ہفتہ وار کالمز

ساری دنیا ایک طرف ۔۔۔۔

کس نے نہیں سنی وہ کہاوت، کہ خدا غلام بنائے مگر غلام صورت نہ بنائے!
لیکن پاکستان کے سامراجی غلاموں کی فوجِ ظفر موج کو دیکھنے کے بعد اس کہاوت میں اضافہ کرنے کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ خدا غلام بنائے، غلام صورت بھی بنائے لیکن غلاموں کو انا کا مارا ہوا، انا گزیدہ نہ بنائے اسلئے کہ ایسے پاکستانی چھٹ بھیئے اس گنجے کی مانند ہوتے ہیں جسے ناخن مل جائیں تو وہ اپنا ہی سر کھجا کھجاکر لہو لہان ہوجاتا ہے !
وطنِ مرحوم، پاکستان کے انا گزیدہ چھٹ بھیوں کی، جیسا کہ ہم نے کہا، ایک فوجِ ظفر موج ہے تو یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ان انا کے ماروں میں کون سا چھٹ بھیا ایسا ہے جسے سب کا سردار کہا جاسکے۔
ان میں معروف ایک تو یزیدِ وقت، جنرل عاصم منیر ہے جسے نہ فوج میں ہونا چاہئے تھا کہ اس جیسے شورہ پشت سوائے بدنامی اور رسوائی کے اس ادارے سے جس سے وہ وابستہ ہوں اور کچھ نہیں دے سکتے لیکن لگتا ہے اس سے بھی دو ہاتھ آگے وہ چھٹ بھیا ہے جس کا قد بھی چھوٹا ہے، جس کی صورت بھی غلاموں جیسی ہے، جس کی قامت بھی پست ہے لیکن ان سب سے بڑھ کر اس کی کم ظرفی کی وہ نیچ، اوچھی اور عامیانہ حرکتیں ہیں جن کی بنیاد پر بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ فی زمانہ اس سے بڑھ کر اور کوئی دوسرا اس رسوائی کا حقدار نہیں ہے کہ ایک بونا ہے جو اپنے آپ کو پاکستان کی لنکا میں دس فٹ کا سمجھتا ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ ایسا چھٹ بھیا سوائے رسوائی اور بربادی کے ملک کو کچھ اور نہیں دے سکتا !
یہ بونا، یہ چھٹ بھیا، یہ غلام صورت اور سب سے بڑھ کر کم ظرف، غلام فطرت، شخص سوائے محسن نقوی کے اور کون ہوسکتا ہے جس نے اپنے اقوال و افعال سے ملک کو بین الاقوامی برادری میں تضحیک اور جگ ہنسائی کا عنوان بنایا ہوا ہے !
کون پاکستانی ، عام یا دانشور، جانتا تھا اس چھٹ بھیئے کو؟ کس نے سنا تھا محسن نقوی کا نام؟ محسن نقوی اگر عام پاکستانیوں اور خاص طور پہ دانشوروں کے حلقوں میں کوئی معروف تھا تو وہ مرحوم شاعر خوش بیان اور شاعرِ اہلِ بیت (ص) محسن نقوی تھے جن کا کالم اپنی اثر انگیزی اور شعری محاسن کی جلوہ آرائیوں سے بھر پور اہلِ دانش اور اہلِ کلام کیلئے تا قیامت یادگار رہے گا۔
اس کم ظرف محسن نقوی کو تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ امریکہ کے معروف نشریاتی ادارہ، سی این این کا ایک معمولی کارندہ راتوں رات اچانک عمران حکومت کے زوال کے بعد ہوس گزیدہ "مقبوضہ” پاکستان پر مسلط کئے جانے والے نظامِ جبروت میں پہلے پنجاب کا نگراں وزیرِ اعلیٰ بنے گا پھر وہاں سے شہباز شریف جیسے غلامِ سامراج اور رسوائے زمانہ چور کی وزارتِ اعلیٰ میں، جو تمام کی تمام کٹھ پتلیوں پر مشتمل ہے، وزیرِ داخلہ بننے کے ساتھ ساتھ پاکستانی کرکٹ کا بھی ارضی خدا بن بیٹھے گا اور قوم کے سینے پر اسی طرح مونگ دلے گا جیسا کہ ہر کم ظرف کا شعار ہوتا ہے !
لیکن ایک عام پاکستانی، جو ملک کی زبوں حالی کی بڑی تصویر نہیں دیکھ سکتا، یہ سوال کرنے میں حقِ بجانب ہوگا کہ اس غلام زادے محسن نقوی پر ہی یہ الطاف و کرم کا مینہ کیوں برس رہا ہے ؟
تو اس سوال کا جواب اس سادہ لوح پاکستانی کی تسلی کیلئے یہ ہے کہ، میاں، آپ نے وہ کہاوت تو سنی ہوگی، کہ ساری دنیا ایک طرف، جورو کا بھائی ایک طرف !
تو، میاں، پاکستانی قوم کی بدنصیبی کہ پہلے تو وہ ایک معمولی افسر جو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کا تربیت یافتہ بھی نہیں ہے، رسوائے زمانی چوروں کے شریف خاندان سے ساز باز کے نتیجہ میں پاکستان کی بری فوج کا سپہ سالار بن گیا اور پاکستان کو جگت میں رسوا کروانے کیلئے وہ اپنی بیوی کے رشتے کے ایک بھائی، غلام فطرت اور غلام صورت، سامراجی کارندہ، محسن نقوی کو گمنامی کے غار سے نکال کے لایا اور اپنی کٹھ پتلی حکومت میں اسے ایک کلیدی عہدہ پر فائز کردیا۔ بھلا بتاؤ، سوچو، کہ پاکستان کے ساتھ اس سے بڑھ کر اور کیا بھیانک مذاق ہوسکتا تھا ؟
یہ چھٹ بھیا، محسن نقوی، اپنے جیجا جی کی کوتاہ نظر میں ایسا فنکار ، بلکہ کلاکار، ہے کہ وہ اسے صدر ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں بھیجنے کی کوشش میں ہر اس دروازے پر دستک دے آیا جہاں تک اس کی رسائی تھی لیکن تقریب کا دعوت نامہ اس کم ظرف کو نہیں نصیب ہوا۔ لیکن کم ظرف وہی ہوتا ہے جس میں غیرت نہ ہو، شرم و حیا نہ ہو، تو جیجا جی اور سالے نے پھر کچھ غلام فطرت پاکستانیوں سے جو شریف خاندان اور فرعونی جرنیلوں کے گماشتے امریکہ میں آکر آباد ہوگئے ہیں اور چار پیسے انہوں نے کمالئے ہیں ان سے کہا کہ وہ محسن نقوی چھٹ بھیئے کے امریکی دورے کا انتظام کریں اور سارے اخراجات اٹھائیں۔
گماشتے تو گماشتے ہوتے ہیں اور کم ظرف کی ایک بڑی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ صاحبانِ حشم اور اقتدار کی چوکھٹ سے لگے بیٹھے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں کب دروازہ کھلے اور کشکول میں کچھ خیرات ڈال دی جائے!
تو چھٹ بھیا محسن نقوی اس طرح واشنگٹن یاترا پر آیا لیکن پاکستان کے غلام نیوز میڈیا میں یزیدِ عصر نے اس طمطراق سے اپنے سالے کی واشنگٹن یاترا کی خبریں لگوائیں جیسے اس سے بڑھ کر اور کوئی معزز مہمان حلف برداری کی تقریب میں نہ گیا ہو۔ لیکن ہوا یہ کہ یزید کے اس گماشتے تو حلف برداری کی تقریب کے آس پاس بھی پھٹکنے کو نہیں ملا۔ پھر ہمارے سفارت خانے کی کاوشوں سے دو تین سینیٹروں سے چھٹ بھیئے محسن نقوی کی ملاقاتیں کروادی گئیں لیکن قدرت جس کو رسوا کرنا چاہے اسے کہاں عزت مل سکتی ہے !
ہوا یہ کہ جس امریکی قانون ساز سے بھی عاصم منیر کا یہ گماشتہ مل کے آیا اس نے ملاقات کے فوری بعد دنیا کے سامنے یہ مطالبہ کیا کہ عمران خان کو فوری آزاد کیا جائے اسلئے کہ اس کے خلاف جتنے مقدمے بنائے گئے ہیں سب فرضی اور جعلی ہیں!
اس کو کہتے ہیں سنار کی سو اور لوہار کی ایک !
محسن نقوی، سامرجی گماشتہ اور یزیدِ عصر کا چھٹ بھیا، چلا تو تھا لنکا ڈھانے لیکن قدرت نے دنیا کو اسے سرِ بازار رسوا کرکے دکھایا کہ کم ظرف کی اوقات کیا ہوتی ہے !
لیکن یزید پاکستانی اور اس کے کم ظرف گماشتے تو اس کے قائل ہیں کہ دو چار جوتوں سے کوئی رسوا نہیں ہوتا اور سو پچاس کون مارتا ہے!
یہ کم ظرف اس کے بھی قائل ہیں کہ "بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا”۔
سو پاکستان میں حالات اسی ڈگرپہ چل رہے ہیں کہ پاکستان شر پسند جرنیلی ٹولہ کا مفتوحہ اور مقبوضہ ملک ہے جس کے چوبیس کڑوڑ عوام اس یزیدی گروہ کے غلام اور باجگذار ہیں جنہیں کوئی حق نہیں ہے کہ ان کے کسی فعل یا قول پر انگلی اٹھائیں !
ملک کنگال ہورہا ہے، بیچارے عوام کیلئے اپنا اور بال و بچوں کے پیٹ بھرنا کارِ لاحاصل ہوچکا ہے لیکن کٹھ پتلی پارلیمان کی تنخواہوں اور مراعات میں اتنا وتنانہیں بلکہ پورے تین سو فیصد اضافہ، جی ہاں آپ نے درست سنا، تین سو فیصد اضافہ کردیا گیا ہے!
لیکن پوری دنیا تو یزیدیوں کی غلام یا باجگذار نہیں ہے، اور یہ آزاد دنیا نہ اندھی ہے نہ بہری اور گونگی۔ وہ سب دیکھ رہی ہے، سن رہی ہے اور کہنے پر بھی آزاد ہے کہ پاکستان میں فسطائیت کا جو نظامِ جبر مسلط اور رائج ہے وہ بین الاقوامی معیارات اور قوانین کے سراسر منافی ہےاور ان معاہدوں کی بھی نفی ہے جن میں پاکستان بھی فریق ہے!
ان دنوں یورپی یونین کے انسانی حقوق کے کمیشن کے سربراہ پاکستان کے ہفتے بھر کے دورہ پر آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے برملا یہ اعلان کیا ہے کہ پاکستان کی یورپین منڈیوں میں جو برآمدات ایک بڑی سہولت، یعنی جی پی ایس-پلس کی رعایت کے ساتھ اپنے لئے جگہ بناتی ہیں تو اس سہولت کو پاکستانی حکومت یہ نہ سمجھے کہ اسے ہمیشہ دستیاب رہے گی !
ان کو یہ برملا تنبیہ کرنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ یورپی یونین کے ممالک اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ پاکستان میں کس بے حیائی اور بے شرمی کے ساتھ جمہوریت کا جنازہ نکال دیا گیا ہے لیکن اس پر بھی یزیدی ٹولہ مطمئن نہیں ہے بلکہ یورپی یونین کے اس عہدہ دار کی اسلام آباد میں موجودگی کے باوجود کٹھ پتلی حکومت نے یزید کے طابع فرمان پارلیمان سے الیکٹرونک میڈیا پر مزید قدغنیں لگانے کیلئے ایک کالا قانون منظور کرواکے اسے چور صدر مملکت، آصف زرداری کی منظوری کے بعد نافذ بھی کردیا ہے !
ایسی ناعاقبت اندیشی کیلئے وہ کہاوت ہے، کہ آ بیل مجھے مار!
اب اس صورتِ حال میں اگر یورپی یونین نے، جس کا جی ایس پی-پلس پر نظر ثانی کا اجلاس جون کے مہینے میں ہونے والا ہے، پاکستانی یزیدیوں کے اندازِ حکمرانی اور تکبر کو دیکھتے ہوئے پاکستان کیلئے اس سہولت کو ختم کرنے کا فیصلہ کردیا تو سوچئے کہ پاکستان کی برآمدات اور معیشت کیلئے وہ کیسا سنگین وارہوگا جس سے سنبھلنے کی گنجائش یا سکت پاکستان کی بیمار اور مریض معیشت میں کہیں نظرنہیں آتی !
لیکن یزید وقت یہ سمجھتا ہے کہ اس کی خدائی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کا نظامِ جبر یونہی پائیدار رہے گا اسی لئے اس کی توجہ کا تمام تر ہدف وہی ہے کہ عمران خان کسی صورت قید سے رہا نہ ہونے پائے۔ باقی ملک جائے بھاڑ چولہے میں۔ قوم اگر بھوک سے مرتی ہے تو مرجائے لیکن اس کے حلوہ مانڈے میں کوئی فرق نہیں آنا چاہئے !
اس صورتِ حال میں عمران کا یہ فیصلہ سو فیصد درست اور صائب ہے کہ کٹھ پتلی حکومت سے مذاکرات محض وقت کا زیاں ہے اسلئے کہ جن کے پاس اختیار ہی نہ ہو ان سے بات چیت سے کیا حاصل ہوگا۔ وہی ڈھاک کے تین پات ہونگے کیونکہ وہ ہاتھی ، جو سب جانتے ہیں کمرہ میں بیٹھا ہے وہ اگر ہلنے پہ آمادہ نہ ہو تو اس کے چیلوں سے سر کھپانے میں اپنا ہی نقصان ہے !
اصل نقصان تو پاکستان کے عوام کا ہے لیکن وہ خود اس کیلئے قصور وار ہیں، ذمہ دار ہیں اسلئے کہ جو قوم اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے بدلنے کی نیت اور حوصلہ نہ رکھتی ہو اللہ بھی اس کی مدد نہیں کرتا !
پاکستان کے عوام اگر فرعون کے تسلط میں رہنا چاہتے ہیں تو پھر کوئی موسیٰ، کوئی عمران ان کی مدد نہیں کرسکتا۔ ایسے سوئے ہوئے عوام کیلئے پھر زرداری، عاصم منیر، شہباز شریف اور چھٹ بھیئے محسن نقوی ہی کے جیسے چور، نوسرباز ، ٹھگ، اٹھائی گیرے مقدر ہوتے ہیں۔ یہ وہ ناعاقبت اندیش عوام ہیں جن کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ اگر صور بھی پھنکا جائے تو بھی یہ سوتے ہی رہیںگے!
سوتے رہیںگے تو پھر ان پر کم ظرف چھٹ بھیئے ہی مسلط رہیں گے اور ہم جیسے قوم کے غم میں دبلے ہوتے ہوئے یہی کہیںگے، اپنے معبود اور پالن ہار سے فریاد کرتے ہوئے :
انا گزیدہ جو خود کو خدا سمجھ بیٹھے
خدا پھر اس کو سزا بھی کڑی سناتا ہے
وہ جس کا ظرف بھی چھوٹا ہو، چھوٹی قامت ہو
اسے نمونہء عبرت بڑا بناتا ہے!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button