شرپسندی

شرپسندی

نرالے کھیل
یہاں سچا ہے کون او رکون جھوٹا
ہے خوب و زشت کا یہ میل دیکھو
برائی کو بھلائی کر دکھایا
سیاست کے نرالے کھیل دیکھو!

بدقسمتی سے پوری دنیا میں شرپسندی کی لہر آئی ہوئی ہے۔ اجتماعی طور پر بوجوہ قانون، امن پسندی اور آشتی کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔ غضب یہ ہے کہ وہ ممالک بھی اس قیامت کا شکار ہیں جو خود کو سیاسی اور سماجی استحکام کا مظہر قرار دیتے ہیں۔ ہم اس وقت برطانیہ کی بات کررہے ہیں جو اپنی انصاف پسندی، مساوی مواقع اور انسانی حقوق کا بہت بڑا علم بردار ہے۔ یہاں بھی کبھی کبھی ہنگاموں، توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں بعض سیاستدانوں کے بیانات بھی منافرت کی آگ بھڑکانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ چند دہائیوں کے پس منظر پر نظر ڈالیں تو برطانیہ میں تارکین وطن کے خلاف ایک منظم مہم چلائی گئی تھی اور اس مہم کے ایک بہت مقبول سیاسی کارکن ’’اینوک پاول‘‘ تھے جنہوں نے نعرہ لگایا تھا کہ برطانیہ میں تارکین وطن کی آمد پر مکمل پابندی لگائی جائے اور جو تارکین وطن یہاں موجود ہیں انہیں ان کے ملکوں کو واپس بھیجا جائے ان کا نعرہ تھا کہ برطانیہ صرف اور صرف سفید فام افرادکا وطن ہے یہاں رنگدار لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے وہ مقامی لوگوں کو بہکانے کے لئے یہ بہانے تراشتے تھے کہ تارکین وطن نے ان کے روزگار، ان کے مکانات یہاں تک کہ ان کی خواتین کو بذریعہ نکاح اپنے قبضے میں لے لیا ہے انہیں یہ خدشہ بھی تھا کہ تارکین وطن ان کی تہذیب، ثقافت اور اقدار کو بھی بدل دینگے۔ اُن کے ان بیانات کے بعد برطانیہ میں تارکین وطن کی زندگی مشکل ہو گئی ملازمتوں اور دیگر معاملات میں ان سے امتیازانہ سلوک عام ہو گیا۔ جگہ جگہ تارکین وطن پر حملے کئے جانے لگے اور برٹش نیشنل پارٹی کے سر منڈے غنڈوں نے مختلف علاقوں میں تارکین وطن پر حملے شروع کر دئیے اور انہیں زدوکوب کیا جانے لگا۔ حکومت کو احساس تھا کہ یہ تارکین وطن ہی ہیں جو برطانیہ کے ہسپتالوں اور ذرائع ابلاغ کو چلانے میں ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں اور انہیں ’’ملک بدر‘‘ نہیں کیا جا سکتا۔ معاملات کو قابو میں لانے کے لئے ایک طرف تو امن قائم کرنے کے اداروں کو فعال کیا گیا تو دوسری طرف نسلی امتیاز کے خاتمے کے لئے بہت سخت قوانین بنائے گئے۔ ان قوانین کی وجہ سے برطانیہ میں نسلی امتیاز میں بتدریج کمی آئی لیکن انسانی فطرت اس آگ کو مستقل طور پر بجھا نہیں سکی اب بھی کبھی کبھی اس آگ کے شعلے بھڑکتے نظر آتے ہیں اور اس نسلی امتیاز کا نشانہ عموماً مسلمان بنتے ہیں۔ کبھی کسی مسلم خاتون سے بدتمیزی کی جاتی ہے کبھی مسلم خواتین پر آوازیں کسی جاتی ہیں کبھی کسی مسجد میں نعوذ باللہ نجس جانور کا سر پھینک دیا جاتا ہے کبھی کسی عبادت گاہ کو نذر آتش کر دیا جاتا ہے۔ ان واقعات کے بعد برطانوی حکومت موثر اقدامات اٹھا چکی ہے۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر بھی حکومت نظر رکھے ہوئے ہے۔ حال ہی میں مسجد جلانے کی دھمکی والی ’’پوسٹ‘‘ سوشل میڈیا پر لگانے کے الزام میں کورٹ نے ایک 43سالہ شخص جیرائنٹ بوائس کو 2سال قید کی سزا سنائی ہے۔ بوائس نے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ 3کم عمر لڑکوں کے قتل کے الزام میں مسلمانوں پر عائد جھوٹے پروپیگنڈے کے دوران لگائی تھی جبکہ پولیس کی تحقیق کے مطابق قاتل ایک غیر مسلم نکلا تھا۔ اس پوسٹ کے نتیجے میں مسلمانوں پر متعدد حملے کئے گئے تھے اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا تھا یہاں تک کہ شر پسندوں کی طرف سے لندن کے میئر صادق خان کو بھی دھمکیاں مل رہی تھیں اور انہیں کہنا پڑا کہ مجھے اپنی بیٹیوں کے تحفظ کی فکرہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل برطانوی عدالت مسجد سے متعلق سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانے پر 53سالہ خاتون جولی سوینی کو 15مہینے قید کی سزا سنا چکی ہے۔ یہ پس منظر یہاں بیان کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ آج کی دنیا میں سوشل میڈیا لوگوں کی ذہن سازی میں بہت موثر اور اہم کردار ادا کررہا ہے اور بہت سے واقعات اور معاملات میں سوشل میڈیا دخیل ہو گیا ہے۔ برطانیہ ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے اس لئے سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی ’’پوسٹوں‘‘ کا فوراً پتہ لگا لیتا ہے اور معاملات پر قابو پانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ ہم برطانوی مسلمانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ تارکین وطن خصوصاً مسلمانوں کے معاملات میں سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کا موثر اور بھرپور جواب دیں تاکہ معصوم ذہن اس پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا مثبت و منفی ذہن سازی میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے اور ہمیں اس کے ’’خیر‘‘ اور ’’شر‘‘ سے آگاہ رہنا چاہیے۔

kamran