری یہ بھی ہے کہ غیر ضروری مراعات جن میں بجلی کے فری یونٹس ،پٹرول و گیس کی ماہانہ سہولتیں وغیرہ کا خاتمہ کریں تا کہ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے خلق ِ خدا کی بہتر خدمت سر انجام سکیں اور ہمارے ملک سے افرا تفری کا موسم کوچ کرے اور اجتماعی سطح پر ہم اپنے اہداف کی جانب رواں رہ سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button